مسئلہ کشمیر اور پاکستان و ہندوستان کے حوالے سے ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دلت کا انٹرویو


ہندوستان کی ٹاپ انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ اور انٹیلی جنس بیورو ”آئی بی“ کے سابق سربراہ، ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی کے سابق مشیر برائے کشمیر امر جیت سنگھ دلت، نے 12 جون 2022 کو جے کے ویب ٹی وی کے میزبان واحد کا شر اور معروف پاکستانی صحافی افضل بٹ کو تقریباً سوا گھنٹے تک ایک انٹرویو دیا۔

دلت نے اس انٹرویو میں کوئی نئی بات نہیں کہی، صرف پرانے واقعات کو دوبارہ بیان کیا جو وہ پہلے بھی بیان کر چکے ہیں۔ انہوں نے کشمیر پر ہندوستان کے قبضے کو حتمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وقت گزرنے پر کشمیری اور پاکستان بھی ہندوستان کے قبضے کو تسلیم کر لیں گے۔ دلت نے پاکستان کی کمزوری کے تناظر میں یہ بھی کہا کہ اب انڈیا کو کیا ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرے، مذاکرات اسی صورت ہو سکتے ہیں کہ انڈیا دیکھے گا کہ پاکستان اسے کیا دے سکتا ہے۔

امرجیت سنگھ دلت 1940 میں مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ دلت 1988 سے 1990 تک انٹیلی جنس بیورو میں جوائنٹ ڈائریکٹر رہے، جو کہ وادی میں انڈیا کے لئے سب سے زیادہ پریشان کن وقت تھا۔ 1990 میں دلت نے کشمیر میں تعینات ہونے پر آزادی پسند رہنما شبیر احمد شاہ کو ”عسکریت پسندوں کا بڑا باپ“ قرار دیا، جس کے بین الاقوامی روابط تھے۔ دلت کو اس کے بعد انٹیلی جنس بیورو میں اسپیشل ڈائریکٹر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں وزیر اعظم ہندوستان کے دفتر میں جموں و کشمیر کے مشیر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، اس عہدے پر وہ جنوری 2000 سے مئی 2004 تک مقرر رہے۔ اے ایس دلت کی دو مشترکہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں، ”کشمیر واجپائی یئرز“ ( دلت اور ادتیا سنہا) اور سپائی کر انیکلز، ( دلت، اسد درانی اور ادتیا سنہا)

پہلے ہم دلت کیک اس انٹرویو کو پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد دلت کی کتاب ”دی واجپائی یئرز“ پر ممتاز و معروف کشمیری شخصیت ڈاکٹر سید نذیر گیلانی کا تحریر کردہ تبصرہ پیش کریں گے جس سے دلت کی سوچ اور کردار کو سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ دلت نے اپنی کتاب سپائی کر انیکلز میں یہ بھی لکھا تھا کہ میں اپنے پاکستانی دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات ضرور کریں لیکن کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی بات نہ کی جائے۔ یعنی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں انڈیا کی دکھتی رگ ہے، انڈیا کی بڑی کمزوری ہے۔

اس انٹرویو میں اے ایس دلت نے کہا کہ آزاد کشمیر کے بارے میں ہمیں زیادہ علم نہیں ہے، پاکستان کی کمزوری ہے کہ ہمارے ہاں ( مقبوضہ کشمیر) میں جو ہوتا ہے وہ پاکستان کو بھی نہیں معلوم، یہ ضرور ہوتا ہے کہ ہمارا کشمیر اچھا ہے یا آپ کا کشمیر اچھا ہے، ہمارا کشمیر آپ کے کشمیر سے بہت بہتر ہے، میں کشمیری ہوں نہیں لیکن ہمارے ہاں کشمیری بھی یہی کہتے ہیں، تو کوئی مقابلہ نہیں ہے، جو گئے بھی ہیں پار آپ کے ہاں، وہ بھی واپس آ کر کہتے ہیں کہ ہمارے کشمیر کا کوئی مقابلہ نہیں ہے، جو ویلی ہے وہ ویلی ہے۔

واجپائی کے دور میں جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا، وہاں سے دوبارہ سلسلہ شروع ہونے کے امکانات کے سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ بڑا مشکل ہے یہ کہنا کہ وہاں سے ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ پچھلے آٹھ دس سالوں میں ہندوستان بہت بدل گیا ہے، اس لئے اب یہ کہنا مشکل ہے کہنا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، یہ ضرور ہے کہ جب واجپائی کی بات چل رہی تھی تو کشمیری خوش تھے، بات چیت سے خوش تھے، ڈائیلاگ سے خوش تھے، اور مار دھاڑ کم ہو گئی تھی، اور کشمیری سمجھتا تھا کہ بات آگے چلے گی۔

پر یہ جو کچھ ہوتا، یہ ایک ترتیب نہیں ہے، اس میں کشمیریوں کا بھی رول ہے، پاکستان کا بھی رول ہے، میں آپ سے بات کرتا ہوں۔ دلت نے کہا کہ 2001 سے 2007 تک کی بات کرتا ہوں۔ میں پاکستانی دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ اب بات آگے چل رہی ہے اس کو چلنے دیں، آپ اگر مدد کریں کہیں کچھ ہو سکتا ہے، لیکن بات وہیں آ جاتی ہے کہ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت چالاکی دکھا رہا ہے، تو بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے۔ اگر سب مل کر چلتے جب واجپائی صاحب تھے انہوں نے کشمیریوں کو ایک موقع دیا تھا، پاکستان کو بھی، آپ کو یاد ہے کہ وہ بس لے کر لاہور گئے تھے، وہ چیز کچھ معنی رکھتی تھی، اس کے بعد کہیں کچھ ہوا، کرگل ہوا، ہماری پارلیمنٹ پہ اٹیک ہوا، لیکن واجپائی صاحب ہمت نہیں ہارے، انہوں نے کہا کہ میں پھر بھی بات کروں گا پاکستان سے، اور 2004 میں وہ پھر پاکستان گئے اسلام آباد سارک سمٹ میں، لیکن بات وہیں آ جاتی ہے کہ جب تک نا سب مل کر چلیں گے، تو بات آگے چلنے والی ہے نہیں، اور اب ماحول کچھ ایسا ہے کہ اب لگتا بھی نہیں کہ کوئی مل کر چلے گا، اب کسی کو وہ ضرورت بھی نہیں لگتی، جس کی میں آپ سے بات کر رہا ہوں۔

5اگست 2019 کے اقدام سے ہندوستان کی طرف سے کشمیر کے بھارت نواز سیاستدانوں سے بے وفائی کرنے کے سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ ہاں کچھ حد تک ہوئی ہے، میں مانتا ہوں جو ان لیڈروں کے ساتھ ہوا وہ اچھا نہیں ہوا، کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا، لیکن 370 میں جیسا کہ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ کچھ بچا نہیں تھا، کھوکھلا ہی تھا، اور یہ مسئلہ 1975 میں شیخ صاحب نے طے کر دیا تھا، جب انہوں نے کہا تھا کہ الحاق ناقابل تنسیخ ہو گیا ہے، یہ اب حتمی ہے، اس لئے اس میں کوئی چیز بچی نہیں تھی، اسی لئے میں کہتا تھا کہ اس کو اس طرح کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی تاہم اس میں کچھ بچا نہیں تھا، اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ کشمیری اس بات کو مان جائے گا، اور پاکستان بھی مان جائے گا، اور لگا کہ ایسا ہی ہو رہا ہے، اور پھر بات وہیں آ کر رک جاتی ہے، دو سال پہلے سیز فائر ہوا اور بڑا اچھا ہوا، باڈر ( سیز فائر لائن، لائن آف کنٹرول) پہ جھگڑے بند ہوئے اور وہ سیز فائر ابھی تک چل رہا ہے، لیکن سیز فائر کے بعد جو باتیں ہونی چاہئیں تھی وہ نہیں ہوئی ہیں۔

تمام حریت رہنماؤں کے قید میں ہونے کی صورتحال میں ہندوستان کس سے بات کرے گا، کے سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ صحیح ہے، میر واعظ صاحب کو گھر کے اندر ہی قید میں دو تین سال ہو گئے، لیکن باقی تو سب لوگ کھلے ہیں، جہاں جانا چاہئیں، آنا چاہئیں اس میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور اس میں آپ کی حریت والے بھی ہیں کچھ، جیسے پروفیسر صاحب ( پروفیسر عبدالغنی بٹ) ہیں، بلال صاحب ہیں، سارے بند نہیں ہیں، بات تو یہ ہے کہ بات آگے کیسے چلے، اب کشمیریوں کے ساتھ جو بات ہونی ہے ہوتی ہو گی میں سمجھتا ہوں، دلی اور کشمیر کی بات، لیکن دلی اور پاکستان کی بات بھی ضروری ہے، دلی اور اسلام آباد کی بات ضروری ہے۔

عمران صاحب جب وزیر اعظم تھے تو لگتا تھا کہ بات آگے چلے گی، لیکن پاکستان میں بدلاؤ آ گیا، اب جو وزیر اعظم ہیں شہباز شریف، ان کی کیا سوچ ہے، وہ کتنا آگے چلنا چاہتے ہیں، کس چیز پہ آگے چلنا چاہتے ہیں، اور ان کے پاس کیا ہے، ہندوستان کے نقطہ نظر سے، ہمیں کیا ملنے والا ہے پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے سے، تو جب تک یہ چیزیں نہیں ہوں گی تب تک بات وہیں رہ جائے گی، اور جب ہندوستان اور پاکستان کی بات ہوتی ہے تو لازمی ہے کہ کشمیر کی بات آ ہی جائے گی، حالانکہ ایک وہ بھی زمانہ تھا کہ عمران صاحب کہتے تھے کہ ہم کشمیر کو ”بیک برنر“ پر رکھ دیتے ہیں، اب ہم وہیں کے وہیں ہیں، میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہندوستان اور پاکستان کی بات ہونا بڑی ضروری ہے، کشمیریوں کے ساتھ تو بات ہوتی ہو گی، وہ ہندوستان کا حصہ ہی ہے، تو یہ نہیں کہ ان کے ساتھ بات نہیں ہوتی، اب کس قسم کی بات ہوتی ہے۔

دلت نے کہا کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے تو اس میں کوئی ”ڈاؤٹ“ والی بات نہیں ہے، میں نے پہلے کہا تھا کہ ہم پاکستان والے کشمیر کو نہیں جانتے اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان ہمارے والے کشمیر کو نہیں جانتا، یہ میں اس لئے دہرا رہا ہوں کہ واپس 1947 میں جانا، یو این ریزولوشن پر جانا، سیلف ڈیٹر میشن پہ جانا، ان چیزوں کا جب ذکر ہوتا ہے تو ہمارے ہاں جب کشمیری، جن میں سے کئیوں کو ہم علیحدگی پسند بھی کہتے ہیں، حریت والے بھی کہتے ہیں، وہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان تو اس معاملے میں سیریس تو ہے ہی نہیں، یہ کون سے باتیں کر رہے ہو، وہ زمانہ تو کب کا بیت گیا، تو اس لئے اس میں کوئی ڈاؤٹ نہیں ہے کہ کشمیر ہے ہندوستان کا حصہ، لیکن میں مانتا ہوں کہ یہ ایک اشو ہے، یہ ہندوستان پاکستان کے بیچ کا ایک اشو ہے، جس پہ جب بھی بات ہو، بات ہونی چاہیے کشمیر پہ۔

کشمیر خاموش ہے، کے سوال کے جواب میں ”را“ کے سابق سربراہ نے کہا کہ خاموشی سی ہے، اور خاموشی تو کسی قسم کی اچھی نہیں ہوتی، بات چیت چلتی رہنی چاہیے، اور میں تو بہت بار کہہ چکا ہوں کہ اگر کشمیر کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ یہی ہے کہ Revival 0 f the political and democratic process۔ کشمیر میں الیکشن ہونا چاہیے، کشمیر میں ”سٹیٹ ہڈ“ جو ہے، وہ واپس دینا چاہیے کشمیریوں کو ، یہ چیزیں ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ نہیں ہے، کئی حصے ہوتے ہیں، ہندوستان بڑا ملک ہے، وہاں پرابلم ہوتی ہیں صرف کشمیری نہیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ، آپ کو معلوم ہے کہ 1984 کے بعد پنجاب میں بہت ہنگامہ ہوا، بلو سٹار ( آپریشن) کے بعد ، اور ایک ٹائم آیا کہ لوگ کہتے تھے کہ وہاں خالصتان بننے والا ہے، لیکن وہ خالصتانی جو تھے، وہ چھوٹے عناصر تھے، کچھ آپ کے ہاں بھی رہتے تھے، اور دل خالصہ کے لڑکے بھی آپ کے ہاں لاہور میں ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کشمیر، یا پنجاب یا نارتھ ایسٹ نکسل کے لوگ ہندوستان سے الگ ہو جائیں گے، ہمارے ہاں بھی لوگ سوچتے ہیں کہ آپ کو پرابلم ہوتی ہے بلوچستان میں تو بلوچستان الگ ہو جائے گا، میں یہ نہیں سمجھتا کہ کچھ الگ ہونے والا ہے، اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں کہ کوئی الگ ہو پاکستان میں۔

جب واجپائی صاحب بس لے کر لاہور گئے تھے تو انہوں نے وہاں لکھا بھی تھا کہ مضبوط مستحکم پاکستان انڈیا کی خواہش ہے، اب اس سے زیادہ ہندوستان کا وزیر اعظم کیا کہہ سکتا ہے، لاہور میں جب ان کا گورنر ہاؤس مین بینکویٹ ہوا تو واجپائی صاحب نے کہا کہ میں واپس جاؤں گا تو میری پارٹی والے پوچھیں گے کہ آپ کو وہاں کیا پاکستان پہ اپنی مہر لگانی تھی کیا، تو واجپائی نے کہا کہ پاکستان کو ہماری مہر کی ضرورت نہیں ہے، پاکستان اپنی مہر پہ چلتا ہے تو ایسے ہی ہندوستان بھی اپنی ہی مہر پہ چلتا ہے، بات وہیں آ جاتی ہے کہ کس طرح یہ دونوں ملک اکٹھے ہو سکیں، اور اکٹھے نہ بھی ہو سکیں تو کم سے کم بات چیت تو کبھی بند نہیں ہونی چاہیے آپس میں۔

اے ایس دلت نے کہا کہ ایک ٹی وی پروگرام میں صلاح الدین صاحب (کشمیر کی آزادی پسند عسکری تنظیموں کے اتحاد کے سربراہ) بھی تھے، میں نے اس پروگرام میں بات چیت کے حوالے سے یہی کہا کہ بات چیت ہونی چاہیے اور میں نے کہا کہ اس میں صلاح الدین صاحب کا رول بھی بنتا ہے، صلاح الدین صاحب نے کہا کہ ہمارے لئے تو جگہ ہی نہیں ہے، تو میں نے کہا کہ آپ کے لئے بہت جگہ ہے، پھر کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ تو کوئی بات نہیں کرتا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کیسے بات کی جاتی ہے، تو یہ حدود کی باتیں ہیں۔

اب ہم آتے ہیں یاسین ملک، جب یاسین جیل سے چھوٹ کر سرینگر آیا تو اس نے کہا کہ میں اب بندوق چھوڑ رہا ہوں، اب میں گاندھیت پہ چلوں گا، سچی بات ہے کہ اس کے بعد اس نے بندوق نہیں اٹھائی، میں اس پہ اسے پورے مارکس دیتا ہوں۔ یاسین بھی اپنی طرح کا آدمی ہے، جب بات چیت ہو رہی تھی تو یاسین حریت کو چھوڑ گیا تھا، یہ ہمیشہ سے ہی اپنی لائن پر چلنا چاہتا تھا، اور اس کی لائن ٹیڑھی رہی۔

گیلانی صاحب کی سوچ اور تھی، وہ جو بھی بات کرتے تھے زیادہ تر پاکستان کی ہی کرتے تھے، اور کی وجہ یہ تھی کہ گیلانی صاحب جانتے تھے کہ، وہ ایک علیحدگی پسند لیڈر تھے، وہ جانتے تھے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہو بھی گیا تو اس میں ان کا رول نہیں ہو گا، ان کو جگہ نہیں ملنے والی ہے۔ جب یہ حریت ٹوٹی 2001 کے بعد اور ان کے جھگڑے ہوئے اور میر واعظ صاحب جن کو ہم ماڈریٹ حریت کہتے تھے، وہ الگ ہو گئے، تو کسی جرنلسٹ نے جب میر واعظ صاحب سے گیلانی صاحب کے بارے میں پوچھا تو میر واعظ نے کہا کہ
who the is hell is Gilani
یہ کون بلا ہے، مشرف صاحب بھی ایک بار بہت خفا ہوئے تھے گیلانی صاحب سے، کہ جب مشرف چاہتے تھے کہ بات آگے چلے تو گیلانی صاحب نے اس میں کچھ اڑچن ڈالنے کی کوشش کی تو مشرف نے کہا کہ getout you old man۔

دلت نے کہا کہ مشرف سے زیادہ ریزن ایبل پچھلے پچیس تیس سال میں کوئی پاکستانی لیڈر نہیں رہا ہے، جو بات انہوں نے کہی تھی جس کا چرچا ہوتا ہے ’فور پوائنٹ فارمولے ”کا، میں اب فور پوائنٹ کی بات نہیں کرتا ہوں کیونکہ اب فور پوائنٹ میں سے ایک پوائنٹ بھی دونوں طرف سے منظور نہیں ہو گا، مشرف صاحب کشمیر کے بارے میں بار بار کہتے تھے کہ جو بھی کشمیری اور کشمیریوں کو منظور ہو، وہ پاکستان کو منظور ہو گا۔ سردار قیوم بھی دو بار ہمارے ہاں آئے تھے اور انہوں نے تقریروں میں وہی الفاظ استعمال کر کے کہا کہ جس سے بھی کشمیری محفوظ رہ سکیں، ہم اس کی مکمل حمایت کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ تحریک دب چکی یا نہیں دب چکی اور آگے کیا ہو گا، یہ کہنا بڑا مشکل ہے، ایک بات جو آپ نے دو تین بار کہا ہے بندوق کے حوالے سے، تو میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بندوق آپ کے ہاں سے ہی آئی تھی، بندوق آپ نے ہی بھیجی یہاں، اور یہ جو کشمیر میں بربادی ہوئی ہے، یہ بہت حد تک آپ ہی کی مہربانی ہے، اگر یہ بندوق نہ آتی۔ ہمارے ہاں سے جو بھی زیادتی ہوئی جو کچھ بھی ہوا، کبھی کوئی ٹارگٹڈ کلنگ نہیں ہوئی ہندوستان کی طرف سے، ہمارے بہت سارے کشمیری لیڈر ٹارگٹ کر کے مارے گئے، مولوی فاروق کو مارا گیا، ساؤتھ میں ہمارا میر واعظ تھا قاضی نثار اس کو مارا گیا، ڈاکٹر گرو کو مارا گیا اور پھر لون صاحب کو مارا گیا، جب لون صاحب کو مارا گیا اور ان کی لاش گھر آئی تو سجاد اتنے غصے میں تھا کہ جب گیلانی صاحب وہاں افسوس کرنے آئے تو اس نے کہا کہ تم باہر نکلو۔ بندوق کے بارے مین آپ سے کہتا ہوں کہ بندوق سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا، اور اس کو آپ بھی جانتے ہیں، یہ کہنا کہ آزادی کی لڑائی پانچ سو سال بھی چلتی ہے، شاید چلے، لیکن بندوق سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا،

ایک سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ کشمیر ایک برج ( پل) بن سکتا ہے ہندوستان اور پاکستان کے بیچ، یہ بات میں نہیں مانتا کہ ہندوستان اور پاکستان کو کشمیر کو بھول جانا چاہیے، یہ بات میں نہیں مانتا کیونکہ جب ہندوستان اور پاکستان کی بات رک جاتی ہے تو کشمیری کی ایک طرح سے مایوسی کی حد ہو جاتی ہے، جب تک ہندوستان اور پاکستان کی بات چیت چلتی رہے۔

کشمیر ایشو کے حوالے سے بات کو آگے بڑھانے کے سوال کے حوالے سے دلت نے کہا کہ ٹریک ٹو، بیک چینل تو ٹریک ون کی ہوتی ہے، ٹریک ٹو اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اب جو ضرورت ہے وہ ٹریک ون کی ہی ہے، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کی ضرورت ہے، دونوں طرف کے ڈپلومیٹس اب بات کو مانتے نہیں جو میں کہتا ہوں کہ اس کی شروعات جو ہے، جو اسے آگے چلانا ہے تو یہ اوپر سے ہی ہو گا، نیچے سے نہیں ہو گا۔ جب دونوں کی سمٹ میٹنگ ہو گی، اسی لئے میں کہتا تھا کہ اگر بات کو آگے بڑھانا ہے تو عمران خان کو چاہیے کہ وہ یہاں آئے، مودی کے ساتھ حیدر آباد ہاؤس میں کھانا کھائے، سرسوں کا ساگ اور مکھن کی روٹی کھلوائیں گے اس کو ، اور پھر شاید بات آگے چلے، نہیں تو بات آگے چلنے والی نہیں ہے، اب شہباز شریف ہے تو ان کو سوچنا چاہیے کہ کب آنا ہے۔

دلت نے کہا کہ میں عمران خان کا کرکٹ کے حوالے سے فین ہوں۔

پروگرام کے ایک ناظر کے اس سوال کہ دونوں ملک کشمیر سے اپنی فوجیں نکال لیں اور کشمیر کو الگ ریاست تسلیم کر لیں، کیا یہ دونوں ملکوں کے حق میں بہتر نہیں ہے، کے جواب میں میں دلت نے کہا کہ یہ بات بڑی wishful thinking ہے، جب مشرف نے چار نکاتی فارمولہ بنایا تھا اس میں بھی ایسی بات نہیں تھی، اب جو سیز فائر ہوا ہے وہ بڑی اچھی بات ہے، اگر دونوں طرف سے ہلکے ہلکے ٹروپس میں کمی ہو، تھوڑے تھوڑے ٹروپس ہٹائے جائیں تو اچھا ہی رہے گا۔

کشمیریوں کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے، کے سوال کے جواب میں دلت نے کہا کہ کشمیری مجھے تھوڑا جانتے ہیں، اگر کشمیریوں کو میرا پیغام سمجھ نہیں آ رہا تو میر واعظ صاحب سے پوچھیں، وہ جانتے ہیں کہ میرا پیغام کیا ہے۔

امور کشمیر کے ماہر، جموں کشمیر کونسل فار ہیومن رائٹس کے سربراہ ڈاکٹر سید نذیر گیلانی، جو ، مسئلہ کشمیر کے آئینی اور قانونی پہلوؤں کے حوالے سے بھی عالمی شہرت رکھتے ہیں اور کشمیر کے موضوع پر ان کی مضبوط گرپ ہے، انہوں نے 22 جولائی 2015 میں اے ایس دلت کی کتاب ”وی واجپائی یئرز“ پر دو آرٹیکلز لکھے۔

ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے لکھا کہ دلت نے کشمیریوں کے بارے میں غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلت نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا کہ کشمیر میں صرف ایک ہی چیز سیدھی ہے اور وہ ہیں چنار کے درخت۔ دلت نے اس کتاب میں کشمیر کے مسلمانوں کے حوالے سے نسلی تعصب کا بھی اظہار کیا۔

سید نذیر گیلانی نے لکھا کہ دلت نے زیادہ تر ہندوستانیوں کی طرح کشمیری کردار کو سمجھنے میں غلطی کی ہے اور ان کی کتاب میں کشمیریوں سے متعلق حوالے اکثر توہین سے بھرے ہوئے ہیں۔

دلت کو کشمیر کے لوگوں کا مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ڈاکٹر گیلانی لکھتے ہیں کہ اے ایس دلت اور کشمیر میں ان کے مخبروں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹر پی گراہم اقوام متحدہ کے نمائندے برائے کشمیر نے 17، 30 اور 31 جنوری 1952 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں کشمیر کے لوگوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ، ”وہ افسانوی لوگ ہیں۔“ گانا اور کہانی، برف سے ڈھکے پہاڑوں، خوبصورت وادیوں اور زندگی بخش پانیوں سے جڑی۔ یہ لوگ، مسلمان، ہندو، سکھ اور عیسائی، بطور کسان، کاریگر اور فنکار، چھوٹے دکاندار، کشتی والے، اٹھانے والے اور دیگر مزدور اب علاقوں میں۔ جنگ بندی لائن کے دونوں جانب صدیوں سے استحصال اور تنازعات کا شکار رہے ہیں۔

سید نذیر گیلانی لکھتے ہیں کہ دلت کو کشمیر کے معاملات میں اتھارٹی کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اور دلت نے کشمیر کے بارے میں دعوے کرتے ہوئے کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کی عارضی حیثیت اور تقسیم برصغیر کے بعد ریاست کشمیر کے پاکستان کے ساتھ ”سٹینڈ سٹل“ معاہدے کو نظر انداز کیا ہے۔

ڈاکٹر گیلانی لکھتے ہیں کہ دلت کو یہ فخر ہے کہ ”را کے سربراہ اور کشمیر کے بارے میں ہندوستانی وزیر اعظم کے مشیر کی حیثیت سے وہ 1999 سے 2004 تک پانچ سال میں چار بار پاکستان کا دورہ کرنے میں کامیاب رہے۔

اے ایس دلت نے اپنی کتاب ”دی واجپائی یئرز“ میں یہ بھی لکھا کہ جو چند کشمیری مجھے فون کرتے تھے، ان چند افراد کے میری بیوی نے تمسخر اڑانے والے مزاحیہ نک نیم رکھے ہوئے تھے اور فون آنے پر دلت کی بیوی اس شخص کا مزاحیہ، جسے توہین پر مبنی کہنا مناسب ہو گا، نک نیم پکارتے ہوئے آواز لگا کر دلت کو بتاتی تھی۔ یعنی دلت سے فون پر رابطہ رکھنے والے چند کشمیری افراد کو دلت اور اس کی بیوی نے ایک مذاق بنایا ہوا تھا اور ان کا تمسخر اڑاتے تھے۔

دلت کی کتاب ”دی واجپائی یئرز“ پر اپنے تبصرے میں ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے ایک زبردست بات یہ بھی لکھی کہ کشمیر میں ”را“ اور ”آئی بی“ کے افسران کے تکبر کا یہ عالم ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وادی کشمیر میں وہی زمین کو سورج کے گرد گھماتے ہیں۔ دلت کشمیر میں، اپنے وقت میں کشمیر کے لوگوں کے لئے ایک بے رحم کردار رہا ہے۔

ڈاکٹر سید نذیر گیلانی مزید لکھتے ہیں کہ کیا دلت نے معصوم کشمیریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے نہیں ہیں، اور کیا انہوں نے چند کشمیری پنڈتوں کے ذریعے ”کشمیر فار کشمیریت“ کی مہم نہیں چلائی؟ اور کیا 1990 کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی سطح پر حق خودارادیت کی حمایت میں شامل غیر متزلزل مسلم کشمیریوں کے کرداروں کو قتل کرنے کی مہم نہیں چلائی؟ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے والے کشمیریوں کے خاندانوں کے بزرگ افراد پر تشدد اور ان کی گرفتاریوں کا حصہ نہیں رہے؟

دلت نے درست کہا ہے کہ ہندوستانی پیسہ کشمیر میں بہت سے شعبوں اور کشمیر سے باہر اثر و رسوخ کے دوسرے بہت سے علاقوں میں اپنا راستہ خریدنے میں کامیاب رہا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ را اور آئی بی ایک عام کشمیری کے زبردست جذبات کو نہیں خرید سکے۔ ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ مقامی کشمیر پنڈت کو مسلمانوں کی جاسوسی کے لئے بھی استعمال کرتی آئی ہے اور کشمیریوں کو محکوم اور عاجز رکھنے کے لئے کشمیری پنڈتوں کو بھی استعمال کیا ہے۔

ہندوستانی را اور آئی بی کے پاس غلط افسران ہیں جیسا کہ آر کے یادیو نے اپنی کتاب ”مشن آر اینڈ اے ڈبلیو“ میں بیان کیا ہے اور دلت جیسے لوگ، اگر وہ مستثنی ہیں، جموں و کشمیر میں خدمات انجام دینے کے لیے کم ہی موزوں ہیں۔ دن کے اختتام پر دلت بھی ہندوستانی پیاز کا ایک چھلکا ثابت ہوتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں یہ تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ہندوستانی فوجی نے ریاست میں عارضی طور پر علاقے کے دفاع، جان و مال اور عزت کے تحفظ کے لیے داخلہ لیا، درحقیقت داخلے کی شرائط سے ہٹ کر کام کیا اور کشمیری مسلمانوں کی ایک نسل کی ہلاکت میں حصہ لیا۔

بر سر تذکرہ دلت کی طرف سے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے موازنے کی بات پہ عرض ہے کہ وادی کشمیر اور آزاد کشمیر کا تقابل کرنا بنتا نہیں ہے کیونکہ وادی

کشمیر میں ہزاروں سال سے انسانی، شہری نظام قائم ہے جبکہ آزاد کشمیر میں 1947 کے وقت کچھ بھی نہ تھا، 1947 سے آج تک آزاد کشمیر میں کئی سو گنا ترقی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments