کیا ووٹ کو عزت دو کا نعرہ مستانہ لگانے والا نواز شریف بزدل ثابت ہوا؟


کیا سیاستدان کرپٹ ہوتے ہیں؟ کیا سیاسی رہنما صادق و امین نہیں ہوتے؟ کیا سیاستدانوں کے علاوہ کسی اور طبقے کا بھی اس ملک میں کبھی احتساب ہوا ہے؟ کیا منتخب وزیر اعظم کے علاوہ جواب دہی کے لیے کسی اور نے بھی سپریم کورٹ کے آگے سرنڈر کیا ہے؟ فاطمہ جناح کو جن مغلظات سے نوازا گیا کیا وہ اس قسم کے رویے کی مستحق تھیں؟ اب تک جو سیاستدان ملک کی تاریخ میں منظر عام پر آئے ہیں کیا وہ جینوئن سیاستدان تھے یا وقتی بندوبست کے طور پر لانچ کیے گئے تھے؟

کیا آئین پاکستان کے مطابق واقعی وزیراعظم عوام کا حقیقی نمائندہ اور سرچشمہ طاقت ہوتا ہے یا محض کٹھ پتلی ہوتا ہے؟ اس ملک میں جتنا دورانیہ جمہوریت کو نصیب ہوا ہے کیا اس دورانیے میں ایک معیاری جمہوری ڈھانچہ تشکیل پا سکتا تھا؟ سیاسی میدان میں مزاحمت کا استعارہ بننے والے باپ بیٹی ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جن پر پولیٹیکل سائنس کا ایک سٹوڈنٹ غور و فکر کر کے 1947 سے 2022 تک کے پولیٹیکل ڈھانچے کا زائچہ بنا کر ہماری حقیقی جمہوریت کا جائزہ لے سکتا ہے اور جائزہ لینے کے بعد ہم بخوبی جان پائیں گے کہ ہمارے ملک کی ننھی سی جمہوریت کے دامن پر جو داغ ہیں وہ زیادہ تر خود ساختہ یا ٹیلر میڈ ہیں اور جمہوری رہنما اپنے اوپر قائم ہونے والے مقدمات یا الزامات کا سامنا کرنے کے لیے ملکی قوانین کے آگے خود کو سرنڈر کر کے پیش کرتے آ رہے ہیں۔

ان سوالوں کو عقلی بنیادوں پر پرکھنا بہت ضروری ہے ورنہ ہم جانے انجانے میں ایک بے خبری کے مایا جال کے گرد گھومتے رہیں گے اور جمہوریت مخالف قوتیں ”مسیحا یا نجات دہندہ“ گڑھ کے ایک عقل کی حیثیت کا درجہ دے کر ہمارے سامنے یونہی لاتی رہیں گی اور ہم اسی گورکھ دھندے میں الجھ کر جمہوریت اور سیاستدانوں کو گالیاں بکتے رہیں گے۔ ہم سے جدا ہونے والا بنگلہ دیش اور ہمارا پڑوسی انڈیا جمہوری راستے پر چلتے ہوئے آج جمہوری ثمرات سمیٹنے میں مصروف عمل ہیں اور ہم سے کہیں آگے جا چکے ہیں، ان تمام حقائق کے باوجود مملکت خداداد میں عجیب تماشے چل رہے ہیں آمریت بریگیڈ بھولے بھالے عوام کو یہ چورن بیچنے میں مصروف ہیں کہ صدارتی نظام بہترین نظام حکومت ہے اور طارق جمیل جیسے مبلغ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ ایوب خان کے دور میں سب سے زیادہ ترقی ہوئی کیونکہ طاقت کا توازن ایک ہاتھ میں تھا جتنی زیادہ پاور شیئرنگ ہو گی نظام حکومت کمزور ہوتا چلا جائے گا۔

واہ ہم نے یہ دن بھی دیکھنے تھے جو طبقہ 1947 سے مذہبی تعلیمات کا مسلسل پرچار کرنے کے باوجود آٹے میں نمک کے برابر بھی عوامی رویے تبدیل کرنے میں ناکام رہا ہے وہ طبقہ ہمیں آج سیاسی گیان بانٹنے لگا ہے۔ دنیا جمہوری نظام کے ذریعے سے اپنی معیشت کو بلند ترین سطح پر لانے میں کامیاب ہو چکی ہے مگر ہمارا ذہن آج بھی مسیحائی کے گورکھ دھندے کا اسیر ہے کہ کوئی ایک مسیحا آئے گا جو ہمیں ایشین ٹائیگر بنا کر پوری دنیا کو ہمارے قدموں پر جھکا دے گا خان پروجیکٹ اسی سراب کا شاخسانہ تھا جو بری طرح سے ناکام ہوا۔

دیدہ و نادیدہ قوتیں وطن عزیز میں تجربات پر تجربات کرنے میں مصروف ہیں اور جو سیاسی رہنما بھی باؤنڈری سے باہر کھیلنے کی کوشش کرتا ہے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے اور مصنوعی رکاوٹیں پیدا کر کے سیاستدانوں کو ناکام ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور درمیان میں کوئی اور پروجیکٹ لانچ کر کے ایک اور مزید تجربہ کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ اس قسم کے کھلواڑ اور تماشے اس ملک میں جاری ہیں اسی وجہ سے ہمارا دیس ”مافیا گڑھ یا کارٹیل ہاؤس“ بن چکا ہے اور یہی مافیاز طاقتور کا ساتھ دے کر جمہوریت کو ڈی ریل کرتے رہتے ہیں۔

اب حال ہی میں چیپٹر پرویز مشرف اوپن ہوا تو نواز شریف نے ٹویٹ کر کے یہ کہتے ہوئے اس چیپٹر کو کلوز کر دیا کہ ”مشرف سے میری کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے دعائے خیریت کے علاوہ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ملک میں آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں اور حکومت کو انہیں سہولت مہیا کرنی چاہیے“ اس ٹویٹ کے بعد مبلغین آمریت عوام کو یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا راگ الاپنے والے والے سیاستدان نے خود اپنے ہاتھوں اپنا بیانیہ دفن کر دیا اور سب سیاسی پارٹیوں نے خاموشی سے مشرف کو این آ ر او دے دیا۔

اسی نیم دلانہ رضامندی کو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سینٹ میں بڑی خوبصورتی سے بیان کر کے موجودہ سیاسی بندوبست کا تیاپانچہ کر ڈالا اور عوامی ایوان میں کھڑے ہو کر پاکستانی جمہوریت کا سب ٹوٹل خلاصہ کر کے بتا دیا کہ ہم 2022 تک کتنی جمہوری طاقت کے مالک بنے ہیں اور کتنے با اختیار ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوان نمائندگان میں مشرف کے ملک سے باہر جانے اور اب دوبارہ ملک میں آنے جیسے موضوعات کو چھیڑنا محض ”فیوٹائل ایکسرسائز“ یعنی بیکار زبانیاں ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور آپ بہتر جانتے ہیں کہ اس قسم کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں مگر انصاف ہموار ہونا چاہیے۔

جی ٹی روڈ کو استعمال کر کے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد نواز شریف نے ”مجھے کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو“ کے سلوگن کے ذریعے سے بہت سے سوالات عوام کے سامنے رکھ دیے تھے اور موجودہ پس منظر میں ان کا ٹویٹ اسی سیاسی ورثے کا ترجمان ہے جس کا چلن وطن عزیز میں ہے، یا تو عمران خان کی طرح طوفان بدتمیزی اور گھیراؤ جلاؤ کے ذریعے سے باغیانہ مہم کا آغاز کر کے غیر جمہوری رویوں کو فروغ دے کر غیر سیاسی طاقتوں کو موقع فراہم کریں یا موجودہ دستیاب حالات کے اندر رہتے ہوئے پر امن طریقے سے اور ٹکراؤ سے بچتے بچاتے جمہوریت کو فروغ دینے کی کوششیں جاری رکھی جائیں۔

یہی فلسفہ جمہوریت ہے اور جمہوری کھلاڑی جن میں نواز شریف اور آصف زرداری جو صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد اس قدر میچور ہو چکے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ٹکراؤ سے بچتے ہوئے اپنے موجودہ سیاسی دائرہ کار میں رہتے ہوئے پارلیمانی روایات کو مضبوط بنانے کی جدوجہد جاری رکھی جائے۔ کیونکہ موجودہ وقت میں ملک کسی بھی قسم کے ٹکراؤ کا متحمل نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ موجودہ جمہوری پارٹیاں بشمول نواز شریف بزدلی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور مصلحتی ٹویٹ بازیاں چل رہی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ وہ جان چکے ہیں کہ اختیار حاصل کرنے کا جینوئن طریقہ کیا ہوتا ہے۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ ٹی وی اسکرین پر یا عوامی مقامات پر جمہوریت دشمن عناصر کے متعلق جو کچھ ڈسکس ہو رہا ہے کیا آج سے پہلے ممکن تھا؟ بالکل نہیں یہ کمزور سے کمزور اور مختصر قسم کی جمہوریت کا ثمر ہے سوچیں اگر بیساکھیوں کے سہارے قائم یہ کمزور جمہوری ڈھانچہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا پھر تو معجزے ہی جنم لیں گے۔ یقین مانیں جمہوریت ہی وہ بنیادی ٹچ اسٹون ہے جس کے ذریعے عوامی رہنما عوام کی عدالت میں پیش ہو کر جھکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، بچپن کی دھندلی سی یاد ذہن میں ابھی تک محفوظ ہے کہ مرحوم غلام حیدر وائیں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے تھے ایک بار ووٹ مانگنے کی غرض سے ہمارے حلقے میں تشریف لائے تو علاقائی تعمیراتی کام نہ ہونے کی وجہ سے عوام نے مرحوم کو خوب کھری کھری سنائیں، آخر میں غلام حیدر وائیں نے اپنا جوتا اتار کر سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے تسلیم کرتا ہوں سزا کے طور پر میرا سر حاضر ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت میں ہی ممکن ہے اگر اس تسلسل کو چلنے دیا جاتا ہے تو طاقتور سے طاقتور بھی آئین و قانون اور عوام کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔ جمہوریت دشمن طاقتیں اسی وجہ سے جمہوری نظام کے راستے میں روڑے اٹکانے میں مصروف رہتی ہیں کہ کہیں یہ نظام اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو جائے کیونکہ انہیں جھکنا پسند نہیں ہے بلکہ اکڑنا پسند ہے۔ یاد رکھیں جن کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں وہ کبھی بھی مکے لہرا کر اپنی طاقت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے سب ظلم و ستم برداشت کرنے کے بعد بھی انتہائی با وقار انداز سے یہی کہتے نظر آئیں گے ”ڈیموکریسی از دی بیسٹ ریوینج“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments