اے آر وائی اور جیو میں کیا دشمنی ہے


ماس میڈیا کی کلاسز کے دوران اساتذہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ خبر بکتی ہے اور میڈیا آئیڈیاز کی منڈی ہے۔ نیوز میڈیا خبر ایسے ہی بیچتا ہے جیسے ریڑھی والا اپنا پھل اور سنار اپنا سونا بیچتا ہے۔ ہم دیہات سے آئے لوگوں کو پہلے پہل تو یہ بات پلے نہ پڑی کہ خبر بھلا کیسے بک سکتی ہے؟ خبر کی مارکیٹ کیا ہے؟ خبر کے گاہک کون ہیں اور کتنے میں بکتی ہو گی؟

میڈیا اداروں کی خبر کو بیچنے کی تکنیک کیا ہو سکتی ہے؟

ان دنوں ”سب سے پہلے“ اور ”سب سے بڑا“ کا رواج تھا۔ ہر چینل ہر خبر کے ساتھ یہ دو جملے ضرور دہراتا تھا۔ لیکن خبر کی پروموشن کا یہ طریقہ زیادہ کارگر اور دیر پا ثابت نہ ہوا کیوں کہ تمام چینلز ملتی جلتی شیخیاں بگھارتے تھے۔ آخر کو نیوز اینکر نے دو چار الفاظ ہی تو بولنا تھے۔ کون سا کچھ ثابت کرنے کی ضرورت تھی۔ انار کلی اور اچھرہ بازار میں بھی دکان دار گاہکوں کو اسی طرح آوازیں لگا کے بلاتے نظر آتے ہیں۔

صحافت کے ہر نئے نویلے طالب علم کی طرح ہمارے ذہن میں بھی یہ سوال آتا تھا کہ صحافتی ادارے کماتے کہاں سے ہیں؟ پندرہ روپے کا اخبار اور اڑھائی سو روپے میں سو چینلز تو خرچے بھی پورے نہیں کر سکتے۔ تو یہ اینکرز کو پچاس پچاس لاکھ تنخواہ کہاں سے دیتے ہیں؟ خدا گواہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی دھیان ”لفافے“ کی طرف چلا جاتا تھا لیکن ہم صحافت سے بدگمان نہیں ہونا چاہتے تھے کہ ہم نے بڑے چاؤ سے یہ مضمون رکھا تھا۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ پہلے سمیسٹرز میں سر سید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور ابو الکلام آزاد کو بطور صحافی ہمیں پڑھا دیا گیا۔ اب آپ خود ہی سوچیے تہذیب الاخلاق، ہمدرد، زمیندار اور البلاغ کی تاریخ پڑھنے کے بعد آپ کا کمرشل صحافت کی طرف دھیان کیسے جا سکتا ہے بھلا۔ چندہ صحافت اور اشتہاری صحافت اپنی نوعیت میں دو مختلف صحافتیں ہیں۔

خدا بھلا کرے اساتذہ کا جنہوں نے بتایا کہ صحافتی اداروں کی کمائی کا بڑا ذریعہ اشتہارات ہوتے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی کمپنیاں ایڈورٹائزنگ ایجنسیز سے اپنی پروڈکٹس کے اشتہارات تیار کرواتی ہیں۔ جو اخبارات میں چھاپے اور چینلز پہ براڈکاسٹ کیے جاتے ہیں۔ اخبارات میں اشتہار کی قیمت کا تعین جگہ، صفحہ، اور دن کے حساب سے ہوتا ہے جب کہ چینلز پہ سودا وقت کے حساب سے ہوتا ہے۔ کتنے وقت کا اشتہار کس وقت چلے گا۔ یعنی یہ سارا ٹائم اینڈ سپیس کا چکر ہے۔

اشتہارات بلکہ مہنگے اشتہارات اسی نیوز چینل کو ملتے ہیں جو عوام میں زیادہ مقبول ہو اور اپنے ناظرین کو مستقل سکرین کے ساتھ باندھے رکھے جانے کا ہنر جانتا ہو۔ جیو اور اے آر وائی دونوں کو 2011 کے بعد پاکستان کے بدلتے ہوئے سیاسی ماحول میں اپنے لیے بزنس پلان نظر آیا۔ عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بعد پاکستان میں سیاست و اقتدار کا مرکز پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ( ن) بن گئے۔ عمران خان اور نواز شریف مرکزی شخصیات ٹھہریں۔ دو طرفہ مخالف بیانیہ اتنا سخت تھا دونوں طرف کے ووٹر سیاسی اور جمہوری نظام کا حصہ بننے کی بجائے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔

معاشرے میں سیاسی پولرائزیشن اس قدر بڑھ گئی کہ ایک ہی گھر میں اگر باپ نواز شریف کا متوالا ہے تو بیٹا عمران خان کا فین۔ شہر شہر، قصبہ قصبہ، اور گاؤں گاؤں لوگ تحریک انصاف اور نون لیگ میں تقسیم ہوتے چلے گئے۔ سیاسی فرقہ واریت کا سا ماحول بن گیا۔ لیڈر مرشد اور سپورٹر مریدین کا روپ دھار گئے۔

ایسے ماحول میں جیو اور اے آر وائی کے کاروباری مالکان کو اپنے لیے منافع بخش اور مستقل بزنس پلان نظر آیا۔ کسی بھی ایک سیاسی بیانیہ کی مستقل کوریج انہیں طویل عرصے تک کروڑوں ناظرین مہیا کر سکتی تھی۔ جن کے بل بوتے پر کمپنیوں سے اشتہارات کے تگڑے دام وصول کیے جا سکتے تھے۔ اور اپنے اپنے ناظرین کا سودا کیا جا سکتا تھا۔

جیو نیوز نے ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مسلم لیگ ( ن) سے راہ و رسم بڑھا لی اور اور میاں نواز شریف کے لیے ادارتی پالیسی کو نرم کر دیا۔ جب کہ اے آر وائی نے عمران خان کو قوم کے مسیحا اور مخالفین کو چور کے طور پہ پیش کرنا شروع کر دیا۔ میاں نواز شریف اور عمران خان کے جلسوں کی کوریج سے لے کر بیانات کی فریمنگ تک ہر چیز بدل گئی۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

پانامہ لیکس کے بعد تو بزنس پلان مزید واضح ہو گیا۔ میاں نواز شریف کا ووٹر اور سپورٹر اپنی مرضی کی خبر جاننے کے لیے جیو نیوز پہ بھروسا کرنے لگا۔ اور تحریک انصاف کے ووٹر کو عدالتوں کے بعد اے آر وائی کا سہارا تھا۔ دونوں چینلز نے نہ صرف ناظرین کو گود لے لیا بلکہ دل بہلانے کا مکمل سامان بھی مہیا کیا جانے لگا۔

پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بلکہ مرکزی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ جس سیاسی شخصیت یا جماعت کی حمایت کرتی ہے حکومت اسی کی بنتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے ساتھ ”ملکی بقا“ ، ”حب الوطنی“ ، ”قربانی“ اور ”مضبوط فوج“ کا نعرہ اور بیانیہ رکھتی ہے۔ پاکستان میں اس بیانیہ کے گاہکوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔

دوسرا بیانیہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ ماورائے آئین اقدامات کے ذریعے ملکی سیاست میں مداخلت کرتی ہے اور ملک کی تباہی میں برابر کی ذمہ دار ہے۔

میں نواز شریف اپنی نا اہلی کے بعد ”ووٹ کو عزت دو“ اور ”خلائی مخلوق“ کے نعرے لگانے لگے۔ جب کہ عمران خان فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے دفاع میں سامنے آ گئے۔ اسی طرح جیو اور اے آر وائی نے بھی بالترتیب اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پرو اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے مطابق ایجنڈا سیٹنگ شروع کر دی۔ تا کہ ناظرین کو سکرین کے ساتھ جوڑ کے رکھا جائے۔

2018 میں عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ اے آر وائی عمران خان اور فوج کی کھل کے حمایت کرتا رہا۔ جب کہ جیو نیوز میاں نواز شریف کے ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیے کا ساتھ کھڑا رہا۔ اسی بیانیہ کی پاداش میں حامد میر اور طلعت جیسے بڑے صحافیوں کو آف سکرین بھی ہونا پڑا۔ جب کہ اے آر وائی کے ارشد شریف اور عادل عباسی فوجی بیرکوں میں پروگرام کرتے نظر آئے۔ عمران خان نے علانیہ جیو کا بائیکاٹ کیے رکھا۔ اور کینٹ ایریا میں چینل کی نشریات پہ پہ پابندی رہی۔ جب کہ اے آر وائی حکومتی اشتہارات اور حکومتی خبروں کے لیے پہلی چوائس بن گیا۔

ساڑھے تین سال یہ سلسلہ جاری رہا۔ وزیر اعظم عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب ہوئے اور ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ لیکن خان صاحب کی مقبولیت میں فرق نہ پڑا۔ اب خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کی حکومت گرائی ہے۔ خان صاحب کے بدلتے ہوئے بیانیہ کے ساتھ اے آر وائی کی بھی فوج کے ساتھ ہمدردی ختم ہو گئی۔ اب وہ ہی ارشد شریف فوج کی سیاست میں مداخلت پہ سوال اٹھاتے ہیں اور ”وہ کون تھا“ کے عنوان پہ پروگرامز کرتے ہیں۔

اب مریم نواز پریس کانفرنس سے اے آر وائی کا مائیک ہٹا دیتی ہیں اور فوج کے حق میں پریس ٹاک کرتی ہیں۔ جب کہ خان صاحب ہر جلسے میں اسٹیبلشمنٹ پہ ”نیوٹرلز“ کا طنز کستے ہیں۔ جیسے جیسے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کی سوچ اور بیانیہ بدلا ان دونوں چینلز نے نئی سوچ اور بیانیہ کے لیے اپنی سکرین پیش کر دی۔ کیوں کہ دونوں جماعتوں کے ساتھ ناظرین کی بڑی تعداد جڑی ہے جو اشتہارات کے حصول کا بڑا ذریعہ ہے۔ یعنی یہ سارا کھیل نظریات بلکہ کاروبار کا ہے۔ اور آپ اپنی تمام تر سوجھ بوجھ، عقل اور نظریات کے باوجود بھی اتنی ہی حیثیت رکھتے ہیں کہ کوئی آپ کو بیچ کر اقتدار حاصل کرتا ہے تو کوئی منافع۔

خبر بکتی ہے اور آپ بھی۔ جیو اور اے آر وائی میں کوئی سیاسی اور نظریاتی اختلاف نہیں صرف آپ کی سودے بازی پہ مخالفت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments