نذر محمد راشد اور ”ایران میں اجنبی“


نذر محمد راشد ”ایران میں اجنبی“ میں طنز آمیز لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے برصغیر کے تنزلی کو سامراج کے تکبر اور عوام کی منافقت سے منسوب کرتے ہیں۔ شاعر کے نزدیک، جب کہ سامراجی حکومت کی نوآبادیاتی نفسیات ایشیا کی پسماندگی کی حقارت پر مبنی ہے، ہندوستانیوں کی قومی نفسیات احساس کمتری اور بزدلی پر مبنی ہے، اور یہ دونوں نفسیاتی پہلو ایک دوسرے کے متضاد ہونے کے بجائے، ایک دوسرے کے لئے سازگار ہیں۔ یہاں قومی تذلیل کی تاریخ ان دونوں پہلوؤں کے بغیر نہیں لکھی جا سکتی ہے۔

شاعر ایران کے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی ترقی کے دھارے کی تبدیلی کے بغیر ایران جنوبی ایشیا کے وہی المیہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کی تمامیت سامراجی حکومت کی حکمت علمی رہی ہے۔ اگر چہ شاعر کے نظریات کو کس ایک مکتب فکر میں ڈالنا مشکل ہے، لیکن وہ اس بات پر یقیں رکھتے ہیں کہ فنکارانہ آزادی اخلاقی شعور اور سماجی ترقی کو روشن کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ ”ایران میں اجنبی“ میں، راشد کی استعاراتی زبان اور بیانیہ مصنوعی احساس پیدا کرنے کے بجائے، احساس براہ راست اور تیکھے پن کو جنم دے رہے ہے، جو تنقید کے لب و لہجہ کو بلندی تک پہنچا دیتی ہے۔

اگرچہ سامراجی حکومت اپنے ظلم اور جوڑ توڑ کے لئے بدنام ہے، لیکن شاعر سامراجی حکومت کو ایک شیطان کامل کے طور پر تصور کرنے کے بجائے اس کو ایک ہوشیار ”راہزن“ تصور کرتے ہیں جو برصغیر کی مادی دولت اور عوام کی نفسیاتی ضعف سے بخوبی واقف ہے۔ آیا یہ ایک ایسی ”امیر بیوہ“ کی مانند ہے جو اپنی دولت کو تقسیم کرنے کے لئے بے چین ہے لیکن سامراجی حکومت کے مطابق ہندوستانی قوم ایک ایسی ”خواجہ سراہ“ کی مانند ہے جس کی فرمانبرداری نہ صرف مشہور ہے بلکہ وہ صرف ہاں میں ہاں ملانا جانتی ہے۔ سامراجی حکومت دوسری بات سے واقف ہے کہ نسل اور مذاہب کی پیچیدگی خطہ کو تقسیم کرنے اور بدامنی پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے اور اس طرح سے خطہ کو آسانی سے فتح کیا جا سکتا ہے۔ ”نژاد کمتری“ سامراجی حکومت کی ”عنکبوت کے جال“ سے بچ نہیں سکتے ہیں۔

تاہم، شاعر کے نزدیک صرف سامراجی حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہر آیا جا سکتا ہے۔ در حقیقت ”ابن الوقت“ ہی اصل مجرم ہیں جو ”من و سلوی“ کی ارزو کی وجہ سے اپنی عزتوں کو ترک کرتے رہتے ہیں۔ یہ ابن الوقت منافق ہیں جو کبھی ”بھیڑیوں“ کی مانند نظر آتے ہیں جو مغرب والوں سے خوشولدی تلاش کرتے ہیں اور کبھی ان ”سائل“ کی مانند ہوتے ہیں جن کے پاس کوئی اخلاقی بنیاد نہیں ہوتی اور جو شرمندگی کو نہیں جانتے اور پہچانتے ہیں۔ چاپلوسی ان کی واحد عادت بن جاتی ہے۔ وہ سراسر ”بزدل“ ہیں جو اپنی اخلاقی سالمیت کو ”بخشش“ کے بدلے بدل دیتے ہیں۔ تاہم، انہیں صرف وہی ”دوا“ ملے گی جو انہیں خود کو اخلاقی سرزنش سے دیے گئے ”درد“ سے نجات دلائے گی۔

آخر میں، راشد لذت گرائی کا خشم ایران کو نجات معنوی کے سرزمیں سے خود شیفتگی کے زندان میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ کر ایرانی کو اس بات پر خبردار کرتے ہیں کہ صرف اخلاقی درستگی سے ایرانی قوم کو اپنے آپ کو المیہ سے دور کر سکتی ہے۔ شاعر ایرانی قوم کو یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ فارس اپنی ادبی دولت اور مذہبی پاکیزگی کی وجہ سے مشرقی اور اسلامی تہذیب کا مرکز تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی حکومت کی حمایت کے تحت محمد رضا پہلوی شاہ کے طور پر نام زد کیا گیا تھا۔

جہاں اقتصادی حالت میں کافی بہتری آئی، ایران کی اخلاقی حالت ابتر ہوئی جس پر مذہبی رہنماؤں نے تنقید کی تھی۔ اس لئے ایران کو اس امکان سے گریز کرنا چاہیے کہ مغرب کے بچھائے گئے جال میں پھنستے ہوئے ہندوستان کی غلطی کو یہاں دہرایا جائے۔ ”سیہ پوست“ کے ثقافتی تشدد نے ایرانی قوم کے لئے ”ناسور“ پیدا کر دیا تھا۔ اس میں ابلتا ہوا پانی نہ ڈالیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments