اداس لوگ مزید اداس کیوں؟


دیکھیں آپ اداس ہیں، کوئی آپ سے بات کرنے آتا ہے آپ اسے جھڑک دیتے ہیں، کسی نے ہمدردی کے الفاظ بولے تو آپ کو ناٹک معلوم ہونے لگا۔ کسی نے پیار سے بولا تو آپ کو منافقت لگتی ہے، کسی نے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو آپ کو جال معلوم ہوتا ہے۔ کوئی بنا بولے چلا گیا تو آپ کو سب مطلبی لگنے لگے۔ کسی نے آپ کو ہنسانے کے لیے ہنسنے کی کوشش کی تو آپ کو زخموں پر نمک چھڑکنے والا لگا۔ کوئی آپ کو دیکھ کر رونے لگا تو آپ کو ایسے معلوم ہوا جیسے آپ کو چڑا رہا ہے۔ غرض یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جس میں آپ کے اعصاب کا امتحان ہوتا ہے، آیا کہ آپ کسی چیز میں روشنی دیکھتے ہیں یا تاریکی؟

آپ کو گلاس آدھا بھرا ہوا نظر آتا ہے یا آدھا خالی؟

ایسا انسان جسے اداسی کو قتل کرنا نہ آتا ہو وہ اداسی کے بال بچوں کی ایسی افزائش دیکھے گا کہ اتنا تو جڑی بوٹیاں بھی تیزی سے نہیں اگتیں۔

اداسی کو قتل کرنے کا ایک ہی حل ہے، وہ ہے بدگمانی سے بچنا۔

اداسی کی وجہ ہمیشہ بدگمانی اور غلط فہمی ہوتی ہے۔ کبھی آپ کو اپنی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں رہتا اور آپ بدگمان ہو کر ناکامی کو دیکھنے لگتے ہیں اور اداسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کبھی آپ کسی کے بارے غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور بعد میں اسی ایک غلط فہمی کو لے کر اتنی بدگمانیاں پال لیتے ہیں کہ ان سب کے بیچ کسی مثبت خیال کا آنا ایک معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ آپ بعض اوقات معاشرے میں چند ظلم و ستم کی کہانیاں سن کر ہر موقع پر ظلم و ستم ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں اور جس چیز کی تلاش انسان شروع کردے وہ مل جاتی ہے، اس لئے آپ کو بھی فقط ظلم و ستم ہی نظر آئے گا، خوشحالی میں بھی آپ رونے والوں کو دیکھ لیں گے، چاہے وہ خوشی کے آنسو والے ہی کیوں نہ ہو، شادی پر بھی آپ کو خاموش لوگ زبردستی بلائے گئے لوگ معلوم ہوں گے جن کی خوشیاں چھن گئی ہوں۔

بعض اوقات تنہائی اور پریشانی آپ کو مثبت خیالات سے دور کر دیتی ہے، ایسے میں اپنے چاہنے والوں سے گپ شپ کرلینا آپ کو بہت سی چیزوں کا احساس دلا دیتا ہے۔ ایک چیز جو اپنے فائدے کے لیے آپ سے کرنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ آپ بس معاف کرنا اور ہر ایک کے لیے دعا کرنا سیکھ لیں، سب بہتر ہوتا معلوم ہو گا۔ مکار بندے کے لیے دعا، دغا باز کے لیے، برے کے لیے دعا، اچھے کے لیے دعا، منافق کے لیے دعا، حاسد کے لیے دعا، پیٹھ پیچھے وار کرنے کے لیے دعا، عزت کم کرنے کی کوشش کرنے والے کے لیے دعا

بس آپ یہ سوچ لیں کہ آپ ان سے زیادہ برے ہیں اور خود کو سنوارنا اور ان کے لیے دعا کرنی ہے تو آپ کو سب اچھا نظر آئے گا اور خود کو پرسکون محسوس کریں گے۔ آپ کسی اور کے لیے نہیں تو اپنے لیے ہی معاف کرنا سیکھ لیں۔ ہمیشہ ناخوشگوار واقعات کی بجائے خوشگوار چیزوں کا سوچیں یہ آپ کی جسمانی و ذہنی دونوں طرح کی صحت کے لیے مفید ثابت ہو گا۔

جب آپ کو کسی سے نفرت ہوتی محسوس ہو تو اس کی وفائیں اور اس کی مجبوریاں یاد کر لیں، جب آپ کو کوئی مجرم محسوس ہو تو بس ایک منٹ کے لیے فرض کر لیں کہ وہ مجبور بھی ہو سکتا ہے۔

آپ اپنی طرف والی کہانی کا رخ سیدھا رکھیں، اگلے کی کہانی خود بخود ٹھیک ہوتی معلوم ہوگی۔ کسی شخص نے بہت خوب صورت بات کی تھی کہ مرد کو بہت سی باتیں جان کر ان سے انجان بننا پڑتا ہے۔

ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنا پڑتا ہے تب ہی وہ خوش رہ سکتا ہے، کچھ حقائق جان کر اسے نان ری ایکیٹو ہونا پڑتا ہے، بعض اوقات کسی کا نقصان جان کر بھی خاموش ہونا پڑتا ہے کیوں کہ آپ مچھلی کو گندے پانی سے نکالنے پر مجرم ہی کہلائیں گے، بھینس کو آپ گدلے پانی میں دیکھ کر منطقی طور پر نکالنا چاہیں گے لیکن بھینس آپ سے ناراض ہو جائے گی کیوں کہ مچھلی اور بھینس کے لیے وہ وجہ زندگی بن چکی ہوتی ہے۔ ایسے ہی آپ کی بہت سی ناپسندیدہ عادات بھی کسی کے جینے کا ذریعہ بن چکی ہوتی ہے اور آپ جب خلل پیدا کرتے ہیں تو جس طرح ویو کے کرسٹ اور ٹرف پانی میں خلل پیدا کرتے ہیں اسی طرح اس شخص کی زندگی کا خلل آپ کی زندگی تک بھی سفر کرے گا اور آپ بھی متاثر ہوئے بناء نہ رہ پائیں گے۔

کچھ لوگوں کے سامنے حق سچ کی بھی نہیں چلتی، وہاں صرف خاموشی چلتی ہے۔

المختصر، اداس لوگ اس وجہ سے مزید اداس ہوتے رہتے ہیں کیوں کہ وہ اداسی کو اس کا ایندھن مہیا کرتے رہتے ہیں اور اداسی کا ایندھن ”الجھن“ ہے اور ایسی الجھن جس کا نہ کوئی جواز ہو نہ جواب۔ مثال کے طور پر زیادہ اداس رہنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو کائنات کے راز پانے میں خود کو مستغرق رکھتے ہیں، جن کے سوالات اپنی ذات کی پیچیدگیوں سے متعلق ہوتے ہیں، لاینحل قسم کے مسائل جو انسان کی بساط سے بھی پرے ہیں ان کے بارے کھوج لگاتے اذہان جو اپنے اندر طوفان لئے پھرتے ہیں جب ایسے لوگوں کو کوئی منزل میسر نہیں آتی تو مایوسی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے فرسٹ ائر انگلش کی کتاب میں ایک سبق کی ایک لائن کہنا چاہوں گا جو ڈاکٹر اپنے مریض کو کہتا ہے۔

” Don’t stuff your head with the things ,you don’t understand “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments