بوسنیا کی چشم دید کہانی۔ دوسری قسط


آٹھ جون 1996 کو ہماری ٹریننگ کا آغاز ہوا۔ صبح نو بجے سے مختلف موضوعات پر شروع ہونے والے ایک ایک گھنٹے کے لیکچرز شام پانچ بجے تک جاری رہتے۔ اس دوران ایک تا دو بجے کھانے کا وقفہ ہوتا۔ موضوعات میں یوگوسلاویہ کی تاریخ، انسانی حقوق، نقشہ آگاہی، کمپیوٹر، بارودی سرنگوں سے بچاؤ اور مقامی پولیس کی نگرانی شامل تھے۔ نصف شب تک گھوڑے شاہ کی رنگینیوں میں کھوئی رہنے والی سامعین کی اکثریت اس دوران نیم باز آنکھوں کے ساتھ کرسیوں پر جھول رہی ہوتی تھی۔

ٹریننگ کے نام پہ یہ بوریت 11 جون کو ختم ہوئی۔ اگلی صبح ہمیں بوسنیا روانہ ہونا تھا۔ ہم میں سے ہر ایک کو کہا گیا کہ وہ اپنے ساتھی افسر کا انتخاب کر لے اور ساتھ ہی سرائیوو، تزلہ اور بانیالوکا ریجن میں سے کسی ایک ریجن کو تعیناتی کے لیے چن بھی لے۔ ساتھی کے طور پر میں اور ڈی ایس پی اقبال پہلے ہی ایک دوسرے کا انتخاب کر چکے تھے، ریجن کے طور پر ہم نے سرائیوو ریجن کو چنا۔

اگلی صبح ہمارا دستہ تین حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ سرائیوو کے مسافر زغرب ائرپورٹ کی طرف رواں تھے جہاں یو این کا C 130 جہاز ان کا منتظر کھڑا تھا۔ ساڑھے نو بجے زغرب سے اڑنے اور تقریباً سوا گھنٹہ فضا میں رہنے کے بعد یہ جہاز ایک بار پھر زمین کے قریب ہوا تو منظر کچھ ایسا بدلا ہوا پایا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

سرائیوو ائرپورٹ کے رن وے کے دونوں اطراف بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے تھے۔ ڈھانچے کے طور پر سلامت رہ جانے والی اس کی عمارت کا کوئی بھی حصہ قابل استعمال نہ تھا۔ یو این نے اپنی پروازوں کا نظام چلانے کے لیے یہاں کچھ کنٹینر کے ساتھ دو بڑے بڑے خیمے گاڑ رکھے تھے۔ کنٹینر دفاتر کا کام دیتے تھے اور خیمے لاؤنجز کا۔ بوسنیا میں دنیا کے 32 ممالک سے لی گئی مسلح فوج IFOR کے نام سے تعینات تھی۔ پورا ائرپورٹ اس کے دستوں کی حفاظت میں تھا۔ چاق و چوبند فرانسیسی فوجی اس کے ارد گرد خاردار تاروں کا گھیرا بنائے داخلی اور خارجی راستوں پر مسلح پہرا دے رہے تھے۔

تقریباً پچاس مسافروں کا یہ گروہ جب جہاز سے باہر آیا تو وسیع و عریض ایپرن سنسان پڑا تھا۔ فضا میں اس قدر خاموشی تھی کہ کچھ ہی فاصلے پر ائرپورٹ کی شکستہ عمارت کے اوپر تیز ہوا کی زد میں آئے یو این کے جھنڈے کی پھڑپھڑاہٹ کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ہو کا ایسا عالم اور نقشہ کہ جیسا کہیں بیان ہوا۔

ع۔ انہیں بتاؤ کہ اب پرندوں کے جھنڈ سارے، دیار ہجرت کو چل پڑے ہیں۔

عمارت سے ذرا ادھر یو این کی چار پانچ سفید ڈبل کیب کھڑی تھیں۔ کچھ دیر بعد جب سامان ڈھونے والی ٹرالیاں کھڑ کھڑ کرتی جہاز کی طرف بڑھیں تو ارد گرد پھیلا خوف زدہ کرنے والا سکوت ٹوٹا اور جان میں جان آئی۔ ہم جب ائرپورٹ کی عمارت کے پاس پہنچے تو گاڑیوں کے قریب پاکستانی پولیس کی وردی میں ملبوس کچھ افسر نظر آئے۔ یہ افسران ہمیں ریجنل ہیڈکوارٹر لے جانے کی غرض سے یہاں موجود تھے۔ ان کے قریب پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہمارا سامان بھی پہنچنا شروع ہو گیا۔ ہم اپنا اپنا سامان ان ڈبل کیبن گاڑیوں میں رکھتے گئے اور فی گاڑی چار چار مسافر سوار ہوتے گئے۔ تمام مسافروں کو ریجنل ہیڈ کوارٹر تک پہنچانے کے لیے ان گاڑیوں کو ایک سے زائد پھیرے لگانے پڑے۔

ائرپورٹ سے باہر نکلے تو جگہ جگہ سرائیوو کے دامن کو تار تار پایا۔ راستے میں دوبرو وینا کے رہائشی فلیٹ ہوں یا باش چارشیہ سے الیزا تک جانے والی دو رویہ مرکزی شاہراہ پر واقع بڑی تجارتی عمارتیں، بموں سے اڑے ہوئے ان کے مختلف حصوں نے ان کی شکل بگاڑ کے رکھ دی تھی۔ ہر عمارت کے بچے کھچے حصوں پر گولیوں کے نشان کچھ یوں پھیلے ہوئے تھے کہ ان کے درمیان سلامت جگہ خال خال ہی دکھتی تھی۔

رستوں کو دھواں شہروں کو سنسان نہ کرتے
کرنا ہی تھا یہ کام تو انسان نہ کرتے
کچھ دیر ہمیں رہنے دیا ہوتا گھروں میں
کچھ دیر ہمیں بے سرو سامان نہ کرتے

سڑکوں پر IFOR کے مسلح دستے بکتر بند گاڑیوں میں گشت کر رہے تھے۔ یو این سرائیوو ریجن کا ہیڈ کوارٹر الیزا سے باش چارشیی جاتی ہوئی بڑی شاہراہ کے کنارے بر لب سڑک واقع تھا۔ یہ ایک نیم شکستہ چار منزلہ عمارت تھی جو PTT بلڈنگ کہلاتی تھی۔ جنگ سے قبل یہ عمارت محکمہ ڈاک اور ٹیلیفون کا صدر دفتر تھی۔ اب اسے جزوی طور پر مرمت کر کے قابل استعمال بنایا گیا تھا۔

ہم سب یہاں باری باری پہنچ کر اس کے استقبالیہ میں جمع ہوتے گئے۔ کمانڈر دستہ نے بتایا کہ ہم میں سے آدھے افسران آج ہی اپنے اپنے سٹیشنوں کو روانہ ہو جائیں گے اور باقی اگلی صبح۔ اگلی صبح کے مسافروں کی سرائیوو میں رہائش کے بندوبست کی ذمہ داری مقامی ترجمانوں کو سونپی گئی۔ میں اور اقبال بھی ان مسافروں میں شامل تھے جنہیں آج سرائیوو میں ٹھہرنا تھا۔

مسلمان ترجمان یوسف کے بقول اس نے ہمارے لیے جس رہائش کا انتظام کیا وہ ریجنل ہیڈ کوارٹر سے تقریباً ایک ڈیڑھ کوس کے فاصلے پر ایک عمارت کی سترہویں منزل پر واقع ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا۔ اس میں ایک بزرگ خاتون عدیلہ اکیلی رہتی تھیں۔ ایک رات کا کرایہ بمعہ رات کے کھانے اور ناشتے کے بیس مارک بتایا گیا۔ کہاں زغرب کے ہوٹل نووے گرادا میں انہی سہولیات کے ساتھ ڈبل روم کا فی کس کرایہ 27 ڈالر یومیہ اور کہاں سنگل روم کی سہولت کے ساتھ 20 مارک یومیہ کرایہ، ہمیں بھاؤ تاؤ کی گنجائش نظر نہ آئی اور حامی بھر لی۔

منزل پر پہنچنے کے بعد فلیٹ تک پہنچنے کے لیے لفٹ میں داخل ہوئے تو لگتا نہیں تھا کہ یہ ہمیں سترہویں منزل پہ پہنچا پائے گی۔ اس کی چھت سر سے ٹکرا رہی تھی۔ بجلی کے تار شکستہ جگہوں سے جھانکتے ہوئے، بٹن ٹوٹے ہوئے، رنگ و روغن اڑا ہوا اور دیواریں مقامی زبان کی تحریروں سے بھری پڑی تھیں۔ بہرحال رواں ریل گاڑی کی طرح مختلف آوازیں نکالتی لفٹ نے ہمیں مطلوبہ بلندی پر پہنچا ہی دیا۔

اماں عدیلہ کے فلیٹ میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سرائیوو کا باطن اس کے ظاہر سے کتنا مختلف ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا جو دو درمیانے سائز کے کمروں، ایک چھوٹے کمرے، ایک باتھ اور ایک کچن پر مشتمل تھا۔ درمیانے سائز کا ایک کمرہ خواب گاہ اور دوسرا بیٹھک ( ڈرائنگ روم) کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ چھوٹا کمرہ بچوں کے بیڈ روم کے طور پر سجایا گیا تھا۔ فلیٹ کا ہر حصہ اماں عدیلہ کے نفیس خاتون ہونے کو گواہ تھا۔ وہ ایک کمزور سی مگر نہایت پھرتیلی خاتون تھی۔ اماں نے تمام وقت ہماری خوب مدارت کی اور ہمارا اس قدر خیال رکھا کہ ایسا لگا وہ ٹھنڈی چھاؤں اس فلیٹ تک پھیل گئی ہے جو ہماری ماؤں کے پیار کی صورت ہم سے دور بہت دور اپنے وطن میں پیچھے رہ گئی تھی۔

زغرب میں گھوڑے شاہ کی شاموں کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ہم سہ پہر ڈھلتے ہی مرکز شہر کی سمت روانہ ہو گئے۔ شہر کی بڑی شاہراہ جو قریب ہی واقع تھی، دو رویہ سڑک تھی جس کے بیچوں بیچ بچھی پٹڑیوں پر وقفے وقفے سے ٹرامیں رواں تھیں۔ ٹرامیں کھٹارا حالت میں تھیں اور ان کے اندر سیٹیں خالی ہوتے ہوئے بھی نوجوان لڑکے ان کے پیچھے لٹکے سفر کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ہم ایک ٹرام میں سوار ہو گئے۔ یہ شاہراہ مارشل ٹیٹو کے سنگم پر پہنچ کر دریائے ملیکہ کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی شہر چہاجہ پل کے سامنے پہنچ کر ایک تنگ سڑک پہ مڑی اور ہمیں سرائیوو کے نصف صدی سے بھی زیادہ پرانے بازار باش چارشیہ تک لے آئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments