شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں آتشزدگی: ’آگ ایسی تھی جیسے اللہ کا عذاب، چلغوزے کا ایسا جنگل دوبارہ اگنے میں 100 سال لگیں گے‘

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، شرغلی


شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں آتشزدگی
’آگ ایسے تھی جیسے اللہ کا عذاب آیا ہو۔ یہ خود ہی پھیلتی گئی۔ یہ جنگل ہمارے بچوں اور باپ، دادا کی زندگی تھی۔ چلغوزے کے درخت ہمارا ذریعہ معاش تھے۔ ہمارے پاس اب تین فیصد بھی جنگل نہیں بچا۔‘

بلوچستان کے ضلع شیرانی کے گاؤں شرغلی کے رہائشی غلام سخی یہ بات کوہِ سلیمان میں 9 مئی کو لگنے والی آگ کے بارے میں بتاتے ہوئے کر رہے تھے۔

ضلع شیرانی صوبہ بلوچستان کے ژوب ڈویژن کا حصہ ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہاں 9 مئی کو لگنے والی آگ کے بعد حکومت کی جانب سے ابتدائی امدادی کیمپ 21 مئی کو لگایا گیا، تب تک آگ لگے 15 دن سے زیادہ گزر چکے تھے۔

’اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے کی کوشش کی‘

اس دوران غلام سخی اور شرغلی گاؤں کے دیگر افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت آگ کو بجھانے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک بھی ہوئے جن میں سے دو غلام سخی کے بھتیجے تھے۔

’مجھے رات نو بجے پتا چلا کہ آگ لگ گئی ہے تو میں نے باقی لوگوں کو جمع کیا اور ہم ہمت کر کے جنگلات کی طرف چلے گئے۔‘

غلام سخی نے بتایا کہ ’اپنی مدد آپ‘ کرنے کو پشتو میں ’اشر‘ کہتے ہیں۔

’جب ہم گیارہ بجے واپس آئے تب تک آگ قابو میں آ چکی تھی۔‘

غلام سخی نے کہا کہ مگر جب وہ صبح نیند سے اٹھے تو انھیں ایک اور فون آیا کہ آگ دوبارہ لگ گئی ہے۔ ’تب پتا چلا کہ آگ بجھانے کے لیے جانے والے دو بندوں کو تو اللہ نے بچا لیا لیکن باقی تین، جن میں میرے بھتیجے بھی شامل تھے، آگ کی زد میں آ کر جھلسے اور ہلاک ہو گئے۔‘

شیرانی میں چلغوزے کے جنگلات میں آتشزدگی

آگ بجلی گِرنے سے لگی یا لوگوں نے لگائی؟

شرغلی گاؤں پہنچنا اور وہاں سے چلغوزے اور زیتون کے جنگلات تک رسائی کا راستہ دشوار گزار ہونے کے ساتھ ساتھ شہری علاقے سے خاصا دور ہے جبکہ یہ علاقہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔

یہ ایک جانب افغانستان کے صوبے پکتیکا جبکہ دوسری جانب جنوبی وزیرستان سے ملتا ہے۔

ماضی قریب میں یہاں آگ لگنے کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں اور ہر بار لوگ اپنی مدد خود کرتے ہیں اور آگ کو مزید آگے بڑھنے سے بچا لیتے ہیں۔

لیکن اس بار مقامی آبادی کی جانب سے آگ کی نوعیت الگ قسم کی بتائی جا رہی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ انھیں انتظامیہ نے بتایا کہ آگ بجلی گِرنے سے شروع ہوئی اور تیز ہوا کے باعث مزید علاقوں تک پھیل گئی جبکہ مقامی افراد بجلی گِرنے کی بات سے متفق نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آگ ’کسی کے لگانے سے شروع ہوئی‘ اور ہوا کے ذریعے بڑھی لیکن اس بات کی تصدیق تاحال نہیں کی جا سکی۔

آگ لگنے کے مقام کا جب دورہ کیا گیا تو یہاں شہروں کے برعکس موسم قدرے بہتر تھا اور مزید پتا چلا کہ آگ دس یا بیس کلومیٹر کے فاصلے پر الگ الگ مقام پر شروع ہوئی اور ہوا کے باعث پندرہ دن تک اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔

انتظامیہ کی جانب سے تاخیر پر یہاں کے مکینوں نے احتجاجی کیمپ لگایا اور خوب شور شرابا کیا، جس کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی۔ انتظامیہ کے حرکت میں آنے سے پہلے تک یہاں کے مکین خود سے آگ بجھا رہے تھے۔

’کمبل اور چادر سے آگ بجھانے کی کوشش کی‘

غلام سخی نے بتایا کہ آگ بجھانے کے لیے لوگ کمبل، چادر اور گھروں سے بالٹیوں میں پانی بھر بھر کر لے کر جاتے رہے۔

’اگر آگ زیادہ بڑے رقبے پر نہ لگی ہو تو یہ طریقہ کار کام کر جاتا ہے لیکن اگر آگ زیادہ ہو تو پھر ریسکیو ٹیم کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘

لیکن غلام سخی نے کہا کہ اپنے بھتیجوں کی لاشیں دیکھ کر ان کو ’خوف کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی آیا کہ یہ آگ بجھانا ہمارے بس سے باہر ہے۔‘

انتظامیہ کی جانب سے این ڈی ایم اے اور اور پی ڈی ایم اے کو احکامات جاری کیے گئے کہ آگ پر جلد از جلد قابو پایا جائے لیکن کچھ روز کی کوششوں کے بعد پڑوسی ملک ایران سے مدد لی گئی اور الیوشین آگ بجھانے والے جنگی طیاروں کی مدد سے آگ کو بجھایا گیا۔

دوسری جانب، احتجاجی کیمپ کا دورہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کیمپ اس وقت بالکل خالی پڑا ہوا ہے کیونکہ اب تمام تر لوگ خود کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

نقصان کا اندازہ لگانا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ یہاں پر رہنے والے ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش چلغوزوں کے جنگلات سے جڑا ہے۔اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے دورہ کرنے والی ٹیم کے مطابق آگ لگنے کے بعد تقریباً 30 فیصد جنگلات متاثر ہوئے ہیں جبکہ صرف مئی کے مہینے میں پاکستان کے مختلف جنگلات میں آگ لگنے کے 300 سے زیادہ واقعات پیش آ چکے ہیں۔

غلام سخی کے 33 برس کے بھتیجے محمد نور کی بیوہ کو غیر لوگوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔ انھوں نے اپنی شناخت کرائے بغیر بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے شوہر چلغوزے کے جنگلات اگانے کے لیے سات لاکھ روپے قرض لے چکے تھے، جو اب مجھے چُکانا ہو گا۔ میری حالت یہ ہے کہ میرا اور دو بچوں کا خرچہ اب میرا دیور اٹھا رہا ہے۔‘

اسی طرح محمد نور کی والدہ نے بتایا کہ آج سے 65 سال قبل اسی طرح کی آگ لگی تھی ’لیکن تب بھی ہم نے وہ آگ خود بجھائی تھی۔ اس بار ہم سے آگ بروقت نہیں بجھ پائی۔‘

محمد نور کے گھر کے پاس موجود ایک رہائشی موٹربائیک پر اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے رُکے اور بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ہمارا کاروبارِ زندگی خراب ہو چکا ہے۔ میری، میرے بچوں، سب کی زندگی اس کاروبار سے جڑی ہے۔ اب اللہ کرم کرے گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

شیرانی میں چلغوزے کے جنگل میں آگ: 26 ہزار ایکڑ پر محیط قیمتی جنگل تباہی کے دہانے پر

خیبر پختونخوا: شانگلہ میں جنگل کی آگ ایک ہی خاندان کے چار افراد کو نگل گئی

سوات کے دلکش جنگلات جہاں رات کی خاموشی میں آگ لگا دی جاتی ہے

سالمین خپلواک

سالمین خپلواک خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے جنگلات میں آگ لگنے کے معاملات کو اجاگر کرنے میں خاصے سرگرم ہیں

’ایسا جنگل دوبارہ اُگنے میں 100 سال کا عرصہ لگے گا‘

شرغلی میں کوئٹہ سے آئے سالمین خپلواک کہتے ہیں کہ ’افسوس کے ساتھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ان دور دراز علاقوں پر صرف تب بات ہوتی ہے جب یہاں آگ لگ جائے یا پھر پولیو کا کوئی نیا کیس سامنے آ جائے۔ باقی گیارہ ماہ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔‘

سالمین خپلواک خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے جنگلات میں آگ لگنے کے معاملات کو اجاگر کرنے میں خاصے سرگرم ہیں۔

اُن کی اپنی کہانی یہ ہے کہ جب انھوں نے یکے بعد دیگرے اسلام آباد میں ان جنگلات میں لگنے والی آگ سے متعلق پریس کانفرنس کی تو کچھ حلقوں سے انھیں سرکاری ملازم ہونے کا طعنہ دیا گیا۔

’مجھے کہا گیا کہ آپ کیا اپنا اصل کام چھوڑ کر جنگلات کے بارے میں بات کرتے پھِر رہے ہیں؟ تو میں نے اپنی ملازمت سے استعفی دے دیا اور پھر ایک اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے لوگوں کو دوبارہ یاد دہانی کرائی کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں لگنے والی آگ پر دھیان دیا جائے۔‘

سالمین نے دعویٰ کیا کہ ایسا جنگل دوبارہ اگنے میں 100 سال لگتے ہیں۔ ’چلغوزے کے یہ درخت ایک سال میں ایک سینٹی میٹر اُگتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہماری آواز سوشل میڈیا پر تو سُنی جاتی ہے لیکن یہاں پاکستان میں لوگ موسمیاتی تبدیلی پر کچھ سُننا نہیں چاہتے۔‘

شمالی بلوچستان کے ڈپٹی کمشنر زعیغم علی کے دفتر نے بتایا کہ آگ لگتے ہی ان کی ٹیم امدادی ٹیم کے ساتھ جنگلات کا معائنہ کرنے اور لوگوں کی جان بچانے پہنچ چکی تھی جبکہ خپلواک نے بتایا کہ اب تک کوہِ سلیمان میں آگ لگنے سے ایک لاکھ کے قریب چلغوزے کے درخت جل کر راکھ ہو چکے ہیں۔

جہاں ایک طرف یہاں کے رہائشی اپنے کاروبار کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں وہ حکومت اور انتظیامیہ کو متنبہ بھی کر رہے ہیں کہ اگر دھیان نہ دیا گیا تو آگ لگنے کے یہ واقعات بڑی تباہی کی طرف جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32542 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments