کشمیر: جنت ایسی ہی ہو گی


بہت سنا تھا جنت دیکھنا ہو تو کشمیر دیکھو۔ لیکن اندازہ نہیں تھا کہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے۔ جون کے پہلے ہفتے کشمیر جانے کا پروگرام بنا۔ لاہور سے کشمیر کا سفر بہت طویل ہے اس لیے ایک رات اسلام آباد میں قیام کیا۔ کشمیر شروع ہوتے ہی ہماری ملاقات وہاں موجود ٹورسٹ گائیڈ پولیس سے ہوئی۔ انہوں نے ہمیں ویلکم کیا باغ کا نقشہ دیا اور ہمارے ساتھ موجود وہاں کے مقامی کولیگ کو تاکید کی کہ ہمیں کون کون سی جگہ گھمایا جائے۔

یہیں ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا وہاں چائے پی اور ہم فریش ہوئے اس کے بعد سفر تھا پہاڑوں کی چڑھائیوں کا۔ اس پہ ہمارا ڈرائیور پہلی منزل پہ ہی ہمت ہار گیا۔ ہمارے ساتھ موجود ایک دوسرے کولیگ جو پہلے ان علاقوں میں آچکے تھے، انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ پھر بھی یہ مشکل سفر تھا گو کہ مکمل اور پختہ سڑک تھی لیکن اکثر جگہوں پہ گاڑی سے اترنا پڑتا تھا ہمیں خواتین ہونے کا یہ فائدہ رہا کہ بار بار اترنا نہیں پڑا۔

یہ علاقہ بہت خوبصورت ہے ہمیں غنی آباد جانا تھا جو کہ ضلع باغ کا گاؤں ہے۔ یہاں میں سب بہت حیرت سے دیکھ رہی تھی پہاڑوں میں سفر اور اوپر نیچے بنے گھر ہر طرف ہریالی اور خوبصورتی۔ ہر موڑ کے بعد ہمارے میزبان عدنان صاحب کہتے وہ سامنے جو سرخ گھر نظر آ رہا ہے اس کے پاس میرا گھر ہے اور ہر دوسرے موڑ پہ وہ پہاڑ بھی اوجھل ہو جاتا اور گھر بھی بہرحال ساڑھے چار گھنٹے ایسے ہی گزرے ایک جگہ گاڑی نے بالکل جواب دے دیا سب لوگ اتر گئے وہاں کے مقامی لوگ بہت بے لوث اور مددگار ہیں دو لڑکے بائیک پہ جا رہے تھے وہ رکے اور گاڑی کو دھکا لگایا اتنے میں عدنان صاحب نے اپنے والد صاحب کو فون کیا اور وہ اپنی گاڑی میں ہمیں لینے آ گئے انہوں نے سب سے پہلے خواتین کو ساتھ لیا اور گھر ڈراپ کیا۔

یہاں ہمارا استقبال ان کے گھر میں موجود خواتین نے بہت محبت سے کیا۔ گھر بہت صاف ستھرا۔ اور خوبصورت تھا۔ مجھے انگلش موویز کے پرانے گھروں کی طرح لگا ویسے ہی باہر پھل کا درخت اور اس کے نیچے بینچ۔ سکون، صاف اور ٹھنڈی ہوا۔ گھر چار قطار میں بنائے ہوئے کمروں کی صورت تھا جس کے سامنے ٹیرس، اور ایک کامن باتھ روم، ایک کمرہ کچن بنایا گیا تھا جس میں گیس کا سلینڈر بھی تھا اور لکڑیاں جلانے کا چولہا بھی۔ گھر ساتھ ساتھ تھے اور مزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی گھر میں مین گیٹ نہیں تھا نہ ہی گھر کو لاک کرنے کا تصور صرف رات کو سوتے ہوئے اپنے کمرے کو اندر سے بند کر لیں، اتنا بے فکری اور امن و امان والا ماحول ذہن پہ بہت مثبت اثر ڈال رہا تھا۔

شام کو میں باہر نکلی تھوڑا گھوم پھر کے ارد گرد کا علاقہ دیکھا۔ پہاڑوں میں بنے گھر صاف ستھرا آسمان اور دور دور تک ستارے بہت مسحور کن تھے۔

اگلے دن ملوٹ جانا ہوا وہاں ایک چھوٹی مارکیٹ ہے۔ یہ بازار بھی صاف اور سادہ تھا۔ گو کہ وہاں پردے کا رواج ہے لیکن میں نے جینز شرٹ پہنی تھی اس کے باوجود کسی نے آنکھیں پھاڑ کے نہیں دیکھا جیسا کہ عموماً ایسے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں خواتین پردہ کرتی ہیں۔ اسی بازار میں ایک خواتین کا چھوٹا سا مال بھی تھا جس میں خواتین ڈیل کرتی ہیں اور دروازے پہ نوٹ تھا کہ ”یہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے۔“ باغ سے واپسی پہ ہم نے ایک چشمے سے پینے کا پانی بھرا یہ پہاڑوں سے آنے والا پانی ہے جو ایک پائپ سے آتا ہے اور اس کا انتظام محبوب صاحب کے والد نے اپنے دور میں کروایا تھا جب وہ باغ میں کسی عہدے پہ تھے۔

کشمیر کے علاقے میں زیادہ تر مرد روزگار کے سلسلے میں دوسرے علاقوں میں مقیم ہیں اس لیے یہاں پانی بھرنے سے لے کے مویشی چرانے تک ہر جگہ خواتین نظر آتی ہیں۔ اگر ان علاقوں میں روزگار کے مواقع ہوں تو ایک تو بڑے شہروں کا بوجھ کم ہو جائے دوسرا یہ لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہوئے زیادہ بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔ کشمیری بہت محبت، احترام، پیار کرنے والے اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہمارے میزبانوں نے ہمیں مکمل وقت دیا بلکہ ان کی رشتہ دار خواتین بھی ساتھ ساتھ رہیں۔

یہ آج کے جدید دور سے الگ سادہ اور پرسکون دنیا ہے، نہ یہاں برانڈز کی دوڑ ہے نہ کھانا کلک کر کے اپ ڈیٹ کرنے کی۔ کسی قسم کی کوئی نیگٹیوٹی نہیں ہے نہ کوئی گوسپ کرتا ہے نہ ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچتا ہے سب محبت سے مل جل کے رہتے ہیں نہ کسی پہ کوئی احسان جتاتا ہے کہ ہم نے تمہیں وقت دیا ہے۔ یہ واقعی جنت ہے جہاں سکون اور مثبت انرجی ہے۔ یہاں سے رخصت ہوتے ہوئے ہمارے میزبان نے ہمیں تحائف دیے۔

اگلے دن گنگا چوٹی جانا تھا یہ سطح سمندر سے بائیس ہزار فٹ کی بلندی پہ ہے راستے میں سامان سدھن گلی ایک ہوٹل میں رکھا اور گنگا چوٹی کی طرف روانہ ہوئے یہاں سڑک اور بھی ڈھلوان تھی اس کی وجہ سے جگہ جگہ رکنا پڑا۔ گنگا چوٹی ایک الگ جہان ہے۔ ایک طرف دھوپ تو دوسری طرف چھاوں۔ ایک دم سے تیز ہوا بادل اور بارش اور پھر ایک دم سکوت۔ بہت خوبصورت جگہ ہے یہاں سیاحوں کا کچھ رش تھا لیکن بہت زیادہ نہیں۔ یہاں پہ ہائیکنگ مشکل ہے کچھ جگہ پہ پتھر بہت سیدھے جہاں سے پھسلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

بہر الحال جتنا ہو سکا ہائیک کیا۔ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک جانا کافی مشکل تھا لیکن رستے میں بیٹھتے سانس لیتے یہ بھی کر لیا۔ میں ڈھونڈ کے ان جگہوں پہ بیٹھی جہاں لوگ نہیں تھے اور اس راستے پہ گئی جو زیادہ استعمال میں نہیں آتا کہیں کوئی خوف محسوس نہیں ہوا کہ کوئی مس ہیپ ہو گا سوائے اس کے کہ ایک جگہ مجھے راستہ نہیں ملا کہ آگے کہاں جانا ہے واپس اوپر جانا پڑا اور پھر سمجھ آیا۔ ایک دو جگہ بیٹھ کے چائے پی وہاں بھی مجھے انہوں نے اپنے علاقے کی خوبانی اور آلو بخارے کمپلیمنٹری دیے کہ یہ ہمارے علاقے کا پھل ہے۔ یہ علاقہ ابھی اتنا کمرشلائزڈ نہیں ہوا ہے لوگ مادیت پرست نہیں ہیں بلکہ مخلص ہیں۔ مجھے ایک بہت تجسس تھا کہ پہاڑوں میں لوگ بالکل کنارے والے پتھر پہ کیوں بیٹھتے ہیں اس لیے میں بھی ایسے پتھروں پہ بیٹھی بہت سکون ملتا ہے۔ پرسکون جگہ پہ بیٹھ کے ایک انرجی ملتی ہے جو دماغ کو سکون بخشتی ہے۔

کشمیر میں ایک چیز بہت اچھی لگی یہاں بہت ہریالی ہے، پھل ہیں پانی کی کمی نہیں ہے لیکن پھر بھی سب لوگ اپنے گھر میں لگے درختوں اور گھر کے آس پاس پرندوں اور جانوروں کے لیے پانی اور کھانا رکھتے ہیں۔ یہ اصل انسانیت ہے۔ یہ دنیا سے الگ خطہ ہے یہاں کے لوگ مختلف ہیں۔ کوئی ٹشو پیپر کلچر نہیں ہے نہ وقت اور پیسے کی دوڑ ہے ایک آسان، سادہ اور خوبصورت زندگی ہے۔ کشمیر کشمیر ہے، جنت ایسی ہی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments