روداد سفر حصہ 25


ایوو چائنا میں عید کی بھی عجیب ہی رنگینی ہوتی ہے۔ عید سعودی حکومت کے اعلان کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ اور رمضان کی شروعات بھی سعودی حکومت کے ساتھ۔ اگر سعودی حکومت ایک دن پہلے اعلان کر دے تو ٹھیک ورنہ وقت کے فرق کی وجہ سے جو چھ گھنٹے کا ہے رات دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کسی ایک بھائی کو خبر پہنچتی ہے تو وہ سب اپنے جاننے والوں کو میسج کر دیتا ہے۔ پھر پہلے حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے کہ ہم فلاں وقت عید کی نماز ادا کریں گے تاکہ وہ ٹریفک کے انتظامات کر لے۔

اب تو حکومت اپنے حساب سے بتاتی ہے کہ آپ فلاں دن عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ تو ایک دوسرے کو جاننے والے کہیں اکٹھے ہو کر نماز عید ادا کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت کی اجازت کے بعد ایوو کی بڑی مسجد میں نماز ادا کی جاتی ہے تو سڑک بھی بند کرنی پڑ جاتی ہے۔ نزدیک علاقوں میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے چائنیز مسلمان بھی عید کی نماز کے لیے لازماً آتے ہیں۔ یہاں کوئی عزیز رشتہ دار نہیں ہوتا لیکن سارے اپنے ہوتے ہیں۔ نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بچوں کے پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس میں مسلمان چھوٹے بچے جو ایک مسلمانوں کے مونٹیسری سکول میں پڑھتے ہیں ٹیبلو وغیرہ پیش کرتے ہیں۔ بچوں کی تفریح بھی ہو جاتی ہے اور سکول کی ایڈورٹائزنگ بھی۔ لیکن بعد میں شاید حکومت کی طرف سے اس پر بھی کچھ سختی کر دی گئی۔

نماز کے بعد مختلف دوست اکٹھے بیٹھتے ہیں اور اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ مجھے نجیب اپنے ساتھ ایک یمنی دوست محمد علی کے گھر لے گیا اور محمد علی بھائی کی بیوی احمد بھائی کے گھر عورتوں کی محفل میں۔ میری بیوی کو احمد بھائی کی بیوی نے بلا بھیجا کہ ان کے گھر یمنی خواتین اکٹھے کھانا کھائیں گی۔

نجیب کے ساتھ محمد علی بھائی کے گھر آہستہ آہستہ ہم کوئی اٹھارہ بیس لوگ اکٹھے ہو گئے۔ تو دعوت کی ابتدا مٹھائی سے ہوئی جو کوئی بھائی یمن سے ساتھ لے کر آیا تھا اور ساتھ کالی چائے بغیر دودھ کے۔ سارے فرش پر بچھی کارپٹ پر تکیے لگا کر بیٹھے تھے۔ ہنسی مذاق عربی زبان میں جاری تھا اور ساتھ ساتھ نجیب اور ان کا داماد حسین مجھے انگریزی میں ترجمہ کر کے بتاتے جاتے۔ پھر دو دوست کھانا لے کر آ گئے۔ یہ بریانی تھی اور بہت لذیذ تیز مسالہ جات کے ساتھ۔

کھانے کے بعد محمد علی نے دو چھوٹے شاپر کارپٹ کے درمیان میں رکھ دیے۔ یہ کسی درخت کی سبز ٹہنیاں تھیں۔ سارے دوستوں نے ایک ایک کر کے اٹھائیں اور انہیں چبانا شروع کر دیا اور ساتھ پلاسٹک کی خالی بوتلیں تھیں جن میں وہ تھوکتے بھی جاتے جیسے پان۔ میرے لیے یہ نیا منظر تھا میں نے نجیب سے پوچھا یہ کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ کات ہے صومالیہ سے آتا ہے اور یہ سکون دیتا ہے یعنی اسے بھنگ سمجھ لیں۔ مجھے بھی ایک چھوٹا سا پیس دیا، بہت عجیب سا ذائقہ تھا میں نے تھوک دیا۔ سارے ہنسنے لگے۔ محمد علی نے میری حالت دیکھ کر مجھے چاکلیٹ دے دیں اور چائے کا تھرماس میرے نزدیک کر دیا کہ تم اس سے گزارا کرو۔

نجیب کے داماد حسین نے عربی گانا سنا کر محفل کو رنگ لگا دیا اور محمد علی بھائی جو بہت موٹے تھے ڈانس کر کے بہار بنا دی۔ محمد علی بھائی بھی بہت ہنس مکھ اور ان کی بیوی بھی بقول میری بیوی کے بہت ہی ہنس مکھ اور شغلی خاتون تھی جو محفل کو گلزار بنا دے۔

ظہر کی نماز وہیں اکٹھے ادا کی اور محفل برخاست کر دی گئی۔ میں بھی گھر آ گیا۔ میری بیوی ماریا اور بیٹی حنا وہیں ابھی دوسرے فلور پر احمد بھائی کے گھر ہی تھے۔ میں لیٹ گیا۔ اس دوران میری بیوی ایک بار اوپر گھر آئی اور کچن سے کوئی چیز لے کر گئی۔ بہرحال ان کی محفل بھی عصر کے وقت تک برخاست ہو گئی اور باقی تو ساری چلی گئی لیکن میری بیوی ماریا اور محمد علی بھائی کی بیوی سارا کچھ سمیٹ کے آئیں۔

شام کو گھر میں ہم اکٹھے بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے تو میری بیوی نے مجھے سے محفل کی روداد سنی۔ اور ساتھ خود بھی بتانا شروع کر دیا کہ بہت زبردست محفل تھی اور کچھ نئی خواتین سے بھی ملاقات ہوئی۔ اور محمد علی بھائی کی بیوی نے اسے گلے سے لگا کر دونوں طرف پیار بھی دیا۔ ساتھ ساتھ ایک نئی بات جادو کے متعلق بھی وہ ساتھ لے کر آئی کہ یمن میں جادو کرنے والے جادو کر کے گھروں میں ناچاقی پیدا کر دیتے ہیں اور گھروں میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔

پھر محمد علی بھائی کی بیوی نے اسے بتایا کہ اس سحر کو ختم کرنے والے کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان عملیات کا توڑ کرتے ہیں۔ اس نے میری بیوی کو کچھ ویڈیو بھی دکھائیں جن میں یہ عملیات کیا جا رہے تھے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ سورہ الناس اور سورہ الفلق کی کثرت سے تلاوت سے اس سے بچا جا سکتا ہے اور اسے تعویذ کے متعلق بھی بتایا جس کے باندھنے سے ایسے شیطانی عمل سے بچا جا سکتا ہے۔ میری بیوی ماریا عجیب تذبذب کا شکار تھی۔ اور مجھ سے صرف یہی پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے۔ میں نے بات گھما دی۔ لیکن اپنی جگہ میں سوچنے لگا کیا خدا نے قرآن کی یہ دو سورتیں پھونکنے کے لیے اتاری ہیں۔ یہ تو ایک رسول کی سرگزشت انذار ہے کہ اس رسول نے اپنی قوم کو کیسے خدا کی پہچان کروائی اور اس قیامت کے دن سے کے عذاب سے خبردار کیا۔ وہ قرآن جو تدبر فکر کرنے پر بہت زور دیتا ہے اور مخاطبین سے بار بار کہتا ہے یہ زمین و آسمان کیوں نہیں دیکھتے اور اپنی خلقت پر غور کیوں نہیں کرتے یعنی سائنسی نظر سے دیکھنے کی بات کرتا ہے۔

اس قرآن میں جادو کے لیے دو سورتوں! کیسے۔ پھر اس کے ساتھ منسلک ایک حدیث کہ یہود نے لبید بن عاصم کو اڑھائی درہم کر رسول اللہ ﷺ پر جادو کروا دیا۔ یہ بہت عجیب بات تھی کہ وہ رسول جو زمین پر خدا کا نمائندہ تھا اور خدا کی ڈائریکٹ حفاظت میں اس پر اڑھائی درہم دے کر جادو کروا دیا گیا، عجیب بات تھی۔ پھر یہی کچھ آج تک ہمارے پاکستان انڈیا اور عرب میں بھی جاری و ساری ہے۔ دوسری بات یہ دو سورتیں نازل تو مکہ میں ہوئیں لیکن جادو رسول اللہ ﷺ پر مدینہ میں ہوا۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے تو اپنی تفسیر میں بتایا کہ جب رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوا تو جبرائیل امین دوبارہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ان دو سورتوں ( معوذتین ) کو پڑھنے کی تلقین کی۔ اور بعض علماء نے کہا یہ دوسری بار پھر نازل کی گئیں ہیں۔

تو کیا پہلی بار نازل کی ہوئیں کہیں گم ہو گئی تھیں کہ دوسری مرتبہ دوبارہ نازل کرنی پڑیں۔ یا پہلی مرتبہ جبرائیل امین نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا نہیں کہ یہ جادو کے علاج کے لیے خدا نے نازل کی ہیں۔ پھر جس قلب پر یہ نازل ہوئی جو ہر وقت خدا کی یاد میں رہتا تھا اور ہر وقت خدا سے ڈائریکٹ رابطے میں رہتا اس پر اگر جادو ہو گیا تو ہم پڑھ پڑھ کر کہاں سے اسے مٹا سکتے ہیں۔ پھر جادو جس سے دماغ ہیک ہو جاتا ہے یعنی جادو کرنے والے کے قبضے میں اور وہ بھی ڈیڑھ سال تو اس ہستی پر اس وقت نازل کیے گئی وحی کی کیا حیثیت ہو گی۔ یعنی وحی بھی مشکوک ہو گئی تو دین کہاں ہے۔ جہاں ابتدائی صدیوں ہی میں امام ابوبکر جصاص نے اس روایت پر شدید تنقید کی لیکن اس کے باوجود شاید یہ اس وقت کے لوگوں کے ذوق کے مطابق تھی کہ ان کے پرانے مذاہب میں بھی یہی کچھ تھا تو انہوں نے اس سے اجنبیت محسوس نہیں کی اور قبول کر لیا۔

یہ روایت اور اس کے حق میں دیے گئے تمام منتقی دلائل میری سمجھ میں کبھی نہ آ سکے۔ شکر ہے اس وقت میری بیوی نے سوال نہ کیا لیکن یہ ایک دن کی بات تو تھی نہیں جہاں بھی مسلمان اسے ملتے یہی کہانی سناتے کیونکہ یہ روایت ہر ایک کی زبان پر تھی اور یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ یہ قرآن سے ٹکراتی ہے، اس نے سوال پوچھنا تو تھا، آج نہیں تو کل۔ اس نے نہ پوچھا تو میری بیٹی نے پوچھنا ہی تھا جس نے یہیں کہیں حکومت چائنا کے قائم کیے سکول میں جانا تھا جس میں صرف سائنسی بنیادوں پر ہی تعلیم دی جاتی تھی۔

مولانا مودودی بھی اس معاملے میں مجھے کلیر نہ کر سکے اور درمیانی سی بات کر کے جان چھڑا گئے تھے۔ لیکن میری بیوی نے ایسے تفتیش کرنی تھی کہ میں بھاگ نہیں سکتا تھا۔ پھر یہ روز روز کا ساتھ ہے کہ ہر جگہ اسے خود بھی پرانے نئے تصورات کا تقابل کرنا تھا اور یہی فکر اور نظریات اس کے پرانے مذہب میں بھی تھے تو اسلام نے اسے ذہنی طور پر کس تحفظ کا احساس دینا تھا۔ یعنی فرق کیا واقع ہوا یہ جادو توہم پرستی تو بدھسٹ اور کنفیوشس میں بھی بہت تھی اور یہاں بھی انہی سے واسطہ پڑ رہا تھا بلکہ ایک دفعہ تو میں نے اپنی ساس کے پاس چھوٹے چھوٹے کاغذ کے ٹکڑے دیکھے جو اسے کسی بدھسٹ پیر نے دیے تھے اور وہ اسے جلا کر اس نے اس کی راکھ کو پانی سے کے ساتھ دوا کی طرح کھا لیا۔ تو فرق کیا تھا اسے کیوں چھوڑا جائے اور اسے کیوں قبول کیا جائے۔ دلیل تو یہی ہو سکتی ہے کہ ہمارے پیر اور تعویذ سچے ہیں اور ان کے پیر اور تعویذ جھوٹے۔ تو ہر ایک کے اپنے ذوق کے پیر سچے ہی ہوتے ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments