ہم، ہمارے حاکم اور دنیا


پاکستانی قوم کی اکثریت کا ایکسپوژر برائے نام ہے آج اس وقت جب پوری دنیا آپ کی ہتھیلی میں سما چکی ہے ہم ابھی تک قسمت کو کوستے رہتے ہیں کہ شاید ایسی سسکتی زندگی ہماری قسمت میں لکھی ہوئی تھی۔ ہمیں فلاحی ریاست کی تعریف تو پتا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا میں فلاحی ریاست نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ ہم نے کبھی کینیڈا فن لینڈ کویت دبئی جیسے ملک کے شہریوں کو حاصل حقوق تجربہ نہیں کیے۔ یہاں اک شوباز وزیراعظم حاتم طائی کی قبر پہ لات مارتے ہوئے دو دو ہزار روپے شہریوں کو دینے کا اعلان کر کے فخر کر رہا ہوتا ہے جب کہ ان ملکوں میں بے روزگاروں کو حاصل ہونے والے سوشل بینفٹس کی تفصیلات سن کر آپ حیران ہو جائیں گے۔

آپ کے پاس رہائش نہیں آپ کو کیئر سینٹر ملے گا آپ کے پاس کھانا نہیں آپ کو فوڈ ملے گی آپ کے پاس دینے کو مکان کا کرایہ نہیں تو بلدیہ آپ کا کرایہ ادا کرے گی۔ وہاں ریاست نام کو نہیں حقیقت میں ماں کے جیسی ہے ‍۔ ان ملکوں میں بھی ہم پاکستانی اپنی ازلی ہڈ حرامی کے سبب سوشل بینیفٹس کے ناجائز حصول کے لیے بدنام ہیں۔

دبئی اور ترکیے (ترکی نے اپنا نام سرکاری طور پہ تبدیل کر دیا ہے ) کو رہنے دیتے ہیں سعودی عرب جیسے قدامت پسند ملک نے تیل پہ انحصار کم کر دیا ہے دبئی کی آمدنی کا اک تہائی سے بھی کم حصہ تیل سے حاصل ہوتا ہے انہوں نے صحرا کو سیاحوں کی جنت بنا دیا ہے۔

زیادہ دور نہیں جاتے آج سے پچاس ساتھ سال قبل عربی بدو نہایت غریب تھے اور ہماری طرح امداد اور قرضوں پہ چلتے تھے لیکن انہوں نے وہ پیسہ ایسے منصوبوں پہ خرچ کیا جس سے ان کو نفع حاصل ہو۔ جبکہ ہم نے اربوں ڈالر کہاں اڑا دیے کسی کو تشویش ہی نہیں۔ قرض بدستور موجود ہے بلکہ بڑھ رہا ہے اور پاکستان آن سیل لگا ہوا ہے محکمے ملیں کارخانے حتیٰ کہ سٹیٹ بینک تک گروی رکھا جا چکا ہے۔

ان ممالک میں خودکشیاں ہوتی ہیں مگر وجوہات میں غربت اور بھوک کم از کم شامل نہیں ہوتی۔

انگریزوں کے غلاموں کے ہم غلام بنے ہوئے ہیں وہ آقا بن کر عیاشیاں کرتے ہیں اربوں روپے سکیورٹی پہ خرچ کرتے ہیں اپنے ذاتی گھروں کو سرکاری دفاتر قرار دے کر عیاشیاں کرتے ہیں جہازوں میں گھومتے ہیں ان کے پسند کے کے لانے کے لیے ہیلی کاپٹرز ہوائی جہاز اڑاتے جاتے ہیں

نسل در نسل وہ ہم پہ حکمرانی اپنا حق سمجھتے ہیں ہم ان کے لیے جیلیں بھگتیں ان کے لیے ڈنڈے کھائیں احتجاج کریں سڑکوں پہ ذلیل ہوں وہ آرام دہ کنٹینرز میں استراحت فرمائیں۔ ہم ان کی گاڑیوں کے پیچھے دوڑیں ان پہ پھول برسائیں اور وہ جیل سے ڈر کر بیرون ملک بھاگ جائیں۔

غضب خدا کا ہم پہ مسلط لوگ کرنے والا کام بالکل نہ کریں پھر بھی ہم ان کے گیت گائیں۔ ان کے لیے اک دوسرے کا سر پھاڑیں ان کے لیے قتل ہو جائیں اور وہ ہماری لاشوں کو بھی کیش کرائیں۔

ہمارا میڈیا روز مداری کا تماشا لگائے انہی حکمرانوں کی نورا کشتی ان کے بیانات ان کا ہم پہ حاکم ہونے کا لالچ اور اس کے لیے کی جانے والی کوششیں دکھائے اور ہم دلچسپی سے دیکھیں کہ اب کون سا فرعون ہم پہ مسلط ہو گا۔ اس میڈیا نے کبھی اہم ایشوز پہ بات کی ہو مجھے تو یاد نہیں۔ پاکستان کا نہری نظام تباہ ہو چکا ہے پانی کی غیر منصفانہ تقسیم ہے پاکستان اک زرعی ملک ہے زراعت کے حوالے سے کچھ دکھایا ہو کسانوں کے مسائل دکھائے ہوں ان کے لیے جدید ٹیکنالوجی ڈھونڈ کے لائے ہوں انہیں غیر روایتی فصلات کی طرف راغب کیا ہو

کبھی سیاستدانوں کی عیاشیوں پہ سوال اٹھایا ہو؟

ہماری فوج کاروبار کرتی ہے دلیے بناتی ہے پیٹرول پمپس چلاتی ہے شادی ہال چلاتی ہے کھادیں بناتی ہے بینک چلاتی ہے کالونیاں بناتی ہے سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور ملک کی آمدن کا سب سے بڑا حصہ وصول کرتی ہے۔ کبھی آپ نے دیکھا یا سنا ہو کہ فوج نے ہم سے آڈٹ کرایا ہو حساب کتاب دیا ہو کسی سول عدالت سے سزا ہوئی ہو گویا سات لاکھ افراد میں سب فرشتے ہیں۔

ہماری عدالتیں جو جس دن سیدھی ہو جائیں ملک سدھرنا شروع ہو جائے آپ نے دیکھا ہو کہ عدالت نے بروقت انصاف فراہم کیا ہو ہم پہ مسلط ہونے کے لیے فرعونوں کی بچھائی بساط پہ مہروں کے علاوہ کوئی عوامی مفاد میں کام کیا ہو۔ کسی با اثر شخص کو قرار واقعی سزا دی ہو

ہمارے دینی مبلغ جو ان حاکموں کے قصیدے گاتے ہیں یا پھر خود حاکم بننے کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ ہمیں سادگی کا درس دیتے ہیں دو منزلہ مکان تک بنانے کی اجازت نہیں دیتے دنیا کو عارضی ٹھکانہ اور ظلم کو قسمت کا لکھا قرار دے کر صبر کی تلقین کرتے ہیں جبکہ خود سیکورٹی کے حصار میں کروڑوں کی گاڑیوں میں اربوں کی جائیدادیں بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب خرابیاں عورتوں کی بے پردگی اور زنا کی وجہ سے ہیں۔ کبھی حاکم وقت کو نصیحت کرتے بازپرس کرتے اور معاملات عوامی کاروبار زندگی میں کی گئی بے ایمانیوں جھوٹ ملاوٹ سمگلنگ رشوت وغیرہ جیسے گناہ کبیرہ کو وجہ قرار نہیں دیں گے

ہماری بیوروکریسی صاحب بہادر بن کر بڑے بڑے بنگلوں میں عوام سے محفوظ دوری بنا کر رکھتی ہے عوامی نوکر ہو کر عوام کو نوکر سمجھتی ہے ان کا کام بس حاکموں کے تلوے چاٹنا ان کے دوروں کے انتظامات سنبھالنا اور فنڈز ہڑپ کرنے میں ان کی معاونت فراہم کرنا ہے

ہماری پولیس کا کام حاکموں کی حفاظت کرنا باغیوں کو کچلنا حاکموں کے کہنے پہ مقدمات قائم کرنا جرائم پیشہ لوگوں کو چھتری فراہم کرنا ان سے بھتے لینا اور عوام کو اوقات میں رکھنا شامل ہے

اوپر بتائے گئے حکمران و ستون مملکت کی اکثریت کی اولادیں جائیدادیں اور شہریت انہی ممالک کی ہے جو سوشل بینیفٹس دیتے ہیں یہ ریٹائرڈ ہو کر پلاٹ پنشن گریجویٹی اور پتا نہیں کون کون سے فنڈز لیتے ہیں سب بیچ کر بیرون ملک سیٹل ہو کر سپر کارز میں گھومتے بڑے بڑے مینشن میں رہتے جو باہر نہیں جاتے وہ جوانوں کا حق مار کر حکمرانوں کے خصوصی آرڈرز پہ نئی نوکریوں پہ بیٹھ جاتے جو ان جوگے نہیں ہوتے وہ ٹی وی پہ بیٹھ کر بھاشن دیتے ٹسوے بہاتے اور ہمیں بے وقوف بناتے۔

ہم عوام ہم بے ایمانی جھوٹ چوری ایمان کے فیصلوں میں لگے رہتے ہیں کبھی ان کے چنگل سے نکلنے کی کوشش نہیں کریں گے کیونکہ ہم اپنے اک پاؤ گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح ہوتے دیکھتے رہتے ہیں اور یہ سب تبدیل ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ یہ سب یونہی چلتا رہے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments