”عربی سے طب تک“ (6)


جنوری 1968 ء میں کالج کا ایک گروپ کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے لاہور جانے کے لئے تیار ہوا۔ مجھے بھی اس گروپ میں شامل کر لیا گیا۔ پروفیسر حنیف خواجہ ہمارے ساتھ انچارج کی حیثیت سے ساتھ جا رہے تھے۔ پروفیسر صاحب اردو کے استاد تھے، لیکن مجھے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا اعزاز حاصل نہیں تھا۔ ہمیں اردو پروفیسر عبد الواحد قریشی پڑھاتے تھے جو ان سے سینیئر تھے۔ میری پروفیسر خواجہ سے واقفیت نہیں تھی۔ انہی دنوں کالج کے مجلہ ”کہکشاں“ کے لیے تحریریں جمع کی جا رہی تھیں۔ غالباً پروفیسر صاحب اس میگزین کے مدیر اعلیٰ تھے۔ لاہور جانے سے دو دن قبل جب کہ میرا ان سے تعارف ہو چکا تھا، انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ میرا خیال تھا کہ اس ملاقات میں لاہور کے ٹور کے بارے میں کوئی بات چیت ہوگی، لیکن ان کے پاس گیا تو وہاں موضوع سخن بالکل ہی مختلف تھا۔ ان سے مندرجہ ذیل مکالمہ ہوا۔

پروفیسر حنیف خواجہ : تو آپ ہی کا نام جمیل احمد ہے؟
میں : جی یہ میرا ہی نام ہے۔

میں حیران بھی ہو رہا تھا کہ میں جو اس کالج کا گمنام، خاموش طبع اور غیر معروف سا طالب علم ہوں، پروفیسر صاحب کو یک دم مجھ سے کیا دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ دل میں کھٹکا سا بھی تھا کہ مجھ سے کوئی غلطی ہی نہ ہو گئی ہو جس پر مؤاخذہ کیا جانا مقصود ہو۔

پروفیسر حنیف خواجہ :یہ افسانہ ”لالہ زار“ جو آپ نے کہکشاں کے لیے دیا ہے اسے کیا آپ نے خود لکھا ہے؟
میں :جی ہاں میں نے خود لکھا ہے۔
پروفیسر حنیف خواجہ:کسی کتاب یا رسالے سے نقل تو نہیں کیا؟
میں :جی میں نے کہیں سے نقل نہیں کیا۔

پروفیسر حنیف خواجہ: دیکھیں تحریر کے چھپنے کے بعد اگر پتہ چلے کہ یہ کسی اور کی تحریر ہے تو بہت سبکی ہوتی ہے۔

میں : سر، آپ یہ بار بار کیوں کہتے ہیں۔ اس افسانے میں ایسی کون سی بات ہے جس سے آپ کو یہ شک ہو رہا ہے کہ یہ کسی اور کی تحریر ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی معرکہ آرا یا اردو ادب میں تہلکہ برپا کرنے والی تحریر نہیں، 15 سال کے ایک طالبعلم کی تحریر ہے۔ اسے میں نے ایک سال قبل میٹرک میں لکھا تھا۔

پروفیسر حنیف خواجہ :بھئی آپ نے جو نوجوان نسل کو مخاطب کر کے کشمیر کی آزادی کے لیے سربکف ہونے کا پیغام دیا ہے اس کا خیال اس عمر میں خال خال ہی پیدا ہوتا ہے۔

میں :سر، یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اسے کہکشاں میں شامل کرتے ہیں یا نہیں البتہ میں آپ کو یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہوں کہ یہ میری ہی تحریر ہے اس کا ایک فقرہ بھی کہیں اور سے نہیں لیا گیا۔

ان دنوں جنرل ایوب خان کی حکومت تھی۔ لوگوں کی زبانوں پر ہی تالے نہیں سوچوں پر بھی پہرے تھے۔ شاہدہ صدف، جن کا تعلق بھی منگلا سے ہی تھا، اس سال کہکشاں کی مدیرہ تھیں۔ خواجہ صاحب کے ایماء پراس افسانے کا متن مسخ کر دیا گیا۔ افسانے کی ہیروئن سے جو الفاظ کشمیری نوجوانوں کو مخاطب کر کے کہے گئے تھے ان پر سیاہی پھیر دی گئی اور یوں یہ افسانہ کہکشاں میں چھپا تو ضرور مگر بڑی مہمل اور غیر موثر سی شکل میں۔ سانپ کا زہر نکال دیا جائے تو پیچھے سانپ کا شائبہ ہی باقی رہ جاتا ہے۔ میں خاموش ہو رہا اور لکھنے لکھانے سے قدرے متنفر ہو گیا۔

فزکس کے استاد پروفیسر مشتاق سلیم تھے۔ ہنستا مسکراتا سا چہرہ، نہایت حلیم الطبع شخصیت کے مالک تھے۔ لیکچر بہت محنت سے تیار کرتے تھے۔ پڑھانے میں حد درجہ دلچسپی لیتے تھے۔ انہی کی بدولت مجھے میڈیکل کا طالب علم ہونے کے باوجود فزکس میں خاصی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ان دنوں ہمارے ہاں ابھی بجلی نہیں آئی تھی۔ منگلا ڈیم کی تعمیر میں اپنے گھر بار لٹانے اور اپنے ابا و اجداد کی قبروں کے آثار مٹانے کے باوجود، وہ لوگ جنہوں نے بے

گھر اور بے در ہونے کا کشٹ اٹھایا تھا، ان کے گھر کی دہلیز پر بجلی کا اتنا بڑا پراجیکٹ مکمل ہونے کے باوجود انہیں مٹی کا دیا ہی میسر تھا۔ البتہ یہ بات باعث اطمینان تھی کہ کسی اور کا گھر بجلی کے قمقموں سے روشن ہو گیا ہے۔ یہ ایک بے رحم حقیقت ہی نہیں قانون فطرت بھی ہے کہ وہ بے حمیت لوگ جو اپنی حالت کے سدھار کے لئے خود کچھ نہیں کرتے اور دوسرے کی طرف ملتجی نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں، ان کے حالات تو نہیں سنبھلتے، ہاں، وہ ذلت کے پاتال میں مزید گرتے چلے جاتے ہیں۔ کشمیری قوم کا یہی المیہ ہے۔

میں رات کو دیے یا لالٹین کی روشنی میں گھنٹوں فزکس کے فارمولوں میں الجھا رہتا۔ راتوں کی نیند اکثر مشکل سوالات (Numericals) حل کرنے کی نذر ہو جایا کرتی تھی۔ سردیوں میں لحاف میں لپٹ کر پڑھتا تو لحاف کی نگھ (حرارت) سے نیند کا غلبہ طاری ہوجاتا۔ نیند کو بھگانے کے لئے لحاف اتارتا تو جسم سردی سے جم جاتا۔ گرمیوں میں صحن میں میز پر لالٹین گرمی کی حدت میں اضافہ کرتی۔ میز پر پڑا پانی کا کٹورا، نیند سے نجات کے لئے، منہ پر پانی کا چھپاکا مارنے کے کام آتا۔

بیالوجی پروفیسر ارشد شیخ پڑھایا کرتے تھے۔ پروفیسر ارشد چہرے پر ہر وقت سنجیدگی اور بزرگی طاری کیے رکھتے تھے۔ انہیں کسی نے کبھی ہنستے یا مسکراتے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن اپنے مضمون میں خاصے ماہر تھے۔ بڑی توجہ سے پڑھاتے تھے۔ کیمسٹری پروفیسر نسیم پڑھاتے تھے۔ پڑھانے میں تو خاصی محنت کرتے تھے البتہ طبیعت عجیب زود رنج پائی تھی۔ آپ کی جبیں ہر وقت پر شکن رہتی تھی۔ ایک تو کیمسٹری کا مضمون ویسے ہی خشک سا تھا اس پر ان کی خشک مزاجی نے سونے پر سہاگے کا کام کر رکھا تھا۔

اس کے باوجود صاف و شفاف دل کے مالک تھے۔ پروفیسر نسیم چونکہ طلباء سے ڈانٹ ڈپٹ کے لہجے میں بات کرتے تھے اس لیے زیادہ ہردلعزیز نہیں تھے۔ ایک بار ان کے لیکچر میں محمد ایوب کو کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ کھانس کھانس کر اس نے لیکچر روم سر پر اٹھا لیا۔ پروفیسر نسیم نے دق ہو کر اسے کلاس سے نکل جانے کا حکم صادر کر دیا۔ خدا جانے کیوں مجھے پروفیسر نسیم سے چڑ سی ہو گئی تھی۔ میں یک دم اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور ان سے کہا کہ اگر ایوب کو کلاس سے نکالا گیا تو ساری کلاس باہر چلی جائے گی مجھے امید تو نہیں تھی کہ ایسے ہو گا لیکن میرے اٹھتے ہی پوری کلاس اٹھ کھڑی ہوئی اور ایوب کے پیچھے پیچھے باہر جانا شروع کر دیا۔

پروفیسر نسیم نے ایوب کو دروازے کے پاس روک لیا اور اسے اور سب طلباء کو واپس اپنی سیٹوں پر بیٹھ جانے کو کہا، یوں لیکچر کا بائیکاٹ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ایوب کی کھانسی اسی اٹھک بیٹھک میں کہیں غائب ہو گئی۔ لیکچر کے بعد پروفیسر نسیم نے کچھ سوالات حل کرنے کو دیے اور سب کی نوٹ بکس چیک کرنے لگے۔ جب میں ان کے پاس گیا تو مجھے خدشہ تھا کہ پروفیسر صاحب ناراضگی کا اظہار کریں گے لیکن وہ میرے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آئے۔

میرا نام پتہ دریافت کیا۔ چونکہ میں اس وقت خاصا صحت مند تھا اور اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا، یعنی تھا تو 16 سال کا لیکن لگتا ساڑھے سولہ سال کا تھا اس لیے پوچھنے لگے تم کالج آنے سے پہلے کیا کرتے رہے ہو؟ کیا آرمی میں تھے؟ عرض کیا سر آپ کا کیا خیال ہے کہ میں آرمی سے مفرور لگتا ہوں یا پنشن یافتہ؟ ہنس پڑے۔ کہنے لگے میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ تمہارا سٹائل اور ڈیل ڈول آرمی والوں کی طرح کا لگتا ہے۔

اسی طرح کا واقعہ 1986 ء میں بھی پیش آیا۔ میں آئرلینڈ سے کشمیر جاتے ہوئے ایک کار بھی ساتھ لیتا گیا تھا۔ کراچی کسٹم سے کار چھڑوانے گیا تو مجھے کار کا برتھ سرٹیفکیٹ پیش کرنے کو کہا گیا۔ کسٹم افسر کا خیال تھا کہ یہ کار اپنی تاریخ پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہی پیدا ہو گئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ برتھ سرٹیفکیٹ صرف انسانوں کے ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ کچھ عجلت پسند بچے وقت سے ذرا پہلے تولد ہو جاتے ہیں لیکن یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کاروں کی بھی باقاعدہ ولادت ہوتی ہے اور غالباً کچھ کاریں باعمل جراحی یعنی سیزیرین سیکشن (Caesarean Section) کے ذریعہ منصہ شہود پر آتی ہیں۔

وہ تو خدا نے کرم کیا کہ انہوں نے مڈوائف یا معالج کے کوائف نہیں مانگے وگرنہ میں انہیں کہاں تلاش کرتا پھرتا۔ الغرض کسٹم کے محکمے سے کار کی ڈلیوری (Delivery) خاصا تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ کراچی سے چلنے لگے تو ڈرائیور نے پوچھا ”صاب! آپ کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے؟“ اگر چہ پاکستان میں گاڑی چلانے کے لیے لائسنس کی نہیں مضبوط اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے مگر پھر بھی میں نے کہا ”ہے تو سہی اور لائسنس نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ لائسنس پر میری آرمی کے دنوں کی تصویر چسپاں تھی۔ ایم بی بی ایس کرنے کے جرم ناحق میں بحق سرکار آرمی کے بیگار کیمپ میں تین سال کے لیے دھر لیا گیا تھا۔ یہ تصویر انہی پر آشوب ایام اسیری کی یاد گار تھی۔ ڈرائیور لائسنس دیکھ کر چہک اٹھا۔ کہنے لگا“ صاب!

آپ تو خواہ مخواہ ڈرتا پڑا ہے، آپ کے پاس تو گیدڑ سنگھی ہے۔ پولیس کو دور بھگانے کے لیے اس سے بڑا ہتھیار اور کیا ہو گا؟ پولیس تو اس تصویر سے اتنا ڈرتی ہے کہ کوا غلیل سے کیا ڈرتا ہو گا ”۔ ڈرائیور کی پیش گوئی کے مطابق ہم اس گیدڑ سنگھی کی بدولت پولیس کے اہلکاروں کے پٹاخ پٹاخ سلیوٹ وصول کرتے ہوئے سندھ سے گزر کر پنجاب کے بارڈر تک آ پہنچے۔ وہاں موجود سنتری بادشاہ نے ہمیں روکا۔ حکم کے لہجے میں بولا“ بادشاہو! اے گڈی اتھے لا دیو ” (بادشاہو! یہ گاڑی ادھر کھڑی کر دیں) ۔ اسے میں نے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ میں نے انجان بنتے ہوئے اس سے پوچھا کہ وہ ہمیں کیوں روک رہا ہے۔ کہنے لگا“ او جی کاغذات چیک کرنے ہیں ”۔ مجھے معلوم تھا کہ اسے کون سے کاغذات سے دلچسپی ہے یعنی کورے کڑکڑاتے سرخ و سبز کاغذات سے۔ میں نے لائسنس اسے دیتے ہوئے کہا کہ پہلے اسے چیک کر لو پھر کاغذات بھی دکھا دیں گے۔ لائسنس ہاتھ میں لیتے ہی بدک پڑا جیسے اس کے اندر کوئی بچھو چھپا بیٹھا ہو۔

سنتری بادشاہ اپنے افسر، جو چند قدم پرے ایک میز پر اپنا دفتر جمائے بیٹھا تھا، کی طرف دو چار قدم چل کر واپس آ گیا۔ پوچھنے لگا صاحب آپ حاضر سروس آرمی افسر ہیں یا ریٹائرڈ۔ میں نے کہا ”اوئے الو کے چاچے کیا میں تمہیں بوڑھا نظر آتا ہوں؟“ سپاہی نے اباؤٹ ٹرن کیا اور لائسنس اپنے افسر کو جا پیش کیا۔ اس کا چہرہ بھی میرا فوٹو دیکھ کر مرجھا گیا۔ اس کے ہاتھ مجھے میز کے نیچے سے نظر آ رہے تھے۔ ان کی حرکات سے میں یہی سمجھا کہ وہ اپنے ماتحت سے کہہ رہا ہو ”ارے او نابکار تو نے انہیں کس لیے روکا ہے، یہاں سے تجھے کیا ملے گا؟ اوئے جنگلی! ذرا بندہ کبندہ دیکھ لیا کر۔ جا اور یہ لائسنس واپس کر آ“ ۔ سنتری بادشاہ منہ لٹکائے واپس آیا اور لائسنس واپس کر گیا۔

پروفیسر نسیم کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا تو انہیں اپنے عکس سے بالکل مختلف پایا۔ وہ تو سراپا شفقت تھے۔ ان کے بارے میں پہلے سے قائم کیے ہوئے تاثرات رفتہ رفتہ زائل ہونے لگے۔ ہمارے ایف ایس سی کے امتحان ہو رہے تھے۔ کیمسٹری کا پریکٹیکل تھا۔ سالٹ کے کیمیکل تجزیے کا مرحلہ درپیش تھا۔ سالٹ کو دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کیلشیئم کاربونیٹ (Calcium Carbonate) ہے اور میں نے اس کے متعلقہ ٹیسٹ شروع کر دیے تھے لیکن حفظ ماتقدم کے طور پر، پہلے تو لیبارٹری اسسٹنٹ تشریف لائے اور سالٹ کی نوعیت سے آگاہی بخشی۔

کچھ دیر بعد سردار سرفراز جو شعبہ میں ڈیمانسٹریٹر تھے (بعد میں اسی کالج میں پرنسپل مقرر ہوئے)، یہی معلومات بہم پہنچا گئے۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب پروفیسر نسیم نے بھی میرے پاس آ کر مجھ سے سالٹ کے بارے میں استفسار کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ نہ صرف یہ کہ مجھے سالٹ کی نوعیت کا علم ہے بلکہ اب تک کیے گئے کیمیائی عمل بھی کیلشیئم کاربونیٹ ہی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ پروفیسر نسیم نے میری حوصلہ افزائی کی۔

جب میں زبانی امتحان کے لیے باہر سے آئے ہوئے ممتحن کے پاس گیا تو پروفیسر نسیم نے میرے بارے میں ایسے خیالات کا اظہار کیا کہ میں خود بھی حیران رہ گیا۔ ان کے نزدیک میں سب سے محنتی اور ذہین طالب علم تھا۔ محنتی ہونے کی تہمت تو قدرے صحیح تھی البتہ ذہانت کی سند عطا کرتے ہوئے انہوں نے نہایت فیاضی برتی تھی۔ میں نے ممتحن کے سوالات کے برمحل جواب دے کر پروفیسر صاحب کی فیاضی کا بھرم رکھ لیا۔ ایک موقع پر تو حضرت ممتحن میری زبانی سوال جواب کی کارکردگی کی بنا پریکٹیکل کے اس حصہ میں جس میں میگنیشیم (Magnesium) کا ”اٹامک ویٹ“ (Atomic Weight) نکالنا تھا، سے صرف نظر کرنے پر تیار ہو گئے۔ تاہم میں نے اسے اچھا نہ جانا اور ان سے اصرار کیا کہ وہ میرا جواب دیکھ کر جائیں۔ انہوں نے میرے جواب کی پڑتال کی تو اسے درست پایا۔ پروفیسر نسیم مجھے داد و تحسین کی نظروں سے دیکھتے ہوئے بہت خوش ہو رہے تھے۔ یہ ان کی عظمت تھی۔

(جاری ہے )

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments