بجٹ مجنوں ہے کہ لیلیٰ


کھلا دھوکا دینے والے بازی گر آج کل ماہر معاشیات کہلاتے ہیں، ایک ہی رومال ہے جسے یہ ماہرین کبھی کبوتر بنا دیتے ہیں کبھی طوطا، اور دیکھنے والے پورے خروش سے تالیاں پیٹتے ہیں حال آں کہ ہوتا سب التباس ہے، یعنی بصری دھوکا، اور موجودہ وزیرِ خزانہ تو امامِ بازی گراں نکلے کہ اچھے اچھے سمجھ ہی نہیں پائے کہ لڑکی ہوئی ہے یا لڑکا، بجٹ مجنوں ہے کہ لیلیٰ، اچھا ہے کہ برا، عوام پر بوجھ پڑا ہے یا کچھ سہارا ملا ہے (سہارا تو خیر کیا ملنا ہے) یوں کہیے کہ کم بوجھ پڑا ہے یا زیادہ، اتنا سربند، ایسا ملفوف بجٹ، آنکھ کشمکش میں ہے یہ سایہ  شاخ ہے کہ سانپ۔ حالت یہ ہے کہ سیاسی مخالفین بھی ٹھیک طرح سے طے نہیں کر پائے کہ تنقید کا محور کیا ہونا چاہیے۔

جب پچھلی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب خان حکومت کے دفاع میں فرما رہے ہوں کہ ہم پر الزام ہے کہ آج تک کل ملکی قرضے کا 80 فی صد ہمارے دور میں لیا گیا ہے حالانکہ یہ بہتان ہے اور ہمارے دور میں تو صرف 76 فی صد لیا گیا تھا، ایسے میں وہ اس بجٹ پر کیا سنجیدہ تنقید کر پائیں گے، موجودہ حکومت کے بجٹ کا جو بھی خسارہ ہو گا وہ بھی پچھلی حکومتوں کی طرح قرض لے کر پورا کر لیا جائیگا، کیوں کہ یہ حکومت بھی اسی چھیدزدہ کشتی میں سوار ہے جس میں کہ پچھلی حکومتیں تھیں ( اور اگلی حکومت بھی ہو گی)۔

ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ عوام پر بالواسطہ ٹیکس لگتا ہے اور امراءکو سبسڈی دی جاتی ہے، یعنی غربا امراءکو پال رہے ہیں، یعنی الٹی گنگا بہہ رہی ہے، UNDP کی رپورٹ کہتی ہے کہ رعایتوں اور سہولتوں کی مد میں پاکستانی اشرافیہ ہر سال 17.4 ارب ڈالر ہڑپ کر جاتی ہے، اور یہ سلسلہ آج بھی خشوع و خضوع سے جاری ہے۔ ہماری معاشی حالت راتوں رات تو نہیں بگڑی، یہ سفر تو دہائیوں سے جاری ہے، اور ہم کب سے ریت میں سر دئیے دم ہلا رہے ہیں، وہ طوفان جو سال ہا سال سے ہماری طرف بڑھ رہا تھا آخر شائیں شائیں کرتا آن پہنچا ہے۔اب یہ حکومتوں کا بحران نہیں رہا، اب یہ ریاست کا بحران ہے، یعنی ”اب نہیں کوئی بات خطرے کی، اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے“۔ مختصراً یہ کہ ابن مریم ہونے کے سب دعویٰ داروں سے ایک مشترکہ درخواست ہے، سب کرتبی سب ڈِھٹ بند مل کر، یعنی مفتاح اسماعیل، شوکت ترین، حفیظ شیخ سب مل کر پچیس ہزار روپے ماہانہ (سرکاری سطح پر کم سے کم تنخواہ) کمانے والے کے گھر کا بجٹ بنا دیں، ہم بہ صد خوشی ا?پ کو اقتصادیات کا مہا گرو تسلیم کر لیں گے۔

یہ جو سیاست دان ہوتے ہیں ان کا رویہ بجٹ کی طرف عوام سے کچھ مختلف ہوتا ہے، بجٹ پیش کرنے والوں کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ یہ میزانیہ کسی بڑے عوامی ردِ عمل کا باعث نہ بنے، عوام کو ریلیف کے نام پر کوئی چھوٹی بڑی ٹافی دے دی جائے، اور پھر ’ان حالات میں اس سے بہتر بجٹ ممکن نہیں تھا‘ کا الاپ شروع کر دیا جائے، جب کہ دوسری طرف اپوزیشن ہر حال میں بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتی ہے۔ عمران خان بجٹ پر تنقید تو کر رہے ہیں مگر یک سوئی سے اونچے سروں میں نہیں، وہ ابھی تک روسی پٹرول نہ لینے کے غصے میں جل رہے ہیں، اور اسی کو حکومت کا سب سے بڑا معاشی گناہ ثابت کرنے پر ت±لے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں روسی سفیر کہتے ہیں کہ عمران خان کے دورہ کے دوران پاکستان اور روس کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ تو کیا، کسی مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط نہیں ہوئے تھے، عمران خان نے روسی دورے کے کئی دن بعد (جب عدم اعتماد کی تحریک ہویدا ہوچکی تھی) ایک خط روس کو لکھا تھا، بس وہی تنکا ہے جس سے خان صاحب سہارا طلب ہیں۔ اور اگر لمحے بھر کو فرض بھی کر لیں کہ عمران خان جو طلسمِ ہوش ربا سنا رہے ہیں مو بہ مو درست ہے تو پھر بھی اصحابِ ہوش یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ روس سے سستا تیل لے کر، چھ ارب ڈالر بچا کر، امریکا اور آئی ایم ایف سے جو سترہ ارب آتے ہیں آن کا کیا بنے گا، یعنی ’عقل کی توہین پر کیا آپ کا اِجارہ ہے‘۔ اور پھر غیر ملکی سازش کے بیانیے کو شیخ رشید نے یہ کہہ کر مزید صدمہ پہنچایا ہے کہ ’مجھے حکومت کے خلاف سازش کا چار ماہ پہلے سے علم تھا‘، تو پھر وہ مراسلہ کیا تھا جسے خان صاحب نے اپنے نئے بیانیے کے پرچم کے طور پر لہرایا تھا ؟ (فرہنگِ آصفیہ کے مطابق اناپ شناپ کا معنی ہے اُوٹ پٹانگ)۔

بحرحال اس وقت ہماری سیاست میں سب سے اہم سوال یہی ہے کہ ہوش ربا گرانی کی حالیہ لہر سے اتحادی حکومت بالخصوص مسلم لیگ نون کی عوامی حمایت پر کیا منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ، کیا عوام یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ مہنگائی کے بیج عمران خان کے آئی ایم ایف معاہدے نے بوئے تھے یا وہ مسلم لیگ نون کی کارکردگی سے مایوس ہو رہے ہیں؟ اس سوال کا سو فی صد درست جواب آپ کو کوئی تجزیہ کار نہیں دے گا بلکہ سترہ جولائی کو پنجاب میں بیس نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخاب دیں گے۔یہ انتخابات حمزہ شہبازکا بہ طور وزیرِ اعلیٰ مستقبل طے کریں گے، اور ساتھ ہی ان کے والد صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی مدت بھی طے کردیں گے، یعنی جنرل الیکشنز کا ٹائم فریم بھی یہ ضمنی انتخاب طے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ضمنی انتخابات یہ اشارہ بھی کر دیں گے کہ اب کہ فصلِ گل کس آنگن میں اترے گی یعنی اگلے عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔(یاد رہے کہ 2018 میں مسلم لیگ نون ان بیس نشستوں میں سے ایک بھی نہیں جیتی تھی) پاکستان کی تاریخ میں کوئی صوبائی یا قومی ضمنی انتخابات اتنے ہمہ گیر اور دور رس نتائج کے حامل نہیں رہے ہوں گے۔ غالباً اسی کو ام الانتخابات کہا جاتا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments