معاہدہ فریقین کے درمیان ہوا تھا


ہم سب کا ریاست کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ طے پایا تھا جس کے نہ ہونے کا نقصان آج تک ناقابل یقین حد تک ہوتا رہتا۔ معاہدہ فریقین کے درمیان ہوتا ہے اور اس کے کچھ گواہ اور عمل درآمد کروانے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہمارا عمرانی معاہدہ کیا واقعی ہم نے کیا تھا اس کے گواہ اور عمل کروانے والے کون ہیں؟ ہم سبھی کسی نہ کسی طرح ان کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ معاہدہ ٹوٹ جائے، منجمد ہو جائے، عضو معطل ہو کر رہ جائے یا کوئی فریق اس پر یقین اور عمل کر نا چھوڑ دے تو پھر ہم کبھی چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے کسی کھوکھلی عمارت کے جعلی پر شکوہ ہونے کے باوجود کبھی دستخط کر نے والی شخصیات کی تصاویر بھی نہ دیکھ سکیں۔

اس معاہدہ میں جو کچھ بھی پنہاں ہے اس کی عزت و تکریم اگر ہم کروانے کی کوشش نہ کریں گے تو جو اس پر اس کی موجودہ شکل پر یقین نہیں رکھتے وہ اس کو گرد سے ڈھانپ کر ناقابل عمل قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں گے۔ اس عمرانی معاہدہ جس کو دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کا نام دیا گیا تھا۔ یہ ہماری زندگی شروع ہونے کے یا پیدائش کے 26 برس بعد بے شمار خرابیوں کے جنم لینے کے بعد ہمارے سامنے رکھا گیا مگر اس کی منظوری کی سیاہی خشک ہونے سے قبل ہی ہمارے بنیادی حقوق معطل کر دیے گئے تھے، گویا بچہ صحیح سلامت پیدا ہوا مگر اس کے ہاتھ اس کی پشت پر باندھ دیے گئے۔

یہ عمرانی معاہدہ موم کی گڑیا کی ناک کی مانند تھا اس میں ترامیم نے اس کا حلیہ بگاڑا، ٹھیک ہوا، خراب ہوا، ستیاناس ہوا پھر سمجھوتہ کیا وہ جو مقننہ کا کر دار ادا کر نہ کر سکتے تھے انہوں نے بھی اپنا غیر انصافی پر مشتمل رول ادا کر دیا۔ ہتھیار تو میرے اور آپ کے ہاتھ میں نہ تھے کہ قبضہ کر کے تحریری دستخط شدہ دستاویزات کا تحفظ کر سکتے مگر زبان بھی گدی سے کھینچ لی گئی۔

خیر جو ہوا سو ہوا مگر سبق کیا ملا۔ شاید رسوائی، تباہی، ذلت، شکست، بے روز گاری، جگ ہنسائی، بین الاقوامی قرض کی بھیک، معاشی خود مختاری کا قتل عام، اپنی ہی زمین پر رہنے اور جینے کا مشروط حق، بے بسی جہالت، انصاف کا قتل عام، شرف انسانی کا ذلیل ہونا، قتل و غارت، غنڈہ گردی، دہشتگردی، غیر ملکی آقاؤں کے حضور بھیک مانگنے کی عادت میں اضافہ ہی اضافہ، موت کیوں نہ آ گئی۔ اس زندگی سے تو وہ ہی اچھی ہوتی۔ ہاں لاشے بے گور و کفن رہتے، بعض مکروہ ان کا بھی سودا کرتے، کئی خبیث ان کے ساتھ جنسی زیادتی کر گزرتے۔ بھوک تنگ، افلاس، بے سروسامانی، بیماری، جسمانی کمزوری اور وہ بھی غیرت کے نام پر اس سے زیادہ بے غیرتی کیا ہو سکتی ہے۔

جانے یہ تحریر اس طرح رہی تو کہاں نکل جائے مقصد کچھ اور ہے بکھرے بیر ابھی اکٹھے جا سکتے ہیں یہ درست ہے نہ میں آپ سے خوش ہوں نہ آپ مجھ سے مطمئن ہیں مگر ہم ہی تو جو ایک دشوار گزار وادی میں رہنے اور اس میں اپنی اپنی کمزوریوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں اور اگر ایک دوسرے کو آخر تک قتل نہ کریں گے تو سفر پھر بھی جبر کے ساتھ جاری رہے گا لیکن یوں بھی کسی وقت خوف آتا ہے زندگی میں تعریف اتنی خلیج پیدا کر چکی ہے کہ اب مزید کی گنجائش نہیں اور خدانخواستہ یہ خلیج بڑھ گئی تو خلیج بنگال سے کم نہ ہوگی وہاں بھی ایک ساتھ دیوار سے دیوار جڑے گھروں میں خلیج اس قدر بڑھ گئی تھی لاشوں کی زبان میں بات ہو رہی تھی۔ یہ غلط فہمی اور رابطہ کا قائم نہ رہنا خرابی کا آغاز کرتا ہے۔ فاصلہ بڑھتا ہے تو مفاد پرست غلط فہمی پیدا کرتے ہیں غلط فہمی نفرت کے بیج بوتی ہے اور نفرت کے بیجوں سے محبت کے پھول اگائے نہ اگتے ہیں۔

دنیا کے کامیاب، مہذب اور ترقی یافتہ ممالک بھی قانونی موشگافیوں کے باعث کسی نہ کسی کو تو رعایت مل جاتی ہوگی مگر سب کو نہیں۔ قانون پر عمل کمزور پر لازم ہو تو ریاست کھوکھلی ہو جاتی ہے اور کبھی نہ کبھی بغاوت ضرور پیدا ہوتی ہے یہ ووٹ کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے، عدم اعتماد کے ذریعہ بھی مگر خونی بغاوت کبھی کہیں نہ ہو تو بہتر ہے۔

1 اپنے ہی وطن کے علم و دانش ور صاحب رائے سے میرا سوال ہے کہ کیا پاکستان کی ریاست کے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا تھا اس کے مطابق ہمارے بنیادی حقوق سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ کیا ریاست اس وعدہ پر اپنی حکومتوں کے ذریعے قائم ہے۔

2 فرد کی سلامتی کی ضمانت دی گئی تھی، ماؤں کے جو لعل اور ہیرے کسی نہ کسی صورت، کسی کے گمراہ کر نے کی صورت میں یا مر جانے کی صورت میں کیا ریاست اس پر قائم ہے۔

3 گرفتاری اور نظر بندی کے تحفظ کا وعدہ اب بھی قائم ہے۔ کیا گرفتاری قانونی طریقہ کے ساتھ ہوتی ہے۔

4 مقدمات کی منصفانہ سماعت کا حق کیا ججوں کو بھی حاصل ہے۔ نا اہل کرپٹ غیر ملکی ارکان اسمبلی دوہری شہرت رکھنے والے ارکان کو چار سال سے کون تحفظ دے رہا ہے۔

5 دوہری سزا سے کیا نجات مل چکی ہے۔

6 شرف انسانی ارض پاک پر کہیں کسی کو نظر آتا ہے، خواتین کی بے حرمتی، زنا، اغواء، تاوان، بچوں سے زیادتی، بزرگوں کی توہین کیا کیا ضبط تحریر میں لایا جائے تاکہ شرف انسانی کی روندتی شکل نظر آئے۔

7 نقل و حرکت کیا بلوچستان میں اس کی عزت و آبرو کے ساتھ کوئی ضمانت دیتا ہے۔ قانون نافذ کر نے والے خود تو اس میں موجود نہیں۔

8 حق اجتماع ڈی سی کی اجازت تو قانونی تقاضا ہے مگر کیا یہ ممکن ہے۔
9 انجمن سازی کے بارے پرانے ریٹائرڈ افراد کا ابھی حال میں تماشا نظر آیا ہے۔

10 تجارت کا کاروبار اور پیشہ کی ضمانت مخصوص حالات میں مل جاتی ہے مگر اجارہ دار زندگی کی حرام کر دیتے ہیں۔

11 حق معلومات نہ تو پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور نہ ہی اخبار نویسوں کو عام آدمی کو کیا خاک مل رہا ہے۔
12 مذہبی، پیروی، مساجد، مزارات دیگر عبادت گاہوں کی تباہی منہ بولتا ثبوت ہے۔

13 جائیداد سے متعلق احکام ہزاروں، لاکھوں خواتین بے اثر ہوں، تعلیم یافتہ ہوں یا با اثر عدالتوں اور محتسب اداروں میں رسوا ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں۔

14 ریاست تعلیم دینے میں ناکام، بری طرح ناکام مگر تجارتی تعلیمی اداروں کو اربوں، کھربوں روپے کی زمین تو اسلام آباد میں پٹہ پر بغیر کسی قانون کے دے رکھی ہے، سرکاری زمین ہے اس لئے عدالت عالیہ بہت مصروف ہے کہ بعد میں غیر قانونی کاموں کو دیکھے گی۔

15 تمام شہری برابر اس سے بڑا کوئی فراڈ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہو ہی نہیں سکتا۔

16 بلا امتیاز ملازمت توبہ کرنی چاہیے اگر آپ کسی با اثر کی اولاد نہیں، آپ کے پاس رشوت نہیں، آپ عزت و ناموس کا جنازہ اٹھانے کو تیار نہیں۔

17 زبان، رسم الخط اور ثقافت کا حق، 66 برس کی عمر میں مجھے نہ مل سکا تو پنجابی بولنے والوں کو رسم الخط کہاں سے ملے گا۔ کون سا رسم الخط ہو گا گورمکھی، فارسی، عربی، اردو یا رومن اور پھر لغت کہاں سے آئے گی۔ امر تسر، ٹورونٹو یا لندن، بلوچی، سندھی، پشتو تو موجود رہے گی مگر لشکری زبان کی موجودگی یا غیر موجودگی میں پنجابی ختم ہو جائے گی۔

غرض بات تو تھی میرے آپ اور ریاست کے درمیان ایسے معاہدے کی جس کا مجھے روبہ عمل سے قبل علم ہی نہ تھا پھر بھی میں اس کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہوں۔ جان و مال دیتا ہوں مگر کب تک وہ غیر فریق ہر کچھ سے محروم رکھے گا جس کا سارے فسانہ میں ذکر ہی نہ تھا۔ اب نیا معاہدہ ہو نہیں سکتا پرانا چل نہیں سکتا ہاں راستہ بدلا جا سکتا ہے تاکہ کسی نئے چوک پر پھر اکٹھے ہوں وقت ضائع کیے بغیر۔

عظیم چوہدری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عظیم چوہدری

عظیم چوہدری پچھلے بیالیس سالوں سے صحافت اور سیاست میں بیک وقت مصروف عمل ہیں ان سے رابطہ ma.chaudhary@hotmail.com پر کیا جاسکتا ہے

azeem-chaudhary has 39 posts and counting.See all posts by azeem-chaudhary

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments