پشتون قوم میں قومی نظریہ کا فقدان


لفظ Nation یعنی قوم لاطینی زبان کے لفظ Natiu یا nacioun سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیدائش، لوگ، ذات یا کلاس کے ہیں۔ وسیع اور کم پیچیدہ معنوں میں یہ اصطلاح ایک ثقافتی اور تاریخی نوعیت کی ایک ایسی جماعت کی عکاسی کرتی ہے جو جو مشترکہ خصوصیات جیسے کہ زبان، تاریخ، نسل، ثقافت اور یا ایک مخصوص علاقے کے مجموعے کی بنیاد پر تشکیل دی گئی ہوں۔ اور سب سے بڑھ کر قوم ایک مشترکہ اور قومی نظریہ کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہے اور اس نظریہ کے تحت ایک قوم اپنے قومی مفادات کی تحفظ اور اس حصول کے کوشاں رہتی ہیں۔

اس تعریف کے مطابق تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پشتون ایک قوم ہیں۔ لیکن اس قوم میں ایک قوی، موثر اور قومی نظریہ کا فقدان ہے۔ ایک قوم اپنے مفادات کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد ( یہ جدوجہد کبھی کبھار ایک خونی انقلاب کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے ) کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ اس تناظر میں پشتون خطے کی سیاسی منظرنامے کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ کہ کس طرح پشتون ایک ہی جغرافیائی حدود میں مختلف سیاسی نظریات میں تقسیم ہیں۔

1: عوامی نیشنل پارٹی کا سیاسی نظریہ ایک مضبوط فیڈریشن، پشتون نیشنلزم، جمہوری اجتماعیت، عدم تشدد کی سیاست، سیکولر ازم ( یعنی مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ) لبرل ازم ( آزاد خیالی) اور ترقی پسند سیاست کا فروغ ہے۔

2: پاکستان پیپلز پارٹی۔ شیرپاؤ جس نے 2002 کی جنرل الیکشن سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اکتوبر 2012 میں پھر اس کا نام تبدیل کر کے قومی وطن پارٹی رکھ دیا گیا۔ قومی وطن پارٹی کا سیاسی نظریہ بھی پشتون نیشنلزم، سوشل ڈیموکریسی، اور اسلامی اجتماعیت ( اسلامک سوشلزم) ہے۔

3: جمیعت علمائے اسلام (ف) جس کے سپورٹرز کی اکثریت پختونخوا سے تعلق رکھتی ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا سیاسی نظریہ ملک میں ایک شرعی نظام کا قیام، اسلامی بنیاد پرستی ( اسلامک فنڈامینٹل ازم) ، مذہبی قوم پرستی، سماجی اور مذہبی قدامت پسندی کے اصول پر مبنی ہے۔

4: پختون خواہ کی حاکم جماعت پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی طاقت بھی پشتون ہے۔ کہیں بھی دھرنا دینا ہو یا احتجاج کرنا ہوں، پی ٹی آئی کے اگلے صفوں میں آپ کو پشتون ہی نظر آنے لگیں گے۔ پی ٹی آئی کا سیاسی نظریہ پاپولزم، اسلامی جمہوریت، معاشرتی انصاف کے ساتھ ساتھ سوک نیشنل ازم ہے۔

6: جماعت اسلامی بھی پشتون علاقوں میں ایک خاص اکثریت کے حامل سیاسی جماعت ہے، اس جماعت کا سیاسی نظریہ اینٹی لبرل، اینٹی کمیونزم ( اشتراکیت اور آزاد خیالی کے خلاف) ، اسلامی نشاۃ ثانیہ اور پان اسلام ازم ہے۔

ان تمام پارٹیوں کے علاوہ بھی دیگر چھوٹے چھوٹے سیاسی پارٹیاں ان پشتون علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ جیسے کہ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ جس کی سربراہی ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ کر رہے ہیں۔ اس پارٹی میں اے این پی کے سابقہ سینیٹرز اور دیگر نامی گرامی سیاستدان شامل ہیں۔ یاد رہے اس پارٹی میں اکثریت پشتون تحفظ موومنٹ سے الگ ہونے والوں کی ہیں۔

اس کے علاوہ جنوبی اضلاع اور سابقہ قبائلی علاقوں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے سپورٹرز کی ایک اچھی خاصی اکثریت موجود ہے جو کہ غیر پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ ان پارٹیوں کے علاوہ تحریک اصلاحات پاکستان اور پشتون خواہ عوامی ملی پارٹی بھی سیاسی سرگرمیوں کا حصہ رہی ہے۔

ان تمام سیاسی پارٹیوں کے سیاسی نظریات کا ذکر کرنے کا ایک ہی مقصد تھا۔ کہ ہم قوم تو ایک ہے، یعنی ہمارے رسم رواج، زبان، ثقافت تو سب کچھ ایک جیسے ہیں لیکن اگر کمی ہے تو وہ ایک مشترکہ سیاسی نظریہ کی کمی ہے۔ قوم صرف زبان، ثقافت اور رسم و رواج ایک اشتراکیت سے نہیں بنتی، قوم ایک مضبوط قومی نظریے سے ہی اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے۔ بحیثیت قوم پشتون ہم مختلف سیاسی پارٹیوں کے مختلف سیاسی و سماجی نظریات کے پیچھے بھاگتے جا رہے ہیں۔ ہمارے نظریات اسلام، قوم پرستی، اور دیگر نظریوں کی بنیاد پر تقسیم ہے۔

جب ایک قوم مختلف گروہوں میں مذہبی، سیاسی اور سماجی نظریات کی بنیاد پر تقسیم ہو جائے، جب ایک قوم شخصیت پرستی کا شکار ہو جائے۔ تو ایسی صورت میں نہ تو اس قوم کے مفادات مشترکہ رہتے ہیں اور نہ ہی اپنے مفادات کو آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

مولانا بجلی گھر صاحب فرماتے ہیں کہ پشتون ایک ہیجڑا قوم ہے، یہ سیاسی مسخرے ڈھول اٹھا کر بجانا شروع کر دیتے ہیں اور یہ سامنے ناچنے لگ جائیں گے۔

جب بھٹو کی حکومت گرانے کے خلاف مفتی محمود کی سربراہی میں پاکستان نیشنل الائنس بنی تو احتجاج کے لوگ جمع کرنے کے لئے پختون خواہ سے لوگ لائے گئے، بے نظیر کی حکومت گرانے کے لیے قاضی حسین احمد نے ہجوم جمع کرنے کے لیے پختونخوا کا رخ کیا۔ افغان جہاد کے لئے جنرل ضیاء الحق کو جنگجووں کی ضرورت پڑی، پشتونوں کو لایا گیا۔

عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جانے کے بعد پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما شہباز گل نے ایک احتجاج کے دوران پولیس والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ پختونوں کے پاس ہر گھر میں اسلحہ ہوتا ہے، آپ کا وہ حال کر دیں گے جو افغانستان میں امریکیوں کا کیا تھا۔

مختصر یہ کہ کہنے اور لکھنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ ہم پشتون مفت میں دستیاب ہیں۔ کوئی بھی ہمیں مذہب کے نام پر، سیاست کے نام پر، قوم پرستی کے نام پر جو بھی چاہے نچوا لیتا ہے۔ ان سب کی سب سے بڑی وجہ قومی نظریہ کا فقدان ہے اور ضمن میں ہماری قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی کافی حد تک ناکام دکھائی دیتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments