موسیقی کی سیاست


موسیقی ایک ایسا ذریعہ ابلاغ ہے جو انسان کے جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک گیت نگار اپنے جذبات کو دوسروں کے جذبات کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ موسیقیت کے ذریعے ذہنوں کی تسخیر کی جاتی ہے جس سے مختلف پیغامات کی ترسیل اور سنجیدہ موضوع کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ موسیقی کی تشہیر میں کئی پہلو چھپے ہیں۔

اول، موسیقی کے معانی جاننے کی کوشش کریں تو ”لطف اندوز ہونا“ ، ”جذبات کا ابھرنا“ ، پیغام کی ترسیل وغیرہ کے ہیں۔ گیت تو ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو ہمارے اندر چلنے والی ٹرین، کشمکش، جذبات اور ایک مقصد کا ساتھی بھی بنتا ہے۔ ہماری ثقافت میں بلکہ دنیا کی ہر ثقافت میں گیت نگاری کو بہت عروج ملا ہے۔ ہمارے صوفیا اکرام کے کلام کو موسیقی کی صورت میں نشر کیا گیا جس میں نوجوان میں مادر ملت کے لیے جوش ولولہ پیدا کرنا، ایک مقصد دکھانا اور ان کی ذہن سازی کے عوامل شامل ہیں۔ اور سب سے نمایاں موضوع موسیقی میں عورت کا تذکرہ رہا ہے۔

پہلے پہل موسیقی کو کسی شادی میں ماہیے کے طور پر گایا جاتا تھا جس سے انسان کے اندر کی خوشی اور جذبات ابھرتے تھے۔ ایسی گیت نگاری جس میں فحاشی کے بجائے ثقافت کو صحیح معنوں میں پروان چڑھایا جاتا۔

دور حاضر میں موسیقی کی بات کی جائے تو اس میں بس فحاشی کی علامات، ذہنی غلامی کا شکار اور عورت کے خوبصورت مجسمے کی عکاسی کرنا رہ گیا ہے جس میں ہمارے گیت نگار کے ساتھ ساتھ میڈیا اپنے اشتہارات کے ذریعے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آج کی موسیقیت نے نوجوان کو کس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اس کا مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔

آج کا نوجوان ریپ میوز، شور شرابا، ناچنا یہ سب زیادہ پسند کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا نوجوان کیا یہ صلاحیت اوپر سے کے کر آیا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ ہمارا سرمایہ دار طبقہ نوجوان کو ان کے مقصد سے ہٹانے کے لیے ایسے پروپگنڈہ تشکیل دیتا ہے کہ ایک گیت نگار کو بھی اضافی لاکھوں روپوں سے نوازا جاتا ہے۔ نوجوان کے ذہن کی تشکیل ہی اس طرح کی جا چکی ہے کہ وہ کوئی سنجیدہ موضوع کو سننا اور نہ ہی بات کرنا پسند کرتا ہے جس کے سنگین نتائج بخوبی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

اب موسیقی کی سیاست میں جکڑی عورت کی ذات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ گیت نگار کا ہر دوسرا گیت عورت کے تبصرے پر کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا گیت جس میں عورت کے گورے رنگ، کالی زلفوں، نشیلی آنکھوں، سرخی مائل ہونٹ، دبلی پتلی اور لمبے قد کی تسخیر کی جاتی ہے۔ مشہور پاکستانی گیت نگار بلال سعید اپنے ایک گیت ”دو نمبر میں دیواں تری اچی لمبی ہیل نوں“ میں عورت کو دو نمبر میں بیچ رہا ہے۔ جس پر کوئی تنقیدی سوچ رکھنے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ اور میڈیا اس کو ٹی وی اور اشتہارات میں اس طرح سے نشر کرتا ہے کہ جسے اب ماڈرن ثقافت اور فیشن کا نام دیا جاتا ہے۔

بہرحال اب ضرورت اس امر کی ہے کی ہر چیز کو ایک تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ نوآبادیاتی نظام اور ذہنی غلامی کے شکار سے چھٹکارا پایا جائے۔ بالخصوص ایک عورت کو اتنا باشعور ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ”دو نمبر“ میں نہ بیچے۔ اب غور کیجئے گا کہ موسیقی جذبات، ثقافت اور کسی سنجیدہ موضوع کی عکاسی رہ گئی ہے یا سیاست بن چکی ہے جس میں عورت کے مجسمے کو ننگا کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments