ایک بار اور میری عیادت کو آئیے


ہاسٹل ایک ایسی نگری کا نام ہے جو ماؤں کے لال کو بے حال کرنے کے قانونی ہنر سے مالامال ہوتی ہے۔ ہاسٹل کے اس قانونی ہنر کے سانچے سے گزرنا ان طلباء و طالبات پر فرض عین کی مانند لاگو ہوتا ہے جو دل میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خواہش کے موتی کے لمس کو سلگائے گھر سے دور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ ہاسٹل کے در و دیوار کے اندر داخل ہوتے ہی تمام کام کی ذمہ داری خود پر عائد ہو جاتی ہے اور ان بچوں کا حال دیکھنے لائق ہوتا ہے جو گھر کے راج میں کبھی تنکا تک نہیں اٹھاتے۔

ہاسٹل کی زندگی کے جہاں بے شمار مسائل ہیں وہاں چھوٹی چھوٹی خوشیاں، دوستوں کے ساتھ سارا سارا دن گزارنا، ایک دوسرے کو بات بات پر چڑھانا، نئے نئے موضوعات کی کھوج، آئے دن نئی شرارتیں، دوستوں کے گروہ میں کھڑے ہو کر ہلڑ بازی اور عجیب قسم کے مذاق جیسی رونقیں بھی شامل ہیں۔ اگر ہاسٹل کی زندگی کے بنیادی مسائل کو زیر بحث لایا جائے تو وہ صرف دو ہیں، پانی اور کھانے کا مسئلہ۔ گاؤں کا ٹھنڈا میٹھا پانی جن کی گھٹی میں شامل ہو انہیں ہاسٹل کا کھاری پانی راس آنا سچ میں عجوبہ اور معجزے کی بات ہے۔

گاؤں کے کھیت کو سیراب کرتے ٹیوب ویل کا صاف و شفاف آب اور ماں کے ہاتھ کی مکئی کی روٹی، لسی اور ساگ کے عادی ہاسٹل کے بے نمک کھانے اور نمکین و بدمزہ پانی سے آئے روز بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہاسٹل میں بیماری کا مطلب ہوتا ہے عذاب الٰہی کیوں کہ ہاسٹل میں زیادہ تر لوگ الو صفت ہوتے ہیں جو دوسرے لوگوں کے ساتھ میل ملاپ رکھنا اپنی فطرت کے عین منافی سمجھتے ہیں۔ بعض اوقات معاملہ اس کے برعکس بھی ہوتا ہے اور خوش قسمتی سے ایسے لوگ بھی میسر آ جاتے ہیں جو خیال رکھنے والے ہوتے ہیں۔ مگر دوسرے گروہ کے افراد کی شرح پہلے گروہ کی نسبت بہت کم ہے۔ اگر انسان ہاسٹل میں موسم امتحان کے دوران بیمار پڑ جائے تو جو اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے وہ عذاب عظیم سے کسی صورت بھی کم نہیں ہوتی۔

چوتھے میقات کے فائنل امتحان کے دنوں میں میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ رونما ہوا۔ ادھر امتحان شروع ہوئے اور ادھر معدہ میں شدید قسم کی ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ دو تین روز تک میڈیکل سٹور سے دوائی وغیرہ لیتا رہا اور کمرے کے ساتھیوں کو خبر تک نہ ہونے دی۔ میرا یہ اصول ہے کہ اپنے ساتھیوں کو کسی صورت نہ پریشان کیا جائے اور نہ ہی ان کے معاملات میں دخل انداز ہوا جائے اور امتحان کے دنوں میں اس اصول پر سختی سے کار بند رہا جائے۔

چوتھے روز درد کی شدت سے چہرہ کا رنگ پھیکا اور آنکھیں زرد ہونا شروع ہو گئیں۔ چہرے کے تاثرات اور مسکراہٹ کے پھیکے پن سے کمرے کے ساتھیوں کا شک یقین میں بدلتا گیا کہ حسن کی طبیعت ناساز ہے۔ ان سے نہ رہا گیا اور انہوں نے سختی سے دریافت کیا تو میرے بتانے پر برہم ہوئے اور مجھے کمرے میں بستر پر لیٹنے کا حکم صادر کرتے ہوئے باہر چلے گئے۔ آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرنے پایا تھا، ہاتھ میں دوائی کا پیکٹ لئے کمرے میں واپس داخل ہوئے۔ چند منٹ بعد ڈاکٹر بھی آ نکلا اور میرا ہلکا پھلکا علاج کروایا گیا۔ پانچویں دن طبیعت کی زیادہ خرابی کی بدولت ہسپتال بھی جانا ہوا۔ واپس آتے ہی دونوں ساتھی مجھے سختی سے آرام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے پرچہ کی تیاری میں جٹ گئے۔ کیونکہ میرا اگلی صبح پرچہ نہیں تھا اس وجہ سے آرام سے سو گیا۔

اگلی صبح بیدار ہوا تو درد کی شدت میں کمی ضرور تھی مگر اتنا درد باقی تھا کہ پانچ منٹ مسلسل بیٹھ نہ پاتا تھا۔ بارہ بجے کے قریب یونیورسٹی کے ایک سخن فہم دوست کا میسج آیا اور عیادت کی غرض سے میرے ہاسٹل آنے کی اطلاع دی۔ تقریباً ایک بجے کال آئی اور دوسری جانب سے دوست کی آواز آئی، ”میں بازار میں کھڑا ہوں اور سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ کا ہاسٹل کس طرف کو ہے۔“ میں نے اسے وہیں رکنے کا کہا اور بنفس نفیس اسے لینے گیا۔

کیا دیکھتا ہوں، جناب ہاتھ میں لسی اور کھانے کا ڈبہ پکڑے چلے آرہے ہیں۔ ہاسٹل لے کر آیا اور اپنی طبیعت کے ناساز پن کو اس پر عیاں نہ ہونے دیا۔ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں اور پھر اس دوست نے ایک دوسرے دوست کو کال کر کے کہا، ”میں حسن کے پاس ہوں، تم بھی آ جاؤ“ ۔ چند لمحات بعد وہ دوست اپنے ایک دوست کو ساتھ لیے آ پہنچا۔

پہلے سے تشریف لائے ہوئے دوست نے وہ کھانا پیش کیا جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ اس کے باوجود کہ ڈاکٹر نے مجھے روٹی سالن کھانا سختی سے منع کیا تھا، دوستوں کے لحاظ کی خاطر چند لقمے تناول کیے۔ گپ شپ شروع ہوئی تو بات یونیورسٹی کے معاملات، یونیورسٹی کے اساتذہ، اردو ادب اور خاندانی روایات سے ہوتی ہوئی پاکستانی سیاست تک جا پہنچی۔ میری حالت ایسی کہ مسلسل بیٹھے رہنے اور چند لقمے روٹی کی وجہ سے درد کی شدت بڑھتی گئی۔ ایسی حالت کے باوجود مسکراہٹ کے جھومر کو چہرے پر سجائے رکھا اور اپنی طبیعت کی اصل حالت دوستوں پر عیاں نہ ہونے دی۔

میرے کمرے کے ساتھی کہیں باہر گئے ہوئے تھے، ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ بھی آ پہنچے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اپنے اپنے بستر پر دراز ہو گئے۔ چند لمحات بعد انہیں میری ہنسی کے پیچھے چھپے راز نے بے چین کرنا شروع کر دیا۔ ایک ساتھی اٹھا اور دوسرے کے کان میں کچھ کہا، دوسرے نے ”ہوں“ کہتے ہوئے سر کو جنبش دی۔

وہ ساتھی پیچھے مڑا اور میرے جامعہ کے ساتھیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔ ”کیا آپ سب پنجابی ہیں؟“ سب نے یک زبان کہا، ”جی الحمدللہ! ہم سب پنجابی ہیں۔“ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا اور پوچھا، ”حسن رات تمہیں کتنے انجکشن لگے تھے۔“ میں نے جواب دیا، ”تمہیں معلوم ہے“ وہ پھر میرے جامعہ کے دوستوں سے مخاطب ہوا اور کہا۔ اگر آپ برا نہ منائیں تو حسن کو آرام کرنے دیں۔“ یہ سن کر دوستوں کے تاثرات میں کچھ خاص تبدیلی نہ آئی اور انہوں نے کہا کہ ہم ابھی جانے لگے ہیں۔ مجھے قدرے برا بھی لگا مگر کمرے کے ساتھی کی میری طبیعت کو لے کر اضطرابی نے خوشی کا احساس بھی دلایا۔ وہ رخصت ہوئے اور میں درد کے کرب سے نجات کی خاطر بستر پر دراز ہو گیا۔ جیسے جیسے طبیعت میں بہتری آتی گئی ایک امنگ دل میں پروان چڑھتی گئی کہ دوستوں کو کال کر کے کہوں!

”ایک بار اور میری عیادت کو آئیے“

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments