پرانی ترجیحات کا نیا وفاقی بجٹ


بڑی مظلومیت کی موت مرنے والے مرحوم عامر لیاقت حسین کی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں وہ قومی اسمبلی کے ایک سیشن سے خطاب کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کو تقسیم کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے تاکہ تقسیم در تقسیم رہیں اور تقسیم کو مقدس مان لیں۔ مرحوم اپنے گناہ و ثواب کی ڈائری سمیت سفر آخرت پر روانہ ہو چکا ہے انسان صرف اس کے لئے دعا کر سکتا ہے لیکن ان کی یہ بات پتھر کی لکیر ہے۔

پاکستان کے معاشی سیاسی و دیگر معاملات اور اکثریت میں عدم استحکام کو دیکھتے ہوئے صرف ایک چیز جو سمجھ آتی ہے عامر لیاقت حسین کا وہ خطاب ہے کہ یہاں لوگوں کو تقسیم در تقسیم کیا گیا ہے۔ بظاہر اس تقسیم کا پہلو اور نکتہ نظر سیاسی اختلافات اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا ہے لیکن پس پردہ اتنی گہری جڑیں ہیں کہ شاید نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے لیکن تقسیم کی جڑیں اسی طرح مضبوط رہیں گی۔

وفاقی حکومت نے حالیہ دنوں ملک کی تاریخ کا سب سے مشکل ترین بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ حکومت کے وعدوں دعوؤں، پچھلوں پر تنقید اور حزب اختلاف کے الزامات تنقید اور اپنے دور میں دودھ شہر کی نہریں بہانے کے یادداشتوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاکستان بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایک ایک رکن کے گھر میں جاکر مذاکرات وعدے دعوے جھانسے اور بیانیے دکھا کر سابقہ حکومت سے الگ کر دیا گیا اور سابقہ حکومت اب بھی میں نہ مانوں کی رٹ لگا رہی ہے اور پاکستانی حکومت گھرانے کو امریکی سازش قرار دے رہی ہے، ساری دنیا اس وقت پاکستان کا تماشا دیکھ رہی ہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے، باہر سے آنے والی آمدن میں کچھ بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانی اور چند سیاح ہی رہ گئے ہیں اور عدم استحکام کی صورتحال کے باعث کوئی بھی یہاں اپنا سرمایہ لگانے کو تیار نہیں ہے۔

وفاقی حکومت نے تقریباً 727 بلین روپے کا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جو کہ سابقہ بجٹ سے یعنی 550 ارب سے 32 فیصد زیادہ ہے۔ کس شعبے کے لئے کتنا رکھا گیا ہے اور کیوں رکھا گیا ہے، یہ بحث زور و شور سے جاری ہے جس پر سے سیاسی پردہ ہٹا کر دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستانی حکومتوں کا بجٹ ہمیشہ سے عوام دوست رہا ہے جبکہ حزب اختلاف کے نکتہ نظر سے یہ بجٹ عوام دشمن رہا ہے۔ آئندہ مالی سال کے لئے جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس دوران پاکستان میں مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین یعنی 13 فیصد سے زائد رہی ہے جبکہ ملک بدترین سیاسی عدم استحکام اور بحران کا شکار ہے۔

ایسے میں ناگزیر ہے کہ پاکستان عوام دوست بجٹ پیش کرے اور اپنی ترجیحات کا نئے سرے سے تعین کرے۔ بجٹ کی تفصیلات جو میڈیا کے ذریعے پہنچی ہیں وہ مگر اس کے برعکس ہیں اور سابقہ روایات کا ایک تسلسل ہے۔ بدترین مالی بحران کے باوجود غیر ضروری اور قابو پائے جا سکنے والے شعبوں میں بھرپور بجٹ رکھا ہے، دفاعی بجٹ میں 6 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ صدر ہاؤس کے لئے ڈیڑھ ارب روپے، وزیراعظم ہاؤس کے لئے 1 ارب سے زائد، میٹرو بس اور اس جیسے متعدد منصوبوں کے لئے اربوں روپے رکھے گئے ہیں اور کمال یہ ہے کہ ان تمام کا بجٹ گزشتہ بجٹ سے زیادہ ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں صرف 2 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ صحت اور تعلیم کے شعبے کو بھی حسب سابق تقاریر میں اپنی ترجیح دکھائی گئی ہے۔ گلگت بلتستان لڑ جھگڑ کر بمشکل پچھلے سال کے بجٹ کے برابر پہنچ گیا ہے اور بقول وزیراعلیٰ خالد خورشید ہمارے پاس صرف ملازمین کی تنخواہ کا فنڈ رہ جائے گا۔

عوامی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو بجٹ میں صرف ملازمین کے 15 فیصد تنخواہ میں اضافہ کیا گیا ہے جو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور مالی مشکلات میں نہ ہونے کے برابر یا بہت کم ہیں۔ عام آدمی جن مشکلات کا شکار ہے ان سے نکلنے اور ملک کو دلدل سے نکالنے کے لئے صرف لارے اور لولی پاپ دیا گیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں کوئی حوصلہ افزاء بات نظر نہیں آتی ہے سوائے مریم نواز کے ٹویٹر کے۔ عوام کے توقعات کا تو یہاں ذکر ہی نہیں ہے کہ جن کو سنہرے خواب دکھائے گئے کہ نئی حکومت آتے ہی مہنگائی کنٹرول ہوگی، پٹرول 70 روپے ہو گا، گھر کی دہلیز پر پانی ملے گا، صحت کی سہولیات ملیں گی اور بہت سارے۔

بدترین مالی مشکلات اور عدم استحکام، 201 روپیہ فی ڈالر قیمت، بیرونی ذخائر کی نچلی سطح، گرتی ہوئی جی ڈی پی گروتھ اور ہر معاملے پر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے والی حکومت سے توقع یہ تھی کہ بامقصد بجٹ پیش کریں گے لیکن سابقہ ترجیحات سے نکل کر کچھ نیا نہیں کیا گیا، بامقصد بجٹ پیش کرنے کی صلاحیت ہی نظر نہیں آ گئی۔ نجی شعبے کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کے لئے کوئی شاید تقریر میں کوئی ذکر بھی نہیں کیا گیا۔

ایسی بدقسمتی ہے کہ لوگ سرکاری نوکری میں ہی اپنا محفوظ مستقبل دیکھ رہے ہیں، سوائے ملازمت کے کوئی اور شعبہ بچا ہی نہیں ہے۔ ان لوگوں کے متعلق کوئی غور و خوض بھی نہیں ہے جو ملازمت کے نام پر سرکار پر بوجھ نہیں بنے ہیں، ان لوگوں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے جو غربت کی لکیر کے آس پاس یا اس نیچے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی سابقہ حکومت اس لحاظ سے انتہائی خوش قسمت تھی کہ سی پیک کے عروج میں انہوں نے حکومت سنبھالی اور سی پیک کے منصوبوں کی ریل پیل کرائی جس کی وجہ سے بظاہر معاملات مستحکم ضرور ہوئے لیکن ان منصوبوں پر ایسا بریک لگایا گیا کہ ٹائر ہی پنکچر کر گیا اور مکمل یکسوئی نصیب ہو گئی۔

اس اہم اور نازک موڑ پر عوامی سطح پر جو رائے اپنانی چاہیے وہ یہی ہے کہ اعداد و شمار پر بیٹھ جائیں۔ اپنے حکمرانوں سے اپنی ضروریات اور ملکی صورتحال کے تحت پوچھیں۔ مگر بات عامر لیاقت حسین مرحوم کی ہی آ رہی ہے کہ تقسیم برائے تقسیم کی بنیاد پر پوری قوم ایسے نہج پر کھڑی ہو گئی ہے کہ برف پگھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ سیاسی چمکیلے رہنماؤں کے پیچھے کھڑے ہونے کی بنیاد پر سیاستدانوں کی چمک تو نظر آ رہی ہے لیکن ملک کی صورتحال نظر نہیں آ رہی ہے۔

حکومت ہمیشہ ٹانگیں رگڑ کر آئی ایم ایف کے پاس پہنچنا اور ان سے جھوٹے وعدے کر کے قرضے لینا اپنا فرض عین سمجھتی ہے، آئی ایم ایف پاکستان کے حکمرانوں کے لئے افیون کا وہ نشہ بن چکا ہے جو پیچھا چھوڑتا ہی نہیں ہے بلکہ شاید وہ وقت بھی آن پہنچا ہو گا کہ حکومت آئی ایم ایف سے جان چھڑانا چاہتی ہوگی لیکن اب آئی ایم ایف حکمرانوں کی بلکہ ملک کی جان نہیں چھوڑ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments