زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری


پندرہ جون مشہور شاعر نصیر ترابی کا یوم پیدائش ہے۔ وہ علامہ رشید ترابی کے فرزند تھے جو بذات خود ایک بلند پایہ مقرر، فلسفی اور مذہبی لیڈر تھے۔ نصیر ترابی ایک ٹی وی پروگرام میں بتاتے ہیں کہ شروع میں وہ ایک بہت اچھے مقرر تھے اور اسکول میں تقریری مقابلوں میں شرکت کرتے تھے۔

اسکول کے ایک مقابلے میں نصیر ترابی کو تیسرا انعام ملا۔ دوسرے دن اسکول میں ایک استاد نے نصیر ترابی سے کہا ”اگلی مرتبہ اپنے باپ سے اچھی تقریر لکھوا کر لانا“ ۔

نصیر ترابی نے اسی دن سوچ لیا کہ وہ اب تقریری مقابلوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ جب پرنسپل نے پوچھا کہ تم آج کل تقریری مقابلوں میں شرکت نہیں کر رہے تو نصیر ترابی صاحب نے جواب دیا کہ اگر میں پہلے نمبر پر آتا ہوں تو سب کہیں گے کہ والد صاحب نے تقریر لکھی ہے اور اگر نہیں آیا تو سب بولیں گے والد صاحب نے تقریر اچھی نہیں لکھی اور ان دونوں باتوں میں، میں کہیں نہیں ہوں۔ میری ذات اور میرا ٹیلنٹ کہیں گم ہو جائے گا۔

اسی طرح ایک مرتبہ ان کے والد علامہ رشید ترابی نے کہا میرا آج ایک بڑے اجتماع میں خطاب ہے تم بھی آنا اور اپنا کلام پڑھنا۔ نصیر ترابی فوراً اپنے استاد زیڈ اے بخاری کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا مجھے پڑھنا چاہیے۔ بخاری صاحب بولے میاں پچیس تیس ہزار لوگ ہوں گے، ضرور پڑھو۔

لیکن نصیر ترابی صاحب نے کہا پھر تو سکتا ہے داد مجھے میرے کلام کی بجائے اس بات کی ملے کہ میں ان کا فرزند ہوں۔ یہ سوچ کر نصیر ترابی نے بخاری صاحب کو بتایا کہ وہ محفل میں شریک نہیں ہوں گے۔

جب نصیر ترابی واپس گھر پہنچے تو بخاری صاحب پیچھے سے رشید ترابی کو فون کر کے یہ سب بتا چکے تھے۔ والد صاحب نے نصیر ترابی کو اپنے پاس بلایا اور ماتھا چومتے ہوئے کہا کہ خوش رہو۔

والد صاحب اس بات پر بہت خوش تھے کہ یہ اپنے بل بوتے پر کچھ کرنا چاہتا ہے۔ نصیر ترابی نے پھر شاعری کی طرف توجہ دی۔

وہ نوجوان تھے جب انہیں خبر ملی کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے اور بنگلہ دیش وجود میں آ گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ خبر سن کر مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرا ایک بازو کاٹ دیا ہو۔ اسی لمحے انہوں نے ایک شہرہ آفاق غزل تخلیق کی جس کے کچھ شعر تھے،

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
عداوتیں تھی تغافل تھا رنجشیں تھیں مگر
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی
محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

اسی غزل کے کچھ ایک دو مہینے بعد فیض احمد فیض نے بھی پاکستان کی تقسیم پر غزل کہی تھی جس کا شعر تھا،
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد

نصیر ترابی نے نظمیں بھی لکھیں۔ ایک مرتبہ وہ اپنی ایک نظم ناصر کاظمی کو سنا رہے تھے تو ناصر کاظمی نے سن کر فوراً کہا کہ تم غزل اتنی اچھی کہتے ہو، اسی طرف توجہ دو۔ یہ مشورہ سن کر نصیر ترابی صاحب نے پھر کچھ ایسی غزلیں تخلیق کیں جن کے کچھ اشعار میں لکھے دیتا ہوں۔

پہلے مشہور گلوکارہ حدیقہ کیانی کی گائی یہ غزل،
زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری
تجھ سے کیا کہتے تیرے پاس جو آتے گزری
دن جو گزرا تو کسی یاد کی رو میں گزرا
شام آئی تو کوئی خواب دکھاتے گزری

اور پھر یہ غزل،
آخر کو وحشتوں کا سلیقہ سا ہو گیا
چلتے رہے تو راستہ اپنا سا ہو گیا
تھے آئینوں میں ہم تو کوئی دیکھتا نہ تھا
آئینہ کیا ہوئے کہ تماشا سا ہو گیا
یوں دل دہی کو دن بھی ہوا رات بھی ہوئی
گزری کہاں عمر گزارا سا ہو گیا

مختلف مشہور شعرا نے نصیر ترابی صاحب کی زمین پر غزلیں کہیں ہیں جیسا کہ سلیم کوثر نے نصیر ترابی کی اس غزل کی زمین کو استعمال کیا،

تجھے کیا خبر مرے بے خبر، مرا سلسلہ کوئی اور ہے
جو مجھی کو مجھ سے بہم کرے، وہ گریز پا کوئی اور ہے
یہی شہر شہر قرار ہے، تو دل شکستہ کی خیر ہو
مری آس ہے کسی اور سے، مجھے پوچھتا کوئی اور ہے

احمد فراز نے اپنی مشہور غزل، سلسلے توڑ گیا وہ سب ہی جاتے جاتے، بھی نصیر ترابی کی اس زمین پر کہی تھی،

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے
شہر بے مہر کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے

نصیر ترابی صاحب کو ان کی زندگی میں وہ شہرت تو نہ مل سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ جس دنیا میں بھی ہیں رب کریم ان کو خوش رکھے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments