میں نشے میں ہوں


فرانسیسی ماہر معاشیات فریڈرک بستیات سے یہ جملہ منسوب ہے جس نے کہا تھا کہ دو ملکوں کی اشیا اگر سرحدیں عبور نہیں کرتیں تو پھر فوجی کریں گے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد تقریباً سب ملکوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اور پرانی دشمنیاں بھلاتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ یورپ جو 1946 تک آپس میں لڑتا رہا، اب ان 27 ملکوں میں آپ بغیر ویزہ لے کر ایسے چلے جائیں جیسے کراچی سے لاہور۔

اگر آپ گاڑی میں یورپ کے سفر پر ہوں تو زیادہ تر یورپی ملکوں کی سرحدوں پر کوئی چوکی یا بارڈر کنٹرول نہیں ملے گا۔ کبھی کبھی آپ ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں آ جاتے ہیں اور آپ کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اب آپ دوسرے ملک میں داخل ہو چکے ہیں۔

لیکن ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جس انڈیا کے ساتھ آپ کی تین ہزار کلو میٹر کی سرحد ملتی ہو اور اسی کے ساتھ تجارت نہ ہو تو حالات معاشی دیوالیہ پن کی طرف ہی جائیں گے۔

اگر پاکستان اور ہندوستان آپس میں تجارت کرنا شروع کر دیں تو اس کا حجم کم و بیش بیس بلین ڈالر تک کیا جاتا ہے۔

چائے کی پتی، ٹائر، لوہا، ادویات، پلاسٹک، کاٹن، تانبا اور اسی طرح کی تقریباً بارہ سو اشیاء ہیں جو باہمی تجارت کر کے تعلقات کو فروغ دے سکتی ہیں اور خصوصاً پاکستان کو اس معاشی صورتحال سے نکال سکتی ہیں۔

کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں۔ لیکن ذرا سکون کا سانس لے کر سوچیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟

آزاد کشمیر کے لوگ بھی مطمئن نہیں ہیں۔ بلوچستان کا حال آپ کو معلوم ہے، فاٹا میں ابھی آپریشن ہو چکا ہے اور تحریک طالبان پاکستان سے سیز فائر پر مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان ہم سے سنبھل نہیں رہا اور ہم چلیں ہیں کشمیر اور فلسطین آزاد کرانے۔

ہندوستان سے خیر سگالی اور اپنی ضرورت کے تحت بات کرنی پڑے گی۔ دونوں ملکوں نے بہت لاشیں اٹھا لی۔ اب دوستی ناگزیر ہے۔ اب ہمیں نشے کی حالت سے نکل کر، ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔

پاکستان آرمی کو اپنی پوری ایمانداری کے ساتھ سیاست دانوں کو یہ اشارہ دینا ہو گا کہ آپ لوگ آگے بڑھیں اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائیں۔

سیاست جماعتوں کو پاکستان کی خاطر ہندوستان سے بہتر تعلق کو پالیسی کے طور لینا ہو گا تاکہ یہ نہ ہو کہ جب ایک حکمراں تعلقات بہتر بنانے کی بات کرے تو دوسرا نعرہ لگائے کہ مودی کا جو یار ہے وہ غدار ہے۔ اور جب دوسرا وزیر اعظم بنے تو پہلے والا ہندوستان سے تعلقات کو کشمیر کے حل سے منسلک کرے۔

سارے عرب ممالک ہندوستان اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنا رہے ہیں۔ ترکی بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکا ہے۔

انقرہ اور استنبول میں اسرائیلی سفارت خانے کھل چکے ہیں۔ فلسطین کا الگ مسئلہ ہے جس کو سب سے زیادہ عرب ملکوں نے ہی خراب کیا ہے۔

جب ہم یہودیوں کی فیس بک اور گوگل صبح شام استعمال کر سکتے ہیں، جب ہم ان کی بنائی ہوئی دوائیاں کھا سکتے ہیں، جب ہم ان کی باسکن رابن آئس کریم کھا سکتے ہیں، جب ہم ان کا ڈیل Dell کمپیوٹر استعمال کر سکتے ہیں، جب ہم ڈریم ورکس اور وارنر برادرز کی بنائی ہوئی فلمیں بڑے شوق سے دیکھ سکتے ہیں، جب ہم اسٹار بکس کافی پی سکتے ہیں تو اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے کی کوئی منطق میری ناقص عقل سے باہر ہے۔

لیکن ان تمام باتوں کا ہم پر کیا فرق پڑتا ہے۔ ہماری نہ ہی کوئی راہ ہے اور نہ ہی کوئی منزل۔ ہم تو وہی سستی شراب پی کر لڑکھڑا رہے ہیں اور گائے جا رہے ہیں کہ

ٹھکراؤ اب کہ پیار کرو میں نشے میں ہوں
جو چاہو میرے یار کرو میں نشے میں ہوں
اب بھی دلا رہا ہوں یقین وفا مگر
میرا نہ اعتبار کرو میں نشے میں ہوں
کوئی ہے جو ہمیں اس حالت سے باہر نکال سکے اور حقیقت کی دنیا میں واپس لا سکے ورنہ یاد رکھیں کہ
”If goods don ’t cross borders, soldiers will“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments