کتاب ”جمال فرش و فلک“ کے تین پہلو


ہر قاری کا اپنا نقطہ نظر اور الگ زاویہ نگاہ ہوتا ہے۔ جب قاری کسی فن پارے کا مطالعہ کرتا ہے اور اس فن پارے کو پرکھتا ہے تو اس کے متعلق اپنی رائے قائم کر لیتا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ راقم نے عصر حاضر کے ممتاز شاعر، اعلیٰ پائے کے قلم کار اور میرے استاد محترم حیدر خان حیدر ؔ کی شہرہ آفاق شعری گلدستہ ”جمال فرش و فلک“ کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس پر ایک تفصیلی تبصرہ بھی قلم بند کیا ہے ’مگر ایک ہی تحریر میری تشنگی مٹا نہ سکی۔

میں جوں جوں کتاب کا مطالعہ کرتا گیا ایک نیا باب کھلتا گیا اور میں ایک طلسماتی دنیا کی حسین وادیوں میں سیر کرتا گیا۔ اب دوسرا تبصرہ لکھنے کے لیے قلم اٹھانے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ اس شعری گلدستے میں، میں نے جو کچھ پایا اور جو کچھ محسوس کیا وہی بذریعہ قلم قرطاس پر اتارنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر راقم کی ذاتی آراء پر مبنی ہے۔ اس سے کسی اور لکھاری یا قاری کا من و عن متفق ہونا ضروری نہیں۔ ویسے بھی حبیب جالب نے فرمایا تھا۔

ہمارے ذہن پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
جو ہم محسوس کرتے ہیں، وہی تحریر کرتے ہیں

اس شعری گلدستے کے عمیق مطالعے کے بعد تین بنیادی پہلو سامنے آگئے ہیں۔ ذیل میں ان پہلوؤں کا اجمالی جائزہ لیا جاتا ہے۔

حصہ اول: (ادب اطفال)

بچے کسی بھی ملک و قوم کا عظیم سرمایہ ہوتے ہیں۔ بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت والدین اور اساتذہ کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ کیونکہ یہی بچے کل کو ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں اور ان کی کندھوں پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اردو کے اکثر شعرا اور ادبا جن میں نظام الدین اولیا ہو یا امیر خسرو، قلی قطب شاہ ہو یا عادل شاہ، بانو قدسیہ ہو یا ہاجرہ مسرور، عصمت چغتائی ہو یا قرةالعین حیدر، اسماعیل میرٹھی ہو یا الطاف حسین حالی، مستنصر حسین تارڑ ہو یا امجد اسلام امجد غرض قدیم اور عصر جدید کے اہل قلم شخصیات نے نونہالان قوم کے لیے شاندار اور شاہکار نظمیں تخلیق کیں ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری بالخصوص بانگ درا میں ادب اطفال پر خصوصی توجہ دی ہے۔

”جمال فرش و فلک“ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جو گزشتہ شعرا کی تتبع میں لکھی گئی ہے۔ یہ ایک ایسی عظیم تخلیق ہے جو ہر دور کے ہر رنگ و نسل کے طلبہ کے لیے نسخہ کیمیا کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ دنیا کے تمام مذاہب میں بچوں کی تعلیمی، جسمانی اور اخلاقی کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ”جمال فرش و فلک“ کا حصہ اول اطفال کا ایک ایسا باغیچہ ہے ’جسے لعل و یاقوت سے سجایا گیا ہے۔ اس میں شامل بچوں کے لیے لکھی گئی سولہ نظمیں ادب اطفال سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان تمام نظموں میں ناصحانہ انداز میں بچوں کو علم و دانائی کی جانب راغب کیا گیا ہے۔ جن میں سے چند ایک کو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں ”بچے قوم کی امانت ہیں“ کے نام سے ایک بہترین نظم شامل ہے‘ جس میں شاعر بچوں کی تربیت پر توجہ مبذول کراتے ہوئے فرماتے ہیں۔

ہیں بچے اک امانت اور امیں ہم
نسل آدم کی حکمت ہیں یہ بچے
کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ حیدر
جن کے زیر تربیت ہیں یہ بچے
ایک اور نظم ”مناجات اطفال“ ہے۔ جس میں بچے مشکل اوقات میں اپنے رب کو پکارتے ہیں۔
اے اللہ تو سب کا پیارا ہے
سب کا مدد گار سب کا دلارا ہے
تجھ کو پکاریں مشکل میں ہم سب
تو ہی رب اور سب کا سہارا ہے

یہ بات میرے لیے حیران کن تھی کہ گزشتہ برس بھارتی ریاست کیرالہ میں ہونے والی ایک شادی میں دلہن نے اپنے خاوند سے حق مہر میں جائیداد یا زیورات کی بجائے ایک سو کتابیں مانگ لی جبکہ دلہا، دلہن کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق شادی کی رات تک تمام کتابیں اکٹھی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کے شہر مردان سے تعلق رکھنے والی ایک دلہن نے حق مہر میں اپنے شوہر سے ایک لاکھ روپے کی کتابیں مانگ کر سب کو حیران کر دیا۔ بہر حال ان خواتین نے کتاب سے بے پناہ محبت کا ثبوت دیا ہے۔ بلاشبہ کتابیں کسی بھی ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے اور خاک سے افلاک تک کا سفر طے کرنے کے لیے خاموشی سے رہبری کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ اسی طرح ”کتابیں میری جنت ہیں“ میں شاعر قوم کے نونہالوں سے یوں مخاطب ہیں۔

مری جنت کتابیں ہیں، مری دولت کتابیں ہیں
بہت نازاں ہوں قسمت پر مری قسمت کتابیں ہیں
ہے لازم مجھ پہ پڑھنا شوق سے درسی کتابوں کو
انہی میں کامیابی ہے، مری عشرت کتابیں ہیں
میں طالب علم ہوں میرا یہی نعرہ ہے روز و شب
مری طاقت کتابیں ہیں مری ثروت کتابیں ہیں

دنیا میں سب سے بڑی طاقت قلم کی ہے۔ قلم کے سامنے تلوار بھی بے بس ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں قلم کی طاقت کے آگے سرنگوں ہیں۔ ”کرامات قلم“ میں بچوں کو قلم کی طاقت سمجھاتے ہوئے گویا ہیں۔

قلم ہے وحی کی بنیاد بچو!
قلم ہے علم کی ہمزاد بچو!
قلم تلوار سے بڑھ کر قوی ہے
حقیقت میں ہے یہ فولاد بچو!
قلم لو ہاتھ میں لکھتے رہو تم
اگر بننا ہے نیک اولاد بچو!

گو کہ یہ حصہ بچوں کے لیے مختص ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظمیں پہلے اساتذہ کرام کو پڑھنے کی ضرورت ہے بعد میں بچوں کو راغب کیا جا سکتا ہے۔

حصہ دوم: (ایک فطرت شناس شاعر)

جب انسان نگاہ اٹھا کر کائنات کا بغور جائزہ لیتا ہے تو اسے ہر جانب قدرت کے عظیم شاہکار نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ زمین پر رینگنے والے حشرات الارض ہوں یا آسمان کی بلندیوں میں محو پرواز غول در غول پرندے۔ برفیلے فلک بوس پہاڑی سلسلے ہوں یا وسیع و عریض میدان، لہلہاتے کھیت ہوں یا خوش ذائقہ پھلوں کے باغات، صاف چشمے ہوں یا پہاڑوں سے گرتے گیت گاتے جھرنے، یخ بستہ ہواؤں کا راج ہو یا گہری جھیلیں جن میں اودے امبر کا دلکش عکس، سبزہ زار وادیاں ہوں یا حسین ریگزار، معتدل آب و ہوا ہو یا روح تک جھلسا دینے والی تمازت، گگن پر گھنگھور گھٹائیں ہوں یا بارش کی رم جھم، برف باری کا سماں ہو یا اولے گرنے کا منظر ایسے انگنت قدرتی دلفریب مناظر انسانی روح کو تازگی اور فرحت بخشتے ہیں۔

اکثر افراد ایسے مناظر کو محض ظاہری آنکھوں سے دیکھ کر ٹال دیتے ہیں۔ جبکہ بابصیرت افراد ظاہری نظاروں پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ قریب سے مشاہدات اور غور و فکر کرتے ہیں۔ بعد ازاں تخلیق کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ استاد محترم بھی کائنات پر غور و فکر کرنے اور کائنات کے سربستہ رازوں کو سمجھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کو نظام قدرت ایک عجائبات کا کارخانہ معلوم ہوتا ہے۔ ان کی شاعری استقرائی اور تجرباتی بنیادوں پر تخلیق پائی ہے۔ یہ تصنیف مظاہر کائنات کی مکمل ترجمان و عکاس ہے۔ کسی فطرت شناس شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

دیتا ہوں داد فطرت حق شناس کو میں
ہنگامۂ خودی میں بھولا نہ خدا کو میں
جنبش جو دوں نگاہ حقیقت کشا کو میں
رکھ دوں الٹ کے پردۂ ارض و سما کو میں

”جمال فرش و فلک“ کے مطالعے کے بعد انسان قدرت کے عظیم تخلیقات کا گرویدہ بن جاتا ہے۔ اسے اللہ کی وحدانیت کا اقرار ہوتا ہے۔ ہر سو بکھری اللہ کی انسان کے لیے عطا کردہ نعمتوں کا احساس ہونے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر آپ جولائی کے روح تک جھلسا دینے والی تمازت میں نظم ”مناظر برف باری“ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو تخیل کی دنیا ماہ دسمبر میں لے جائے گی ’جہاں آپ خود کو برف پر پھسلتے ہوئے محسوس کریں گے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔

برف پر چلنے کا اپنا مزہ ہے
اور گرنے کا بھی اپنا مزہ ہے
کوئی ڈھلوان سے گر کر اٹھا ہے
کوئی میدان میں ہی پھسلا ہے
برف کھانے کی عادت ہے پرانی
بڑی دلچسپ ہے اس کی کہانی

اکثر شعرا کو بہار کے موسم سے بے پناہ لگاؤ ہوتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں محبوب کی خوب صورتی، دلکش اداؤں، ناز و نخروں کو محبوب کی حسین اداؤں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ گلاب کے نرم و نازک پنکھڑی کو صنم کے لبوں سے ملاتے ہیں۔ بہار کو خوش حالی، ترقی اور کامیابی سے جوڑتے ہیں جبکہ خزاں کو زوال، تنزلی اور کسی قوم کی پستی کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مگر اس کے برعکس استاد محترم نے حسن بہار کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ بلاشبہ انسان خالق کائنات کا پرستار بن جاتا ہے۔ بہار کے موسم میں چار سو پھیلی قدرتی رعنائیوں کی ترجمانی یوں کرتے ہیں۔

میرے گلشن میں ابھی فصل بہار آنے کو ہے
جاں پڑی مردہ زمیں میں اب قرار آنے کو ہے
سبز چادر اوڑھ لی دھرتی نے، پر کیف ہے سماں
ایسے عالم میں پرندوں کی قطار آنے کو ہے

دراصل ان اشعار میں قرآن مجید کی ایک آیت کی ترجمانی کی گئی ہے ’جس کا مفہوم کچھ یوں ہے : بیشک ہم نے آسمان سے بارش کا پانی اتارا جس سے ہر چیز کی زندگی بھی ہے اور بہت خیرو برکت بھی۔ ہم نے اس پانی سے باغ اگائے اور اناج اگایا جسے ہر سال بویا اور کاٹا جاتا ہے۔

ہر موسم کا اپنا الگ رنگ و سماں ہوتا ہے۔ جہاں گرمی کی اہمیت ہے وہی سردی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جہاں بہار کے موسم کی خوب صورتی ہے وہی خزاں کو بھی جداگانہ حیثیت حاصل ہے۔ نظم جمال خزاں میں شاعر دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو بیان کرتے ہوئے انسان کو خبردار کرتا ہے کہ جس طرح خزاں کے موسم کو زوال آتا ہے بالکل اسی طرح اے انسان! ہوشیار رہ، اپنی آخرت کی فکر کر کیونکہ بہت جلد خزاں کا موسم آپ کے وجود کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے والا ہے۔ اپنے اشعار میں خزاں کے متعلق یوں رطب اللسان ہیں۔

بام جہاں میں آ کے جمال خزاں کو دیکھ
رنگینی بیاں میں کمال خزاں کو دیکھ
پتوں کے رنگ زرد، سرخ سبز ہو گئے
کیسا حسین سماں ہے نہال خزاں کو دیکھ
جانا ہے حیدر! تجھ کو جب اک دن سوئے بقا
زاد سفر سمیٹ زوال خزاں کو دیکھ
حصہ سوم (مکتب کی تاریخی پس منظر)

ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور ادیب کا پورے معاشرے پر احسان عظیم ’کیونکہ وہ معاشرے کے تہذیب و تمدن، رسم و رواج، تہوار، عقائد اور ہر سو بکھری روایات کو کتابی شکل میں صدیوں تک محفوظ کرتا ہے۔ اگر سابقہ ادبا ادب تخلیق نہ کرتے تو آج ہمیں گزشتہ ادوار کے سیاسی، سماجی اور دیگر حالات کا پتا ہرگز نہ چلتا۔ اسی طرح حضرت امام علی علیہ السلام کا قول نورانی ہے۔ ”علم وحشی ہے (جو ٹکتا نہیں ) لہٰذا اسے تم کتاب کے ذریعے قید کرو۔

استاد حیدر خان حیدر ؔ نے“ جمال فرش و فلک ”جیسی عظیم تخلیق کے ذریعے مولا کے اس قول کی ترجمانی کی ہے۔ پاکستان کے صف اول کے قلم کار جاوید چودھری اپنے ایک آرٹیکل میں کہتا ہے کہ علم اور کتاب کو زوال نہیں ہوتا۔ دنیا میں امیر تیمور جیسے لوگوں کی سلطنتیں ختم ہو جاتی ہیں لیکن ان کے ہاتھوں سے نکلے ہوئے صفحات ضائع نہیں ہوتے۔ یہ اس وقت تک دنیا میں رہتے ہیں جب تک پڑھنے والوں کی تشنگی باقی رہتی ہے۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ شخص میں صرف کتاب کا فرق ہوتا ہے۔

اس تصنیف کا تیسرا اور آخری پہلو جو راقم الحروف نے محسوس کیا وہ یہ ہے کہ یہ ادبی تخلیق نہ فقط مظاہر کائنات پر شاعری بلکہ تاریخی لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ جس میں اسکول کی تاریخی پس منظر اور اس سے جڑے اساتذہ کی خدمات کو نہایت کمال مہارت سے شعری داستان میں محفوظ کیا ہے۔ ایسے اساتذہ جن کی مکتب کی تعمیر و ترقی کے لیے لازوال خدمات ہیں مگر نسل نو ان کے کارناموں سے لاعلم ہے۔ یہ تصنیف ان گم گشتہ اساتذہ کو نمایاں کرنے اور انھیں تا ابد زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ ساتھ ہی ہماری روایات کو بھی دوام بخشا ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے ’جس کی تکمیل کے لیے خالق دو جہاں نے استاد معظم کا انتخاب کیا اور انھوں نے حق بھی ادا کیا ہے۔ چونکہ ایک تصنیف کو منظر عام پر لانا نہایت پیچیدہ عمل ہے۔ اس کے لیے مصنف کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

امید واثق ہے کہ یہ تصنیف نسل نو کی ذہنی و فکری ارتقاء اور رشد و نمو کے لیے بہترین انتخاب ثابت ہو گی۔ اس کے گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ بہر حال راقم نے اپنی سابقہ تحریر میں عرض کیا تھا کہ کہ اس کلام کا ہر لفظ بڑی فضیلت اور اہمیت کا حامل ہے۔ ہر مصرع مفصل تشریح کا طالب ہے۔ مگر اس کی شرح لکھنا مجھ جیسے ایک طالب علم کی احاطے میں نہیں۔ خداوند متعال ہمارے شفیق استاد حیدر خان حیدر ؔ کو لمبی زندگی اور اچھی صحت عطا کرے اور یونہی علم و ادب کا چمنستان انہی کے دم سے لہکتا مہکتا رہے۔

ان کے صدقے میں ہو حیدر ؔ پر بھی کچھ لطف و کرم
صحت کلی اسے حاصل ہو اور علم و ہنر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments