اوریا مقبقل جان، مالِ غنیمت اور جنگی قیدی


ادنی سا ایک طالبعلم، عام سا ایک سماجی مشاہدہ کار ہوں دل سے یہ سمجھتا ہوں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد انسانیت کے وہ اعلی معیارات دنیا میں مرتب کرنا ہیں جن کی بنیاد پر ”وحدہ لا شریک“ خدا نے خود سجدہ ریزی میں اپنا شراکت دار انسان کو بنا کر جن و انس کو جناب آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ انسانیت کے ان اعلی معیارات کو خدا نے دین کہا اور نام اسلام رکھا۔ اسلام کا میرے نزدیک اگر کوئی مطلب ہو سکتا ہے تو وہ نیت کا اخلاص۔ کیونکہ اس کا عالم و شاہد صرف خدا ہے۔

ہمارے ہاں لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جو اسلام کا مقصد تھا ہم نے اسلام ہی کو اس مقصد کی تنسیخ کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اخلاص نیت کے اثرات کردار میں نظر آتے ہیں۔ یہاں نیت کی کھوٹ کو چھپانے کے لیے مذہب مستعمل ہوا۔

یہی طالبعلم کا پسندیدہ موضوع ہے کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں ہمارے معاشرے میں تمام مسائل اسی وجہ سے ہیں کہ ہم نے اسلام اور اسلامی اقدار کو ایک ایسی جذباتیت اور ظاہری نمود سے جوڑ دیا ہے کہ جو چاہے جیسے چاہے اسے اپنے سیاسی، کاروباری، ادارہ جاتی اور ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرے۔

اوریا مقبول جان صاحب ایسے افراد میں ایک ایسی شخصیت ہیں جو کہ ایک مدت سے اپنی صحافت اور دانشوری کو مذہب میں ملفوف کر کے بیچ رہے ہیں۔ کبھی غزوہ ہند، کبھی افغان سٹوڈنٹس کبھی تحریک اوئے فلانڑے دیو پترو اور کبھی کیا اور کبھی کیا۔

اوریا مقبول جان صاحب کے تضادات کو پہلے بھی ایک مضمون میں سامنے رکھا تھا۔ ان کا حالیہ تضاد لیکن سب سے بڑا اور بھیانک ہے۔

پاکستان کی کل عمر میں فوج نے آدھی مدت براہ راست اور آدھی ”سیم پیج“ پر رہ کر حکومت کی ہے۔ ایسے میں فوج کے سربراہ کی حیثیت کیا ہے اگر آپ اس سے پوچھیں جس کے خیال کے مطابق اس اکیلے بندے نے جان اللہ کو دینی ہے تو اس نے کہا تھا آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔ ایک یوٹیوب والے ملاں صاحب کی زبانی زندگی میں کبھی انڈیا کا گانا نہ سننے والا تہجد گزار چیف ہوتا ہے۔ عمران خان صاحب کے ”قبل از خطرناک“ تاثرات میں تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے زیادہ ڈیموکریٹ چیف ہوتا ہے۔ اگر شہباز شریف صاحب کے خیالات سنیں تو وہ ان کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہوئے ساتھ خود تالی بھی بجائیں گے اور اگر آپ انور مقصود صاحب کے مخصوص لطیف انداز میں جاننا چاہیں گے تو وہ ہے۔

”کوئی تو ہے جو نظام ملکی چلا رہا ہے وہ باجوہ ہے“

یہ سب قابل فہم ہے لیکن کیا آپ نے اوریا مقبول جان صاحب کی قمر جاوید باجوہ صاحب کی بطور آرمی چیف تعیناتی اور آج کل کے تازہ بیان کو ملا کر سنا؟

اسے اس مضمون کی تمہید کو مد نظر رکھ کر سنیے تو آپ کی ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔ جانتے ہیں اوریا مقبول جان صاحب نے کسی بزرگ کے خواب میں آ کر کس نے باجوہ صاحب کی تعیناتی کی بشارت دی تھی؟ یقین مانیے لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں ان کو کہتے ہوئے خیال نہ آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے۔ جی ہاں اوریا مقبول جان صاحب نے تب قمر جاوید باجوہ صاحب کو سایہ ء خدائے ذوالجلال قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

اسکے علاوہ بار دگر عرض ہے کہ اوریا مقبول جان صاحب نے 1971 میں پاکستان کے ٹوٹنے کو اللہ کی خاص مشیت قرار دیا تھا تاکہ پاکستانی فوج یکسو ہو کر غزوۂ ہند لڑ سکے۔ میرا ماننا ہے کہ غزوۂ ہند وہ واحد غزوہ ہے جس کا مال غنیمت یہاں پر ازل کے غازی پہلے سے جمع کر رہے ہیں۔

ان کی تازہ ترین ویڈیو دیکھی تو وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے۔ سیاسی اور تجارتی مقاصد کے لیے مذہبی تقدیس میں ملفوف کیے گئے بیانیے کی جب حقیقت کھلتی ہے۔ تو تضاد کی خلیج اور گہری ہو جاتی ہے۔ اس تازہ انٹرویو میں اوریا مقبول جان قمر جاوید باجوہ صاحب کو عمران خان صاحب کی حکومت کے خاتمے کا قصوروار قرار دیتے ہوئے پوری قوم کو ان کا مخالف قرار دے رہے ہیں۔ ”رجیم چینج“ کے پیچھے اصل کردار انہیں ٹھہرا رہے ہیں۔ اور ایسے مختلف ممالک کی مثالیں دیتے ہوئے انہیں باور کروا رہے ہیں کہ جس فوج کے پیچھے قوم نہیں ہوتی وہ ہار جاتی ہے۔ سب سے حیران کن یہ کہ اسی 1971 کی تقسیم کا ذکر وہ ایک بالکل مختلف زاویے سے فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1971 میں حاضر سروس ایک اعلی عہدے دار کو سیکیورٹی نے وہاں سے تب بمشکل حفاظت سے نکالا تھا جب ان پر دھاوا بولا گیا تھا۔

یہاں یقیناً آپ کے ذہنوں میں بھی وہی سوالات ابھر رہے ہیں جو خادم کے کہ اوریا مقبول جان صاحب کے بقول (معاذاللہ) خود رسول اللہ (ص) کے تعینات کردہ قمر جاوید باجوہ صاحب کس طرح ”ایسے“ ثابت ہوئے کہ انہیں 1971 کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ سے عبرت حاصل کرنے کا عندیہ دیا جائے۔ رکیے گا کون سا سقوط ڈھاکہ کون سی جنگ؟ بھلا کون سی جو خود خدا کی رضا اور منشا تھی۔ ( لا حولا ولا قوت ) ۔

اوریا مقبول جان صاحب سے تو ان سوالات کے جواب یقیناً کبھی نہیں ملیں گے لیکن پڑھنے والوں کو ایک دست بستہ دعوت فکر ضرور ہے کہ آئیے مذہب کی درست تفہیم کرتے ہوئے جذباتیت کے یہ خول اپنے سروں سے اتار دیں تاکہ یہ لوگ مال غنیمت سمیٹتے ہوئے کم از کم ہمیں جنگی قیدی تو نہ سمجھے۔ الہی رحم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments