سپہ سالار کا منفرد ریکارڈ


عساکر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے چھ سالوں میں ایک ایسا ریکارڈ بنایا جو کبھی نہیں ٹوٹے گا۔ میاں نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کی بطور سپہ سالار مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد دو ہزار سولہ میں تین سال کے لیے جنرل باجوہ کو سپہ سالار بنایا۔ دو ہزار سولہ کے اوائل میں اسلام آباد کی شاہراہوں پر بینر لٹکے دیکھے جن پر راحیل شریف کی فوٹو کے ساتھ لکھا ہوا تھا ”جانے کی باتیں جانے دو“ تجسس بڑھا کھوج لگائی کہ اس تحریر کے ساتھ بینر لگانے کے پیچھے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں۔ کھوج پر معلوم ہوا کہ بائیس کروڑ عوام کی نہیں اکیلے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع لینے کی خواہش ہے۔

میں نے فروری 2022 میں میاں نواز شریف کے دست راست سینیٹر عرفان صدیقی کا انٹرویو کیا تھا تو انھوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ میاں نواز شریف اس پر رنجیدہ تھے کہ ایک دن جنرل راحیل شریف ملاکا کین کی چھڑی ہاتھ میں تھامے میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے آئے اور اپنے لیے مدت ملازمت میں توسیع مانگی تھی۔ یہ انٹرویو ملک کے معروف اخبارات میں بھی چھپا تھا اور میرے ادارے انٹرنیشنل نیوز نیٹ ورک کے یوٹیوب چینل پر بھی آن ائر ہوا تھا۔

خیر بات ہو رہی تھی موجودہ سپہ سالار کے ریکارڈ کی تو دو ہزار سولہ سے دو ہزار انیس تک سپہ سالار نے تین وزرا اعظم کے ساتھ کام کیا۔ چہار دانگ عالم پانامہ کا شور اٹھا تو میاں نواز شریف وزیراعظم تھے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ایک دن سپہ سالار نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور انھیں کہا کہ وہ اپنی پوزیشن کلیر کریں۔ میاں نواز شریف نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ حضور یہ ہیں ہمارے ذرائع آمدن مگر فیصلہ شاید کہیں ہو چکا تھا کہ میاں نواز شریف کو گھر بھیجنا ہے۔ پانامہ عدالتوں میں چلا اور فیصلے میں میاں نواز شریف اقتدار سے نکالے گئے نون لیگ سے ہی تعلق رکھنے والے شاہد خاقان عباسی نے وزارت اعظمی کا حلف اٹھایا۔ دو ہزار اٹھارہ میں اسمبلی کی مدت پوری ہوئی جسٹس ناصرالملک نگران وزیراعظم بنے۔

دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات ہوئے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کیے گئے سابق وزیراعظم عمران خان کی تحریک انصاف سب سے زیادہ نشستیں لے کر کامیاب ٹھہری۔ حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں ان کے پاس کم تھی۔ مختلف فکر رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر کے انھوں نے حکومت بنائی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کی رات سسٹم کا بھٹہ نہ بیٹھتا تو شاید تحریک انصاف کم نشستیں حاصل کرتی ممکن ہے یہ اپوزیشن کی سیاست کی ایک چال ہو جسے وہ چار سال تک استعمال کرتی رہی۔

عمران خان وزیراعظم بنائے گئے چار سال اقتدار میں رہے سپہ سالار کے ساتھ ایک صفحہ پر نظر آتے رہے۔ دو ہزار انیس میں عمران خان نے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دی جسٹس آصف سعید کھوسہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے انھوں نے اس پر سوموٹو لیا کچھ آئینی سوالات کھڑے کیے معاملہ پارلیمان میں گیا جنرل قمر جاوید باجوہ عساکر پاکستان کی تاریخ میں واحد سپہ سالار ہیں جنھیں اپوزیشن اور حکومتی ممبران اسمبلی نے متفقہ طور پر پارلیمان سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع پر مہر لگائی۔

کہا جا رہا ہے کہ ستمبر دو ہزار اکیس میں نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر اسٹیبلشمنٹ اور عمران حکومت کے درمیان تعلقات میں دراڑ آئی۔ عمران حکومت اپوزیشن کے نشانے پر رہی ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کے اکا دکا واقعات ہوتے رہے۔ اپوزیشن مہنگائی کو لے کر مارچ بھی کرتی رہی مگر عمران حکومت پیروں پر جمی رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ پشت پر اسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی۔ مارچ دو ہزار بائیس آتا ہے عمران حکومت کے پاؤں اکھڑنا شروع ہوتے ہیں بالآخر دو ماہ کے بعد اپوزیشن مکمل آئینی اور جمہوری راستہ اختیار کرتے ہوئے ان کے خلاف تحریک اعتماد کے ذریعے انھیں وزارت اعظمی سے سبکدوش کر دیتی ہے۔

سپہ سالار چھ سالوں میں پانچ وزرا اعظم کے ساتھ کام کرتے ہیں واقفان حال بتاتے ہیں ایک نہیں نصف درجن کے قریب ایسے مواقع آئے کہ جمہوریت پٹڑی سے اتر سکتی تھی مگر سپہ سالار نے جمہوریت کو بچایا تاکہ ملک ترقی کر سکے۔ ملکی ترقی کا راز جمہوریت میں ہی پوشیدہ ہے اور سپہ سالار اس راز کو بھانپ گئے تھے انھوں نے جمہوریت کے خلاف ہر سازش کو عملی طور پر ناکام بنایا۔ امسال نومبر میں ان کی مدت ملازمت پوری ہو رہی ہے نومبر سے قبل اگر انتخابات ہوتے ہیں تو سپہ سالار اس منفرد ریکارڈ کے مالک بن جائیں گے کہ بطور سپہ سالار چھ وزرا اعظم کے ساتھ کام کرنے کا انھوں نے چھکا جڑا ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments