ہاں بھئی کیسا دیا


۔

یار یہ آپ نے کیا کیا؟ کیوں کیا؟ کس بات کی جلدی تھی؟ ابھی تو آپ نے بہت جینا تھا، بڑی زندگی پڑی تھی، بہت انٹرٹین کرنا تھا، ہنسانا تھا، رلانا تھا، نازک اور گمبھیر صورتحال کا فرق بتانا تھا، گیمز کھلانی تھیں، روزے کھلوانے تھے، تحفے بانٹنے تھے!

مختلف طرح کے لوگ مختلف ادوار میں آپ کو مختلف طرح سے لیتے رہے لیکن میرے لئے آپ ہمیشہ ایک انٹرٹینر ہی رہے۔ نہ مقرر، نہ عالم، نہ سیاست دان، نہ سیاسی تجزیہ کار، نہ افسر، نہ ایک سے زائد بیویوں کے شوہر، نہ سوشل میڈیا سلیبرٹی بلکہ صرف ایک لائیو انٹرٹینر جس کا ہاتھ شو کے دوران اپنی آڈینس کی نبض پر رہتا تھا، جو اسٹوڈیو میں بدلتی ہوا کا رخ پہچان لیا کرتا تھا، جو اپنی باتوں اور انداز بیاں سے لائیو آڈینس کو کنٹرول کرنے کا گر بڑی اچھی طرح سے جانتا تھا اور جس کے تاثرات اور لہجے کے زیروبم سے محفل کا ٹمپریچر گھٹتا بڑھتا تھا۔ آج مجھے بول کی رمضان ٹرانسمیشن کے دوران اس سیدھے سادھے لڑکے کا آپ کے ساتھ مکالمہ یاد آ رہا ہے۔

لڑکا۔ میری والدہ یہاں بیٹھی ہیں، میرا بس نہیں چل رہا کہ میں آپ کے قدموں میں بیٹھ جاؤں۔ مجھے بس آپ کے ساتھ رہنا ہے عامر بھائی

میزبان : ارے میں تمہیں کہاں رکھوں اپنے ساتھ؟ عمرے کا ٹکٹ دو بھئی اس کو
لڑکا۔ لیکن عامر بھائی میں وہاں پر پہلی بار آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں
میزبان : ابھی نہیں جا رہا میں رمضان کے فوراً بعد جاؤں گا

لڑکا۔ بس میں تیار ہوں آپ کے ساتھ ہی جاؤں گا۔ میرا نمبر لے لیں پلیز آپ۔ میں تو دعا کرتا ہوں کاش آپ میرے والد ہوتے

میزبان : تل کے کھا لے بھائی تو مجھے۔ اس کو والنٹیئر لے لو یار ابھی۔ بول کی شرٹ پہناؤ مائیک لگاؤ، پیسے بھی لگاؤ اس کے مہینے کے۔ اس کی امی کو عمرے کا ٹکٹ بھی دو

اور پھر سینے سے لگائے جانے کے بعد وہ لڑکا خوشی خوشی والنٹیئر بننے اندر چلا جاتا ہے۔ سب جھوٹے ہوسکتے ہیں، پوری دنیا ڈھونگ رچا سکتی ہے لیکن وہ معصوم لڑکا نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ایسا تو میں نے کہیں بھی ہوتے نہیں دیکھا تھا، نہ فیملی فیوڈ میں، نہ ہو وانٹس ٹو بی اے ملینر میں، نہ دی اوپرا ونفری شو میں، نہ ستیہ مے و جیتے میں، نہ وہیل آف فارچون میں، کہیں بھی نہیں۔ یہ مزہ تو میں نے پہلی بار انعام گھر میں چکھا جہاں لوگ بھی اپنے تھے، زبان بھی اپنی تھی اور میزبان بھی اپنا اپنا سا۔ جب ہر چیز ہی میں اپنائیت تھی تو ہمارا آپ سے تعلق کیوں قائم نہ ہوتا؟

عامر بھائی مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ آپ کی زندگی میں آپ کے بارے میں کیا سوچتے اور کہتے رہے لیکن میں آج کچھ باتوں کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں

*ہاں میں ٹی وی پہ سنے آپ کے جملوں پر کئی بار دل کھول کر ہنسا
*ہاں میں آپ کے منہ سے نکلی دعاؤں پر آمین آمین کہتے ہوئے کئی بار رویا
*ہاں میں نے تنہائی میں بہت دفعہ آپ کے ٹی وی کی دور کی لیکڈ وڈیوز دیکھیں اور محظوظ ہوا
*ہاں میں نے اس کے بعد غالب فلم دوبارہ دیکھی
*ہاں میں نے انٹرنیٹ پر قصیدہ بردہ شریف ڈھونڈ کر نکالا
*ہاں میرا دل چاہا کہ کہیں سے انعام گھر کا ٹکٹ حاصل کر کے گاڑی جیتوں

*اور ہاں۔ کئی بار میرا دل چاہا کہ آپ کے ہاتھ سے بنا وہ حلیم پھر کھاؤں جو جیو کے اوائل دور میں آپ نے رچٹمنڈ ہوٹل میں سب کولیگز کو بڑی محبت سے اپنے ہاتھ سے بنا کر کھلایا تھا

عامر بھائی یار آپ کیسا دیا کیسا دیا کہہ کر دینے دلانے میں لگے رہے اور وقت آ گیا۔ کاش خاندانی مسائل اور سیاست کی چڑیل آپ سے نہ چمٹتی تو آپ میں موجود ایکس فیکٹر آپ کو ڈرامہ، تھیٹر، لالی وڈ اور ہالی وڈ کی کہکشاؤں تک لے جاتا، آپ بھی کچھ سیکھنے سکھانے کے عمل سے گزر کر کسی بڑے منچ پر اپنے اصل ہنر کی صحیح قیمت وصول کر رہے ہوتے، آپ میں وہ چیز تھی عامر بھائی آپ میں وہ چیز تھی۔

اور ہاں میں بھی انہی میں سے ہوں جنھیں یقین ہے کہ قصور آپ کا نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments