تلنگانہ: جہاں اردو دوسری سرکاری زبان ہے


ایک دلچسپ بات۔ اردو جہاں سے شروع ہوئی وہاں اردو سرکاری زبان نہیں ہے
1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

رات بہت زیادہ گزر چکی تھی اور میں کچھ نیند بھی پوری کر چکا تھا۔ ایک تو سفر میں مجھے نیند بھی کم آتی ہے اور دوسرا سیاحت کا شوق بھی مجھے سونے نہیں دیتا۔ اس لیے ایک ہزار سال پرانے شہر وجیا وادہ کو دیکھنے کے لیے کھڑکی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس شہر میں کئی صدیاں پرانا ایک قلعہ ہے یہاں پر ایک لارڈ نراسیما سوامی کا مندر بھی ہے جو اس شہر کی اصل پہچان ہے۔ مسلمانوں کی آبادی پانچ فیصد کے قریب ہے۔

دہلی سے نکلنے اور ہریانہ اسٹیٹ سے گزرنے کے بعد ہم اتر پردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا اور اب ہم آندھرا پردیش سے گزر رہے تھے۔ اگر آپ نقشے میں دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہم شمالی بھارت سے شروع ہو کر اس کے مشرقی حصے کی طرف سے ہوتے ہوئے جنوب کی طرف جا رہے تھے۔ ہماری منزل چنائی تھی جو بھارت کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہاں اکثریت کی زبان تلگو ہے۔ یاد رہے جب 1999 ء میں ہم یہاں سے گزر رہے تھے تو تلنگانہ نام کی کوئی ریاست موجود نہیں تھی۔ تلنگانہ اسٹیٹ 2014 ء میں معرض وجود میں آئی، اس وقت یہ علاقہ آندھرا پردیش کا حصہ تھا۔

اب جب میں نے یہ سفر نامہ لکھنا شروع کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خمام، تلنگانہ اسٹیٹ کا ایک بڑا شہر ہے اور یہ ریاست مختلف ریاستوں کے حصوں کو ملا کر زبان کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ مجھے اس کی تاریخ جاننے میں دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے جو کچھ جانا وہ پیش خدمت ہے۔

تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں واقع ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ پاکستان یا بھارت، کسی کے ساتھ بھی مل سکتے ہیں اور اگر وہ آزاد رہنا چاہیے تب بھی انھیں اس بات کی اجازت ہو گی۔ اس سب کی تفصیل میں پچھلے صفحات میں آپ کے سامنے پیش کر چکا ہوں۔

تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد ایک اور واقعہ پیش آیا۔ بھارت اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں لوگوں نے زبان کی بنیاد پر نئے صوبے یا اسٹیٹ بنانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ انگریزوں نے جو صوبے بنائے تھے وہ زبان کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک انتظامی ضرورت کے تحت بنائے تھے۔ مثال کے طور پر جب صوبہ سرحد بنایا گیا تو ہزارہ کو صوبہ سرحد کا حصہ بنایا گیا جبکہ پختون آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ بلوچستان کے ساتھ جوڑا گیا۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب پختون آبادی نے زبان کی بنیاد پر ایک صوبے کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح سے بلوچستان میں بھی زبان کی بنیاد پر ایک صوبے کا مطالبہ کیا گیا۔ ایک مثال سرائیکی صوبے کی بھی ہے جس کا مطالبہ سرائیکی بولنے والوں نے کیا۔ اس دوران بھارت کے مختلف علاقوں میں بھی اسی طرح کے مطالبات نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔

جنوب میں تیلگو بولنے والے لوگوں نے بھی مطالبہ شروع کیا کہ تیلگو زبان بولنے والے علاقوں پر مشتمل ایک اسٹیٹ بنائی جائے۔ اس وقت کی سیاسی قیادت نے ان مطالبات کو رد کر دیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ اگر زبان کی بنیاد پر علاقوں کی تقسیم کی گئی تو لوگوں کی ملک سے زیادہ اپنے علاقے سے وفاداری ہوگی اور اس طرح مرکز کمزور ہو جائے گا۔ اس کے باوجود زبان کی بنیاد پر صوبہ بنانے کی کئی تحریکیں شروع ہوئیں۔ نتیجتاً کچھ تحریکیں کامیاب ہوئیں اور کچھ ناکام۔ اگر میں یہ کہوں کہ بنگلہ دیش بنانے کے مطالبے کے پیچھے جہاں اور بہت سارے عوامل تھے وہاں پر بنگالی زبان بھی ایک بڑا سبب تھا تو غلط نہ ہو گا۔

تلنگانہ اسٹیٹ بھی اسی طرح ایک تحریک کا نتیجہ ہے۔ یہ تحریک انتہائی دلچسپ ہے۔ اس کا مختصر ذکر نا صرف آپ کی معلومات میں اضافہ کرے گا بلکہ تلنگانہ اسٹیٹ کو سمجھنے میں مدد بھی دے گا۔

ریاست حیدرآباد کے بہت سے علاقوں اور آندھرا پردیش کے شمال مغربی حصے کو ملا کر تلنگانہ اسٹیٹ بنائی گئی۔ اس کا رقبہ ایک لاکھ بارہ ہزار کلومیٹر سے زائد ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے۔ اس کا صدر مقام حیدرآباد ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے حیدرآباد آندھرا پردیش کا بھی صدر مقام ہے۔ میرے علم کے مطابق چندی گڑھ جہاں پنجاب اور ہریانہ کے دفاتر ہیں، کے بعد حیدرآباد وہ دوسرا شہر ہے جہاں دو اسٹیٹس یعنی تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے صوبائی دفاتر ہیں۔

یہ ایک عارضی بندوبست تھا جس کے تحت آندھرا پردیش نے اگلے دس سال کے عرصہ میں اپنا صدر مقام یہاں سے منتقل کرنا تھا۔ اس کے بڑے شہروں میں حیدرآباد، نظام آباد، کریم نگر اور وارنگل شامل ہیں۔ اس کے شمال میں مہاراشٹرا، شمال مشرق میں آندھرا پردیش، مشرق میں چھتیس گڑھ اور جنوب میں کرناٹک واقع ہیں۔ اس علاقے میں اٹھائیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہزاروں سال پرانے گھنے جنگلات بھی ہیں۔

یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ ہمارے ایک کرکٹر کی بیوی ثانیہ مرزا کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ آپ نے اسد الدین اویسی صاحب کا نام تو سنا ہو گا جو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور چار مرتبہ لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے ہیں، ان کا تعلق بھی اسی اسٹیٹ سے ہے۔ مسلمانوں کی ایک واضح اکثریت کی زبان اردو ہے۔ حال ہی میں اردو کو تلنگانہ کی دوسری سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ جس سے مسلمان تو خوش ہیں لیکن دوسرے بے حد ناراض ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے ذریعہ تعلیم اردو تھا جو اب بدل دیا گیا ہے۔

موجودہ تلنگانہ کے علاقے پر مقامی لوگوں کے علاوہ سلاطین دہلی اور مغل حکمرانوں نے بھی حکومت کی۔ 1948 ء میں ریاست حیدرآباد کا بھارت سے الحاق ہو گیا لیکن یہ مکمل طور پر بھارت کا حصہ نہیں تھی۔ 1956 ء میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے حیدرآباد کی ریاستی حیثیت ختم کر دی گئی اور اسے بھارت میں ضم کر دیا گیا اردو جو کہ اس ریاست کی سرکاری زبان تھی، کو ختم کر دیا گیا۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ شروع میں پاکستانی علاقے میں موجود ریاستوں بہاولپور، چترال، ہنزہ، دیر وغیرہ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا اور پھر بھٹو دور میں انھیں پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا۔

ریاست حیدرآباد کے تیلگو بولنے والے علاقے کو آندھرا پردیش کا حصہ بنا دیا گیا لیکن اس پر تیلگو بولنے والے خوش نہ تھے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ تیلگو بولنے والے علاقے پر مشتمل ایک الگ اسٹیٹ بنائی جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے ایک تحریک شروع کی۔ یہ تحریک 1950 ء میں شروع ہوئی اور 2014 ء میں تقریباً ً ساٹھ سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد یہ مطالبہ منظور کر لیا گیا اور تیلگو بولنے والے علاقے پر مشتمل تلنگانہ نامی ایک الگ اسٹیٹ بنا دی گئی۔ یہ بہت طویل جدوجہد تھی۔ جسے کسان تحریک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments