پتنگ


اور آخر اس نے پتنگ بنا ہی لی۔

مگر یہ بات الگ ہے کہ اس نے پتنگ بنانے میں کیا کیا قربانیاں دیں اور کیسے کیسے پاپڑ بیلے۔ جب اس کو پتنگ بنانے کا خیال آیا تو ایسا مختلف خیال کسی کو آج تک نہیں سوجھا تھا اس لیے اسے کسی بھی قسم کی مدد اور سہولت ملنے کی امید نہ تھی۔ مگر وہ اپنے ارادے کا پکا تھا اس لیے جتا رہا اور وہ گرتا پڑتا کامیاب ہو ہی گیا۔

سب سے پہلے اسے کاغذ اکٹھا کرنا تھا اور کہیں سے بھی کاغذ کی دستیابی اس کے لیے ممکن نہ تھی۔ کیوں کہ اسے ڈر تھا کہ اگر میں کسی بھی دکان سے گڈی کاغذ لینے جاؤں گا تو بات ادھر ادھر نکل جائے گی اور ممکن ہے کہ بات پھیلتے پھیلتے چودھریوں تک بھی پہنچ جائے۔ جو یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ میں یا میرا خاندان پتنگ بنائے یا بنانے کی کوشش کرے۔ کیوں کہ اس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ فضاؤں میں ہم اپنی مرضی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو کہ ہم جیسے لوگوں کو قطعی حق نہیں۔

خیر! وہ دکانوں پہ آتا جاتا رہا اور غور کرتا رہا کہ کون کون گڈی کاغذ خریدتا ہے اور کس انداز سے کاغذ مانگتا اور کس بھاؤ خرید کے لے جاتا ہے۔ کچھ دنوں کی مسلسل محنت کے بعد اسے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ مجھے کتنے روپے اکٹھے کرنے ہیں اور کس طرح کاغذ طلب کرنا ہے اور کہاں سے لینا ہے۔ اب اس کا مسئلہ تھا روپے کہاں سے اکٹھے کرے؟ مگر اس نے اس کا حل بھی نکال لیا اور محنت مزدوری میں جت گیا۔ دن بھر اسٹیشن پہ سامان اٹھاتا، زیر تعمیر عمارت میں گارا اور اینٹیں ڈھوتا اور رات کو ہوٹلوں پہ کام کرتا، کھانا دینے کے ساتھ ساتھ وہ برتن بھی مانجتا۔ اس طرح چند ہی دن کی محنت کے بعد اس کے پاس اتنے روپے آ چکے تھے کہ وہ گڈی کاغذ، بانس کے تیلے، لئی، دھاگا اور قینچی خرید سکتا تھا اور یہی ضروری سامان تھا جو کسی بھی پتنگ بنانے کے لیے چاہیے تھا۔

وہ کاغذ خریدنے دکان پہ گیا تو اس نے دکان دار کو ذرا بھی شک نہ ہونے دیا اور کاغذ خرید کر گھر کی جانب چل پڑا۔ چونکہ کام نہایت مشکل اور خفیہ طرز کا تھا لہٰذا خریدار نیا ہونے کی وجہ سے دکان دار نے اپنا ایک چیلہ جو قریب ہی بیٹھا تھا اس کے تعاقب میں بھیج دیا کہ پتا کرو ؛ یہ کون ہے اور اس نے گڈی کاغذ کیوں خریدا ہے؟ کیا یہ کوئی پتنگ بنانے کا شوقین ہے یا اس نے واقعی کوئی تحفہ تیار کرنا ہے! ؟ اس آدمی نے کچھ دن مسلسل اس کی جاسوسی کی اور سارے راز معلوم کر کے اپنے مالک دکان دار کو آ بتائے کہ وہ پتنگ بنانے کی تیاری کر رہا ہے کیوں کہ میں نے جب اس کا پیچھا کیا تو اس نے کاغذ گھر چھوڑنے کے دو دن بعد دھاگے اور قینچی والی دکان کا رخ کیا اور پھر دو دن بعد بانسوں کی دکان پہ پہنچا اور ادھر سے واپسی پر لئی بھی خریدی۔ اس سے میں سمجھ گیا کہ یہ پتنگ بنانے کی ہی تیاری کر رہا ہے۔

”ہوووں! آدمی کافی ہوشیار دکھائی دیتا ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ کام کتنا خاص ہے اسی لیے اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ میرا پیچھا بھی کیا جائے گا اسی لیے اس نے دنوں کے وقفے کے ساتھ چیزیں خریدی ہیں۔ خیر! میں اسے سنبھالتا ہوں۔ مگر کسی سے اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں، نہیں تو نئی مصیبت گلے پڑ جائے گی۔“

جاسوس نے ہاں میں جواب دیا اور اپنے کام میں جت گیا۔

وہ ایک پتنگ بنانے کا سارا سامان اکٹھا کر چکا تھا مگر اسے ابھی تک اس بات کی پریشانی تھی کہ میں یہ سارا سامان کہاں رکھوں اور کس جگہ بیٹھ کر پتنگ بنانا شروع کروں۔ کیوں کہ کام اس قدر رازداری کا اور اہم تھا کہ گھر والوں کو بتانا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ ادھر دکان دار بڑے چودھری صاحب کے ڈیرے پہنچا اور انھیں سارا ماجرا کہ سنایا۔ جس سے چودھری پہلے اس دکان دار پہ چلایا اور اس کو اچھا خاصا زد و کوب کیا۔ اس کے بعد چودھری نے باقی تمام شراکت دار چودھریوں کو فوری بلا بھیجا اور ایک میٹنگ کا انعقاد کیا۔

تمام چودھری معاملے کی تہ تک پہنچ چکے تھے کہ وہ اب پتنگ بنانے کی تیاری میں ہے اور بنانے کی ضرور کوشش کرے گا۔ مگر سب اس بات پہ متفق تھے کہ اگر یہ لوگ بھی اب اپنی پتنگ بنا لیں گے تو ہماری چودھراہٹ کہاں جائے گی اور یہ لوگ جو ہمارے اشاروں پہ ناچتے ہیں، ہمارے برابر بیٹھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کل کو فضاؤں میں اپنی پتنگ اڑائیں گے جہاں ہماری پتنگیں پہلے سے ہی اڑتی ہیں اور سارے لوگ اسی کے سحر میں مبتلا رہتے ہیں، ہمارے کارناموں پہ سر دھنتے اور ہمارے بڑے پن کے سامنے اپنی گردنیں جھکا کے رکھتے ہیں اور نگاہیں تک اٹھانے کی جسارت نہیں کرتے۔

اب یہ لوگ فضا میں اپنی پتنگ اڑا کے آسمانوں پہ نظر ڈالنا چاہتے ہیں یعنی سر کو اٹھانا چاہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا اور ایک طرف ان کو یہ خیال بھی سکون دیتا کہ پتنگ بن بھی گئی تو فضا میں اڑ نہیں سکے گی کیوں کہ فضاؤں میں ہمارا پہلے سے کنٹرول ہے۔ مگر سب چودھریوں نے متفقہ طور پر اسے اور اس کے سارے خاندان کو مٹانے کا عزم کر لیا اور اسی رات شب خوں مارا گیا۔ گھر والوں کو ڈرایا دھمکایا گیا، کچھ توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ پتنگ بنانے کا سامان اس نے گھر کے اوپر والے کمرے میں چھپا رکھا تھا جہاں کوئی جاتا نہیں تھا جو پچھلے ایک دو سالوں سے گودام بن چکا تھا۔

اسے بالکل سمجھ آ چکی تھی کہ چودھریوں کے مخبروں نے انھیں خبر کر دی ہے اور یہ آنے والی مصیبتوں کا ابتدائیہ ہے۔ صبح اس کے والد سارے ماجرے کو بیان کرنے اور ہم دردی بٹورنے بڑے چودھری صاحب کے ڈیرے پہ پہنچ گئے اور خوب مسکینی کے سے اور روہانسے منھ سے ساری داستان کہ سنائی۔ چودھری نے بھی اس مسکین کے رستے ہوئے پھوڑوں پر ہلکا پھلکا مرہم رکھ دیا اور ساتھ میں ایک تنبیہ بھی کر دی کہ اپنے گھر پہ نظر کر ہو سکتا ہے کہ یہ آفت تیرے گھر کے ہی کسی فرد کی بدولت آئی ہو۔

خدا مصیبت بغیر وجہ کے نہیں بھیجتا کیوں کہ وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ مگر جب بندہ اس کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ مصیبت دے کر آزماتا ہے اور مکمل برباد کرنے سے پہلے تنبیہ کرتا ہے۔ اگر تم نے اپنے گھر پہ نظر نہ کی اور اس غلط شخص کی غلطی کو نہ پکڑا تو یقیناً خدا تجھے مٹا دے گا۔ آگے تمھاری مرضی ہے۔ میری کوئی مدد چاہیے یا کوئی مددگار تو بلا جھجھک بتا دینا۔ آخر میں تمھارے کام نہیں آؤں گا تو کون آئے گا۔

باپ کو اب دن رات بے چینی کی وجہ سے نیند نہیں آتی تھی اور یہ حالت اسے بھی معلوم تھی کہ ابا کیوں اتنے پریشان ہیں اور آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ مگر اس نے چپکے سے پتنگ بنانی شروع کر دی اور سب سے چھپ کر کبھی دن کی کڑکتی دھوپ میں اکیلا چھت پہ بیٹھا یہ کام کرتا رہتا تو کبھی رات کو اٹھ کر آہستہ آہستہ چھت پہ جاتا اور کام میں لگ جاتا۔ باپ جسے پہلے ہی پریشانی نے آن گھیرا تھا وہ ایک رات کروٹیں بدل رہا تھا کہ اس نے اپنے بیٹے کو چوروں کی طرح چھت پہ جاتا ہوا دیکھ لیا اور پھر اس کا پیچھا کیا۔

بیٹا چھت پہ پہنچ کر سامان نکال کر قینچی کی مدد سے بانس کے تیلے کاٹنے ہی لگا تھا کہ باپ سر پہ آ کھڑا ہوا اور چھوٹتے ہی کہا: کیا کر رہے ہو تم اور یہ سامان کس چیز کا ہے؟ بیٹا سہم گیا اور اچانک اس ہلے کے بولے جانے کا اسے قطعی اندازہ نہیں تھا۔ اس لیے وہ ٹھٹھکا اور سہمے ہوئے ہی بڑبڑانے لگا۔ مگر والد نے پھر سخت و کرخت لہجے میں پوچھا تو بیٹے نے آواز نیچی کرنے کا کہا۔ مگر بات مخبر تک پہنچ چکی تھی جو خبر لے کر ڈیرے کی طرف چل پڑا۔

وہ باپ کو سمجھانے کے لیے چھت سے نیچے لے آیا اور کمرے میں بیٹھ کر انھیں سمجھانا چاہا مگر باپ سمجھنے کی طرف نہیں آ رہا تھا اور بار بار اس بات پہ اصرار کر رہا تھا کہ تمھیں آخر پتنگ بنانے کی کیا ضرورت ہے، کیا ہم لوگ اس کے بغیر زندہ نہیں یا زندگی میں ہماری کوئی مسئلہ درپیش ہے؟ اس نے باپ کو کئی ایک مسائل گنوائے اور مستقبل میں ہونے والے فائدے بھی بتائے جو باپ کی سمجھ میں تو نہیں آئے مگر کمرے سے باہر صحن میں کھڑی بہن کی سمجھ میں آ گئے۔

وہ کھڑکی سے بولی: ابا جان! آپ دروازہ کھولیے میں آپ کو سمجھاتی ہوں کہ بھائی جان کیا کہ رہے ہیں۔ بیٹی نے باپ کو بتایا کہ اس زمانے میں جینے کے لیے دوسروں پہ انحصار کرنے والے لوگ ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور اپنے فن، ہنر اور تعلیم سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ یہ تو بہت اچھا ہوا کہ آپ کو پتا چل گیا وگرنہ یہ بھائی کے بس کی بات نہیں کہ وہ اتنا بڑا کارنامہ اکیلے ہی سرانجام دے سکیں۔ ہمیں بھائی کی مدد کرنی ہو گی اور ہر مصیبت سے بچانا بھی ہو گا۔

بہن کی بات سن کر اس نے کہا: میں تو پریشان تھا کہ اتنا بڑا کام کیسے کر سکوں گا حالانکہ یہ ہمارے بڑوں کا فریضہ تھا جو انھوں نے نہیں نبھایا تو آج ہمیں کرنا پڑ رہا ہے اور اگر ہم یہ کام نہیں کریں گے تو ہماری نسلوں کو ذلت اور شرمندگی کی زندگی گزارنی پڑے گی کسی ایک نسل کو تو یہ جنگ لڑنی ہی ہے، ہمارے بڑے نہیں تو ہم ہی سہی۔

باپ نے ساری بات سن کر ان دونوں کو چودھریوں کے عتاب سے ڈرایا اور مدتوں سے بنی اپنی اور اپنے اسلاف کی عزت کے بچانے کا واسطہ دیا اور کہا کہ اس کام سے باز آ جاؤ نہیں تو سارے چودھری مل کر ہمیں دنیا میں اکیلا کر دیں گے اور ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔

اس نے کہا کہ میں اب ارادہ کر چکا ہوں اور اب پتنگ بنا کر ہی دم لوں گا۔ باپ اسی روایتی لکیر کو پیٹ رہا تھا مگر بیٹا اپنی الگ ڈگر بنا چکا تھا اور اب اس پہ چلنے کے لیے پر تول رہا تھا۔ بہن نے بھی بھائی کا ساتھ دینے کی ہامی بھر لی اور کہا کہ میں ہر مشکل میں بھائی کا ساتھ دوں گی اور پتنگ بننے تک کسی بھی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ بہن نے بھائی سے اپنے اگلے اقدام کا پوچھا تو اس نے کہا: سب سے پہلے ہمیں اپنی پتنگ کا سامان اپنے گھر سے کہیں اور شفٹ کر نا ہے کیوں کہ اب چودھریوں کو خبر مل چکی ہو گی کہ پتنگ بنانے کا سامان ہمارے گھر میں موجود ہے۔ ماں صحن میں کھڑی کھڑکی سے جھانک کر جاننے کی کوشش کر رہی تھی، شاید اس نے ساری باتیں نہیں سنی تھیں۔

اس نے بہن کی مدد سے اسی کی سہیلی کی طرف سارا سامان رات و رات شفٹ کیا اور کسی کو کان و کان خبر نہ ہونے دی۔ صبح ہوئی تو ناشتے سے قبل پولیس گھر آ گئی اور سارے گھر کی تلاشی کے احکام صادر ہو گئے اور خصوصاً اوپر والے گودام کی ہر چیز باہر نکال کر تلاشی لی گئی۔ مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اس نے پولیس انسپکٹر سے پوچھا کہ آپ یوں صبح صبح ہمارے گھر کی تلاشی کیوں لینے آ پہنچے ہیں ہم نے کیا کیا ہے؟ تو انسپکٹر نے درشت لہجے میں کہا کہ ناجائز سامان گھر میں رکھو گے تو پولیس ہی آئے گی نا کوئی فرشتے تھوڑی آئیں گے۔ باپ جو پاس ہی سہما اور خاموش کھڑا تھا اس سے انسپکٹر نے کہا کہ اپنے بیٹے کو سمجھاؤ کہ آگ سے مت کھیلے جل جائے گا اور بڑی آگ تو انسان نہیں، انسانوں کو جلا دیتی ہے۔ بیٹی گھر میں جوان ہے (بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے ) اس کا تو خیال کرو۔ جیلوں کے چکر کاٹے گی تو معاشرے کی کمر اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔

اسی دن چودھری نے خود اس کے باپ کو ڈیرے میں بلا لیا۔ اس کو سمجھایا کہ دیکھو! تمھارا بیٹا جو کام کر رہا ہے وہ غیر قانونی ہے اور اس سے کئی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ تمھیں معلوم ہی ہے کہ پتنگ بازی سے کتنی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور پتنگ سازی پہ کتنا روپیہ ضائع ہوتا ہے اور یہ بھی تمھیں معلوم ہی ہے کہ یہ سب غیر مذہبیوں کا کام ہے اور تم تو نیک اور پارسا آدمی ہے۔ نماز پڑھو، روزہ رکھو، زکات دو ، حج کرو۔ اگر حج کے لیے پیسے نہیں تو مجھ سے لے لو۔

میں اگلے ہی ہفتے تم دونوں میاں بیوی کو عمرے پہ بھیج دیتا ہوں۔ کہو تو میں ایک دو نئی مسجدیں بھی بنوا دیتا ہوں جہاں کے والی وارث تم بن جاؤ۔ تمھاری باقاعدہ تنخواہ بھی مقرر کر دیتا ہوں۔ تم نے اور تمھاری بیوی نے بڑی نیک اور خوبصورت زندگی گزاری ہے آخری عمر بھی ذکر اذکار کرتے گزارو اور خدا کے حضور سرخرو ہو کے جاؤ۔ بس ان جھمیلوں میں نہ پڑو یہ پتنگ بازی اور پتنگ سازی یہ سب دنیا کا مال ہے اور دنیا داری خدا سے دور کرتی ہے۔ من کی صفائی پیدا کرو ظاہری دکھاوا اور ملمع کاری سے جان چھڑواؤ۔ اپنے بیٹے کو بھی سمجھاؤ اور اسے ان کاموں سے دور رہنے کی تلقین کرو۔ اگر وہ کہتا ہے تو میں اسے کسی اچھی یونیورسٹی میں داخل کروا دیتا ہوں جہاں فیس بھی نہیں دینی پڑے گی۔ وہ بالکل فری پڑھے گا، وہ کیا کہتے ہیں اسکالرشپ پہ۔

اس کا باپ یہ سب غور سے سنتا اور جی جی کی تکرار کرتا ہوا اثبات میں سر ہلاتا رہا۔ چودھری پھر اسے سمجھاتا ہے کہ دیکھو! تم ایک سمجھدار اور دانا آدمی ہو۔ میں تمھارے بھلے کے لیے ہی کہ رہا ہوں اور اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے۔ بھلا اس میں میرا کیا فائدہ! میں تو بس تمھارے بزرگوں کی پرانی خدمت گزاری کو سامنے رکھتے ہوئے کہ رہا ہوں تاکہ تم پر کوئی مصیبت نہ آ جائے اور یہ میں تم پہ کوئی احسان نہیں کر رہا بلکہ یہ میرا فرض بھی ہے۔ آخر تم لوگ کئی پشتوں سے ہمارے خاندان کے ملازم اور خدمت گزار ہو۔ تمھاری خدمت گزاری پر تو غلامی کو بھی رشک آتا ہو گا۔

پھر جی حضوری کی تکرار۔ ہاں ہاں! ٹھیک ہے اب تم جاؤ اور جاتے ہوئے کچھ اناج، پھل اور سبزیاں لیتے جانا۔ اور ہاں سنو! مجھے یاد آیا کہ میں نے جو تمھارے خاندان سے قرضہ لینا ہے اس کی بھی دو قسطیں معاف کر رہا ہوں، ٹھیک ہے؟ اب تم سارا سال آرام سے کھا پی سکتے ہو۔ اگلے سال دیکھیں گے اور اگر تمھارا بیٹا اس کام سے باز آ گیا تو مزید کچھ عنایات ہو سکتی ہیں۔ ٹھیک ہے؟

جی جی چودھری صاحب جیسے آپ چاہیں۔ اب میں چلتا ہوں۔ شکریہ مہربانی۔

باپ گھر آیا تو کافی پریشان لگ رہا تھا۔ ماں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو بتایا کہ ہم بہت بڑی مشکل میں پھنس چکے ہیں اور اس سب کی وجہ ہمارا اپنا بیٹا ہے۔ اب دیکھو کہ کیا ہوتا ہے شام کو گھر آتا ہے تو اسے سمجھاتے ہیں کہ بیٹا جو کام تو کر رہا ہے اس سے رک جا، باز آ جا اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ اور یہی کچھ چودھری نے مجھے بتایا اور سمجھایا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے بزرگوں کی خدمت کے صلے میں وہ ہمیں چوکنا کر رہے ہیں اور ہر ممکن مدد کا بھی کہ رہے ہیں۔ پتا نہیں ہمارے بیٹے کو کیا ہو گیا ہے اور اب افسوس کہ ہماری بیٹی بھی اس کے ساتھ مل گئی ہے۔

شام کو وہ گھر آیا تو باپ نے آتے ہی حملہ کر دیا اور سختی سے اسے پتنگ بنانے سے رکنے کا کہا اور ماں نے بھی پتنگ بنانے اور اس جھمیلے میں پڑنے سے باز رہنے کا کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں اب پتنگ بنا کر ہی رہوں گا۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ مگر باپ نے بار بار اسے سمجھانے اور باز رہنے کا کہا اور آئندہ آنے والی مشکلات سے بھی آگاہ کرنا چاہا اور یہ بھی کہا کہ تمھاری بہن جوان ہے اسی کا کچھ سوچ لو۔ تو یہ سن کر بہن کہنے لگی:ابو جی!

بھائی فقط میرا ہی نہیں بلکہ مجھ ایسی کئی ایک بہنوں کا سوچ رہا ہے۔ آگے سے باپ بولا: تم دونوں کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ چودھری کچھ بھی کر سکتا ہے اور ہم سب کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے مگر تم ہو کہ مانتے ہی نہیں اس نے کسی بھی طرح کی سہولت اور مدد کی یقین دہانی کروائی ہے اور کہا ہے کہ دونوں بہن بھائی جس یونیورسٹی میں کہیں گے میں وہاں داخل کروا دوں گا اور فیس بھی نہیں ہو گی۔ ہمارے خاندانی قرض بھی معاف کیے جائیں گے اور ہمیں زمین وغیرہ بھی عطا کی جائے گی۔

مگر ان سب کے ملنے کی امید صرف اور صرف تمھارا اس پتنگ سازی کے کام سے پیچھے ہٹنا ہے۔ تو بہن نے ابو کو جواب دیا کہ ابو وہ اتنا کچھ ہمیں کیوں دے رہے ہیں آخر کوئی تو ایسی وجہ ہو گی جو وہ ہمیں یہ سب دینے کو تیار ہیں، ذرا سوچیں آپ بھی۔ تو آگے سے باپ کہنے لگا؛بیٹی تم یہ بات مان لو اور پتنگ وتنگ والا کام ٹھپ کرو اور آرام سے جیو اور ہمیں بھی اب اس عمر میں ذلیل نہ کر واؤ۔

دونوں بہن بھائیوں نے ماں باپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور مل کر پروگرام بنایا کہ کیسے اس پتنگ کو جلد از جلد مکمل کرنا ہے اور کیا تدبیر اپنانی ہے کہ دشمنوں کو بھی چکما دیا جا سکے۔ اس لیے آج سے ہی کام شروع کر دیا گیا۔ بہن رات گئے چھت پر چلی جاتی اور اسی گودام میں کسی کام میں لگ جاتی اور بھائی باہر جہاں پتنگ کا سامان رکھا تھا وہاں چلا جاتا۔ اسی طرح کئی دن گزر گئے اور چودھریوں کے مخبروں نے انھیں خبر دی کہ بھائی شاید والدین سے ناراض ہے جو شام ہوتے ہی گھر سے نکل جاتا ہے مگر بہن مسلسل رات گئے پتنگ بنانے میں مصروف نظر آتی ہے۔

چودھریوں نے کئی ایک بدمعاشوں کا انتظام کیا اور ایک رات اس لڑکی پر حملہ کروا دیا جس سے رات کے پچھلے پہر ان بدمعاشوں اور لڑکی کے مابین لڑائی ہوئی اور لڑکی ہاتھا پائی میں ماری گئی اور شور سن کر والدین چھت کی طرف بھاگے تو وہاں ان کی بیٹی کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی۔ والدین قریب پہنچے تو لڑکی کے منھ سے صرف ایک ہی لفظ نکلا ”قربانی“ ۔

وہ بیٹی کی لاش کو لے کر گھر سے باہر آ گئے اور چیخ پکار کے ساتھ ساتھ آہوں سسکیوں سے سارا آسمان بھر گیا۔ صبح پولیس آئی اور ہمدردی میں چودھری بھی آ گئے، رونا دھونا ہوا۔ بھائی بھی دن چڑھے پہنچا۔ بہن کو دفنانے کے دو دن بعد بھائی نے باپ سے کہا کہ آپ کو چودھری نے دھمکایا تھا آپ قانون کو اپنا بیان ریکارڈ کیوں نہیں کرواتے۔ تو ڈرے سہمے باپ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور چودھری کے عذاب سے اسے پھر خبردار کیا اور کہا کہ یہاں صدیوں سے ایسے ہی چلتا آیا ہے اور ایسے ہی چلتا جائے گا کوئی تبدیلی کا خواہاں نہیں اور نہ ہی کوئی بدلاؤ لانے دے گا۔ میرے بیٹے چھوڑ دے پتنگ بنانے کی ضد۔ میری بیٹی بے چاری بے گناہ ماری گئی اور وہ یوں ہی روتا رہا اور بیوی نے اسے دلاسا دیا۔

وہیں ہجوم میں لوگوں کے درمیان ایک آدمی بیٹھا باپ بیٹے کی گفتگو پہ کان دھرے تھا جس نے جھٹ سے جا چودھری کو بتایا کہ اس کا باپ اب بھی خطرہ ہے اور اسے معلوم ہے کہ اس کا بیٹا اب بھی پتنگ بنانے میں مصروف ہے۔ بیٹی کا ابھی کفن بھی میلا نہ ہوا تھا کہ چودھری نے اس کے باپ کو اٹھوا لیا۔ پہلے اس سے نرمی سے پوچھتا رہا کہ تمھارا بیٹا پتنگ کا سامان کہاں لے گیا ہے، مگر نہ بتانے پر مختلف طریقوں سے اسے تکلیف دینے لگا۔ وہ بوڑھا تو پہلے ہی تھا کہاں تک تکلیفیں سہ سکتا تھا، بس جلد ہی راہی ملک عدم ہوا۔ مگر کوڑوں کے لگنے کی آواز میں اس کی آواز دب نہ سکی کہ میرا بیٹا ضرور کامیاب ہو گا، میرا بیٹا ضرور کامیاب ہو گا اور آخری لفظ جو اس کی بھی زبان سے نکلا وہ بھی ”قربانی“ تھا۔

اس کے باپ کی لاش اور موت کو راز رکھا گیا کہ کہیں معاشرے میں اشتعال نہ پھیل جائے۔ مگر کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکا کہ اس کا باپ کہاں گیا اور کیوں گیا۔ بلکہ چودھریوں نے ہر طرف یہ مشہور کروا دیا کہ بہن بھائی کا آپس میں ناجائز رشتہ تھا اور اسی بدنامی سے بچنے کے لیے بہن نے خود کشی کر لی اور باپ روپوش ہو گیا۔ مگر بھائی اتنا بے شرم اور بے حیا ہے کہ ابھی بھی اپنے گھر آتا اور ڈھٹائی سے یہاں رہتا ہے۔ محلوں والوں کی طرف سے دھتکار اور ہائے ہائے شروع ہو گئی جس وجہ سے بھائی کا گھر آنا بند ہو گیا اور ماں نے خود کو گھر میں بند کر لیا۔ اسی صدمے میں گھٹ گھٹ کر ماں بھی چل بسی۔

اسے یہ سب معلوم ہوا مگر وہ ماں کو کندھا دینے بھی نہ آ سکا۔ اسے ڈر تھا کہ مجھے بھی چودھری مروا نہ دے۔ وہ اپنی بہن کی سہیلی کے گھر ہی قید ہو کر رہ گیا اور وہیں دن رات پتنگ بنانے میں مشغول تھا کہ اس سہیلی کے بھائی نے چودھری کو خبر کر دی کہ وہ لڑکا ہمارے ہی گھر میں پتنگ بنا رہا ہے۔ ہمیں کچھ نہ کہا جائے کیوں کہ ہم بے قصور ہیں اور اس جرم میں ملوث نہیں۔ سہیلی کے گھر فوراً ہی پولیس نے ریڈ کر دی مگر وہ پتنگ بنا کر لے جا چکا تھا۔

باقی بچا ہوا سامان تو انھیں مل گیا مگر وہ لڑکا اور پتنگ نہ پکڑ سکے۔ چودھری جانتا تھا اس لیے اس نے فوری میونسپلٹی کے دفتر کی طرف پولیس اور اپنے بدمعاشوں کو بھگایا کیوں کہ پتنگ کی رجسٹریشن اسی دفتر میں ہونی تھی۔ اگر ایک دفعہ رجسٹریشن ہو گئی تو کوئی بھی اس پتنگ کو تباہ یا ختم نہیں کر سکتا تھا چاہے وہ اس کا مالک ہی کیوں نہ ہو۔ مگر چودھری کے لوگ اور پولیس والے وہاں پہنچے تو میونسپلٹی کے افسر نے اس لڑکے کو پکڑ رکھا تھا۔

چودھری کو وہاں بلایا گیا اور عزت سے بٹھا کر لڑکا ان کے حوالے کیا اور افسر نے کہا:
”چودھری صاحب! ہم بھلا نمک حرامی کر سکتے ہیں؟“
چودھری نے لات پہ لات رکھی اور مونچھوں کو تاؤ دیا۔

عثمان غنی رعد
Latest posts by عثمان غنی رعد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments