نیوڈ پریاں


میں جب بھی ٹینشن کا شکار ہوتا ہوں۔ ڈپریشن میرا میٹر گھمانے لگتا ہے۔ میرے دماغی پرزے ورک فٹیگ سے ڈھیلے پڑنے لگتے ہیں۔ میری شوگر ہائی اور وائٹیلٹی لو ہونے لگتی ہے تو میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیرون ملک ٹور پر نکل جاتا ہوں۔ یہ نسخہ مجھے میرے مرشد نے عنایت کیا تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ جب بھی زندگی میں آپ ڈاؤن فیل کرنے لگیں، آپ کی قوت کم ہونے لگے، آپ کی صلاحیتیں سلاجیت مانگنے لگیں تو فوراً بیوی اور کام سے دور بھاگ جائیں۔ یورپ چلے جائیں، دبئی چلے جائیں، تھائی لینڈ چلے جائیں۔ میں آج کل اسی سٹیج میں تھا۔ میں نے فوراً ٹکٹ بک کروائی اور یورپ کے ٹور پر نکل آیا۔

یورپ سے میری محبت کا آغاز لڑکپن میں ہوا تھا جب میں لالے موسے کے سینماوں میں انگلش فلموں کے ٹوٹے دیکھ دیکھ کر پروان چڑھ رہا تھا۔ اس وقت میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ میں انہی حسین پریوں کے دیسوں میں گھومتا پھروں گا جن کو میں سکرین پر دیکھ کر آہیں بھرا کرتا تھا اور انہیں اتنے قریب سے دیکھ سکوں گا کہ ان کی مونچھوں کا باریک رواں بھی میری عینک زدہ نظر سے نہیں بچ سکے گا۔ مجھے یاد ہے کئی سال پہلے جب میں پہلی دفعہ جنیوا کے ائرپورٹ پر اترا تھا تو مجھے دندل پڑ گئی تھی۔

لیکن اب میں یوز ٹو ہو گیا ہوں۔ اب میرا دل اور دماغ اس حسن کا عادی ہو چکا ہے بلکہ اگر کسی سال یورپ کا ٹور لیٹ ہو جائے تو میرا جسم ٹوٹنے لگتا ہے۔ جس کے اثرات میرے پروگرام اور کالمز پر بھی پڑنے لگتے ہیں۔ لہذا یورپ میری جسمانی بیٹری کے لیے موٹی پن والے چارجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ چارجنگ میں تاخیر ہونے لگے تو میرے سگنل ویک ہو جاتے ہیں اور میں اول فول بکنے اور لکھنے لگتا ہوں۔ اسی لیے مرشد نے مجھے بطور تعویذ یورپ کا ملٹی پل ویزا لگوا کے دیا ہے جو میں بطور برکت اپنے والٹ میں ہر وقت ڈالے رکھتا ہوں۔

اس دفعہ مجھے ایلپس کی ماؤنٹین رینج کا ٹور کرنا تھا۔ یہ یورپ کے سب سے اونچے پہاڑ ہیں۔ انہیں آپ یورپ کا کے ٹو اور ننگے پربت کہہ سکتے ہیں۔ یہ انتہائی خوبصورت پہاڑ ہیں۔ ان پر درخت ہیں اور برف ہے۔ وادیوں میں جھیلیں ہیں۔ یہ جھیلیں انتہائی خوبصورت ہیں۔ آپ وہاں خود کو پرستان میں محسوس کرتے ہیں۔ جہاں ہر طرف پریاں ناچتی گاتی اور تھرکتی نظر آتی ہیں۔ کچھ پریوں نے پروں کے علاوہ کچھ نہیں پہنا ہوتا اور کچھ نے تو پر بھی اتار کے رکھے ہوتے ہیں۔

برف سے ڈھکی پہاڑی چوٹیوں کا جھیل کے پانی میں عکس، سبزے سے لدی پہاڑی ترائیاں اور جھیل کے شفاف پانی میں ناچتی گاتی، چھینٹے اڑاتی نیوڈ پریاں۔ یہ ایکسپیرئینس آؤٹ آف دس ورلڈ ہوتا ہے اور بہت مزا آتا ہے۔ ایک لحیم شحیم پری نے مجھے دیکھ کر آنکھ بھی ماری اور پانی میں آنے کا اشارہ کیا۔ اس پر میں نے ایک قہقہہ لگایا۔ جس پر اس نے در فٹے منہ کا اشارہ کر کے دوبارہ پانی میں چھلانگ لگادی۔ یہی اس ماحول کی خوبصورتی ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سب دیکھ کے کوئی رانگ یا ڈرٹی فیلنگ نہیں آتی۔

جبکہ میرے دوست کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ میری شوگر ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر یہ پرستان ہے تو میں پرے کی بجائے جن ہوں وہ بھی عینک والا اور اگر جنت ہے تو شیطان۔ میں ایسی باتوں کو کوئی امپارٹنس نہیں دیتا۔ یہ ثابت کرتی ہیں کہ آپ زندگی میں کامیاب ہیں۔ میرے مرشد کہتے ہیں کہ جب لوگ آپ سے جیلس فیل کرنے لگ جائیں تو سمجھ لیں کہ آپ لائف میں سکسیس فل ہو گئے ہیں۔ میرا دوست اس بات سے متفق نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ لوگ مجھ سے جیلس نہیں ہیں بلکہ میرا توا لگاتے ہیں۔

میں اس کی بات پر ایک قہقہہ لگاتا ہوں اور اس کو بتاتا ہوں کہ یہ ہماری نیشنل مینٹیلٹی ہے۔ ہم ہر کامیاب اور جینئس بندے کو دو نمبر سمجھتے ہیں اور اس کی کامیابی کو کسی ملک نیاز کا مرہون منت سمجھتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس اعداد و شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہر پینتالیس لاکھ ستاسی ہزار چار سو انیسویں کے بعد چار سو بیسواں بندہ جینئس ہوتا ہے۔ آپ لالے موسے کی میونسپالٹی چلے جائیں۔ آپ وہاں کا ریکارڈ چیک کر لیں۔ آپ جان جائیں گے کہ وہ چار سو بیسواں بندہ کون ہے۔
وہ میں ہوں۔

جعفر حسین
Latest posts by جعفر حسین (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جعفر حسین

جعفر حسین ایک معروف طنز نگار ہیں۔ وہ کالم نگاروں کی پیروڈی کرنے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سنجیدہ انداز میں تاریخ گھڑتے ہیں

jafar-hussain has 113 posts and counting.See all posts by jafar-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments