’پاکستان میں چائے کی کاشت کے کئی منصوبے شروع تو ہوئے مگر ناکام رہے‘

محمد زبیر خان - صحافی


’میں نے سنہ 2000 میں بہت شوق اور جذبے کے ساتھ آٹھ کنال اراضی پر چائے کاشت کی تھی۔ اس پر بہت محنت صرف ہوئی تھی اور کافی اخراجات بھی۔ مگر 2005 میں مجبوری کے عالم میں کاشت لیے بغیر ہی اپنے کھیت سے چائے کے باغ کو ختم کرنا پڑا۔‘

’اور ایسا صرف میرے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ میرے کھیتوں کے ساتھ لگ بھگ پندرہ مزید کاشتکاروں نے چائے کاشت کی تھی مگر ان کے ہاتھ بھی ناکامی کے سوا کچھ نہ آیا۔‘

یہ کہنا ہے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے علاقے شنکیاری کے رہائشی محمد اختر نعیم کا جو کہ ترقی پسند کاشتکار اور مصنف ہونے کے علاوہ چائے کی کاشت سے متعلقہ اُمور کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔

وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے گذشتہ دونوں سوشل میڈیا پر پاکستانی عوام سے اپیل کی تھی کہ ’وہ چائے کی درآمدات پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کے ذخائر بچانے کے لیے دن میں ایک کپ چائے کم پینا شروع کر دیں‘ جس پر سوشل میڈیا پر بحث کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

پاکستان کے سرکاری اور چائے کے کاروبار سے منسلک اداروں کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً دو کھرب روپے کی چائے قانونی طور پر درآمد کی جاتی ہے جبکہ محتاط اندازوں کے مطابق قانونی طور پر درآمد ہونے والے چائے کے علاوہ لگ بھگ ایک کھرب کی چائے پاکستان میں غیر قانونی طور پر لائی جا رہی ہے۔

پاکستانی چائے چھوڑ پینا کم کر سکتے ہیں یا نہیں، اس بارے میں مختلف آرا ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اب چائے پاکستان میں ایک ثقافت اور زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہے۔ شام کو دوستوں کی محفل ہو، مہمانوں کی مہمان نوازی یا صبح کا ناشتہ اس میں چائے لازمی جزو ہے۔

چائے کم کر کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچایا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ اس بحث کو سوشل میڈیا تک ہی چھوڑتے ہیں۔ یہاں پر ہم جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کو چائے درآمد کیوں کرنا پڑتی ہے اور یہ ملک اب تک چائے کی کاشت کے قابل کیوں نہیں ہو سکا۔

محمد اختر نعیم دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں چائے کی کاشت بالکل ممکن ہے اور اس کے کامیاب تجربے بھی ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ چائے کی کاشت کا کامیاب تجربہ نیشنل ٹی ریسرچ انسٹیئیوٹ شنکیاری، جو کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں واقع ہے، نے بفہ نامی علاقے میں کیا گیا تھا۔

پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں چائے کی کامیاب کاشت

محمد اختر نعیم کہتے ہیں کہ اُن کی معلومات کی حد تک ’ہمارے علاقے بلکہ پاکستان میں چائے کی کامیاب کاشت کے تجربے علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت اور مرحوم رستم خان ایڈووکیٹ نے پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں کیے تھے۔ رستم خان ایڈووکیٹ علاقے کے ایک بڑے زمیندار ہونے کے علاوہ اپنی زمینوں پر نئی فصلیں کاشت کرنے کے تجربے کرتے رہتے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’برطانوی ڈاکٹر برابنٹ چائے کی کاشت کے ماہر تھے۔ وہ اس وقت کے قائم کردہ پاکستان ٹی بورڈ کی معاونت کر رہے تھے۔ انھوں نے 1958-59 میں رستم خان ایڈووکیٹ کے ساتھ مل کر اس وقت کے مغربی پاکستان میں چائے کی کاشت کے کامیاب تجربات کیے تھے۔ ڈاکٹر برابنٹ نے کئی مرتبہ رستم خان ایڈووکیٹ کے پاس پاکستان دورے کیے تھے۔‘

’دنیا کی بہترین چائے پی ہے‘

محمد اختر نعیم بتاتے ہیں کہ ’ایک مرتبہ رستم خان ایڈووکیٹ کے پاس اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے خوراک جان سی فلپس آئے تھے۔ میں بھی اس وقت موجود تھا۔ رستم خان نے ان کو اپنے باغات کا دورہ کروایا اور پھر اپنے گھر میں مقامی طریقے سے تیار کی ہوئی پتی کی چائے پیش کی تھی۔ چائے پی کر جان سی فلپس نے کہا کہ میں دنیا کی بہترین چائے پی رہا ہوں۔‘

رستم خان کے صاحبزادے ریٹائرڈ وفاقی ایڈیشنل سیکریٹری ڈاکٹر خورشید خان، جو کہ فارسٹری اور ماحولیات کے ماہر ہیں، نے اپنی سری لنکا میں تعیناتی کے چھ سال کے دوران چائے کے باغات میں خصوصی دلچسپی لے کر تربیت حاصل کر رکھی ہے۔

’آپ کو مہنگائی کرنی ہے کریں، عوام کو مشورے نہ دیں‘

ڈیڑھ صدی پر پھیلی چائے کی کہانی

اک گرم چائے کی پیالی ہو! چائے کے متعلق دس دلچسپ حقائق

ڈاکٹر خورشید بتاتے ہیں کہ انھیں ان کے والد نے بتایا تھا کہ انھوں نے چائے کے باغات ایک بڑے رقبے پر لگائے تھے، یہ کوئی دو، اڑھائی سو کنال رقبہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کام میں پچاس کی دہائی کے پاکسٹان ٹی بورڈ نے تعاون کیا تھا۔ ’ون یونٹ بند ہونے کے بعد بنگلہ دیش کی ٹیم واپس چلی گئی تھی۔ کاشت اچھی ہو گئی تھی، مگر اب مسائل شروع ہو چکے تھے۔‘

’جس پر والد نے تنگ آ کر ساٹھ کی دہائی کے آخر میں تمباکو کاشت کرنا شروع کر دیا تھا۔ صرف ایک دو کنال پر چائے چھوڑ دی تھی۔ جس کو وہ اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرتے تھے۔‘

ڈاکٹر خورشید خان کا کہنا تھا کہ میرے والد ایک ترقی پسند کاشت کار تھے۔ 70 کی دہائی میں ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر چار ایکٹر پر پرانے تخم سے چائے کی کاشت کا آغاز کیا تھا مگر اس پر بھی کام کچھ اتنا زیادہ نہیں ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بعد میں جب جنرل (ر) فضل حق صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر تھے تو انھوں نے مانسہرہ میں اس سلسلے میں ایک بڑا تحقیقاتی مرکز قائم کیا جس میں چین سے ماہرین پاکستان آئے اور انھوں نے چار سال تک چائے کی کاشت وغیرہ میں مدد فراہم کی تھی۔

محمد اختر نعیم کہتے ہیں کہ ’چین کے ماہرین جب پاکستان آئے اور انھوں نے لوگوں کو تربیت دینا شروع کی تو اس وقت حکومت نے کسی مواقع پر ان ماہرین سے کہا کہ رپورٹ دیں کہ کیا پاکستان چائے کاشت ہو سکتی ہے کہ نہیں؟ تو ان ماہرین نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہاں پر تو چائے لگی ہوئی ہے، اب اس بارے میں ہم کیا رپورٹ دیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے اس کو آگے بڑھایا جائے۔‘

محمد اختر نعیم کہتے ہیں کہ ’ایسی ہی بات مجھے ترکی سے آنے والے ماہرین نے 2019 میں بھی کی تھی جن کے ساتھ میں مترجم کی حیثیت سے کام کر رہا تھا کہ پاکستان میں چائے کی کاشت کے بہت مواقع دستیاب ہیں۔‘

چائے کی کاشت کے مواقع اور کوالٹی

نیشنل ٹی ریسرچ سینٹر شنکیاری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق چائے کی کاشت کے لیے تیزابی زمین، کم از کم سالانہ بارش 40 انچ اور ایسی ڈھلوانی زمین چاہیے ہوتی ہے جہاں پر پانی کھڑا نہ ہوتا ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ نہری پانی سے بھی استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ’چائے کا ایک پودا اس وقت ہمارے پاس 43 سے پچاس روپے میں تیار ہو رہا ہے اور پودے کی تیاری میں چار سے پانچ سال کا عرصہ لگتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ فی ایکڑ اراضی پر اس وقت ایک لاکھ روپے سالانہ تک اخراجات آتے ہیں۔ تاہم پانچ سال بعد جب چائے کی فصل کا آغاز ہو جاتا ہے تو آئندہ دو سے چار سال میں زمین تمام اخرجات کاشت کار کو واپس لوٹا دیتی ہے جس کے بعد 120 سال سے 200 سال تک انتہاہی کم اخراجات پر چائے کا باغ فصل دیتا رہتا ہے۔

ڈاکٹر عبدالوحید نے بتایا کہ ان کے ادارے نے کچھ عرصہ قبل سروے کیے تھے جن کے مطابق پاکستانی علاقوں مانسہرہ، بٹگرام، ایبٹ آباد، سوات، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، مری کے مختلف علاقوں میں ایک لاکھ 58 ہزار ایکڑ علاقہ ایسا موجود ہے جہاں پر چائے کی کاشت ممکنہ طور پر کامیاب ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ادارے کے اندازے کے مطابق اگر اس سارے رقبے پر چائے کی کاشت کر دی جائے تو اس وقت ہم اپنی چائے کی درآمد کا 45 سے 50 فیصد تک حاصل کر سکتے ہیں۔

نعیم اختر کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک پاکستان میں صرف 700 سے 800 ایکٹر پر کاشت کاروں نے چائے کاشت کی ہوئی ہے، مگر کاشت کاروں کو اتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑا کہ ان میں سے کئی ایک نے اپنی جان چھڑانے کے لیے پہلی فصل کے بعد ہی چائے اپنی کھیتوں میں سے ختم کر دی تھی۔

’نہ ہی پیسے ملتے نہ ہی سہولتیں تھیں‘

ڈاکٹر عبد الوحید کے مطابق ابتدائی طور پر چائے کی کاشت کے لیے 1200 ایکڑ رقبے کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا۔ اس منصوبے میں بین الاقوامی کمپنی بھی شامل تھی۔ تاہم 2005 کے زلزلہ اور بعدازں سیلاب کے باعث اس میں تبدیلیاں آئیں۔ انسٹیٹیوٹ سے باہر کمرشل بنیادوں پر چائے کی کاشت کے لیے کسانوں کی مدد بھی لی گی اور کسانوں کی 700سے 800 ایکڑ اراضی پر پودے لگا کر دیے گئے تاہم کاشت کاروں کی مختلف وجوہات کی بنا پر عدم دلچسپی پیدا ہوئی اور کامیابی نہیں ہوئی۔

محمد اختر نعیم کہتے ہیں کہ 2001 میں پاکستان میں چائے کی پراسسنگ کے لیے ایک مینوئیل پلانٹ لگایا گیا تھا اور اس کے علاوہ نجی کمپنی یونی لیور کا پلانٹ بھی موجود تھا۔ یونی لیور نے پلانٹ حکومت سے ایک معاہدے کے تحت لگایا تھا جس میں یونی لیور چائے کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرنے کی پابند تھی جبکہ اس کے بدلے میں اس کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کاشتکاروں کو فصلوں کے مناسب پیسے نہیں مل رہے تھے اور کافی عرصے تک یہ تنازع چلتا رہا جس پر تنگ آ کر کئی کاشت کاروں نے فیصلہ کیا کہ ان کی زمینیں نہری علاقے میں واقع ہیں جہاں پر سال میں دو یا تین مختلف فصلیں حاصل کی جا سکتیں تو چھ سال تک وہ چائے کی پہلی فصل کا انتظار کیوں کریں جس کے دام بھی مناسب نہ ملیں۔‘

ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق چند سال پہلے تک ایک مناسب رقبے پر چائے کاشت تھی مگر ہمارا پہلا پلانٹ 2001 میں لگا تھا۔ وہ پلانٹ بھی آٹو میٹک نہ تھا جس کی وجہ سے کسانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اب اس وقت ہمارے پاس ترکی سے تحفے میں آیا ہوا جدید پلانٹ موجود ہے مگر اب چائے کی کاشت کا رقبہ کم ہے۔ تاہم ہمارے پاس اس وقت دنیا کی بہترین گرین ٹی تیار کی جا رہی ہے جس کا پلانٹ 2005 میں لگایا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان کی تیار کردہ گرین ٹی جاپان سمیت دیگر ممالک میں سالانہ چودہ سے پندرہ ٹن ایکسپورٹ ہو رہی ہے اور دنیا میں بہت پسند کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر عبدالوحید کا کہنا تھا کہ اگر ہماری تیارہ کردہ گرین ٹی کے مقدار میں اضافہ کیا جائے تو دنیا بھر میں اس کے کئی اور گاہگ مل سکتے ہیں۔

’غیرسنجیدہ رویہ‘

محمد نعیم اختر کہتے ہیں کہ اصل میں ہمارا غیر سنجیدہ رویہ ہر چیز میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ 2018 میں ترکی سے جدید ترین پلانٹ تحفے کے طور پر ملا تھا۔ اس وقت اس کی مالیت پندرہ کروڑ روپے تھی مگر بدقسمتی سے یہ چھ ماہ تک کسٹم مسائل کی وجہ سے پورٹ پر پڑا رہا تھا۔

مستقبل کا منصوبہ

ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق اب اس وقت بمشکل 40 سے 46 ایکڑ زمین پر چائے موجود ہے۔جبکہ 120ایکڑ چائے پرائیوٹ طور پر یونی لیور برادرز کا ادارہ کاشت کر رہا ہے۔ حکومت نے ہماری تجویز پر ابتدائی طور پر سابق وزیر اعظم کے پودے لگانے کے پروگرام کے تحت اس منصوبے کو توسیع دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ چائے کا پودہ چونکہ جنگل کا درخت بھی ہے اور زمینی کٹاؤ کو روکنے کے لیے بھی موضوع ترین ہے چنانچہ موجودہ حکومت اب 25 ہزار ایکڑ فاریسٹ لینڈ پر چائے کی کاشت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جس کے لیے فاریسٹ کی زمین کا انتخاب سب سے بہتر ہے کیونکہ کسانوں کی زمین پر کاشت کا تجربہ پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے۔

محمد اختر نعیم اور ڈاکٹر خورشید خان اس بات کے حامی ہیں کہ دوبارہ ایک توسیعی منصوبہ شروع کیا جانا چاہیے جس کے لیے ٹی بورڈ قائم کرنے کے علاوہ مناسب قانون سازی ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر خورشید خان کے مطابق چین اور دنیا کے کئی ممالک پاکستان میں چائے کی کاشت کو توسیع دینے کے لیے کافی سنجیدہ ہیں اور اس میں مواقع دیکھ رہے ہیں۔ ‘کچھ عرصہ قبل سی پیک کے ایک پروگرام جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ میں شنکیاری چائے کی کاشت میں معاونت کرنے والے چائنیز گروپ کے سربراہ،گورنر خیبر پختو نخوا، اس وقت کے چیئرمین سی پیک اٹھارٹی عاصم سلیم باجوہ، بھی شامل تھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ایک لمبی بحث ہوئی کیونکہ چائنیز کا کہنا تھا چائے کے لیے یہ ایریا انتہاہی مناسب ہے، اس کو سی پپک میں شامل کر کے اس پر کام شروع ہونا چاہے کچھ روز بعد اس پر دوسری مرتبہ پھر بات چیت ہونا تھی تاہم داسو دھماکے بعد اس پر مزید بات اب تک نہیں ہو سکی۔‘

ڈاکٹر خورشید خان کہتے ہیں کہ میں نے وزارت پلاننگ میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ وزارت پلاننگ نے پاکستان کی ترقی اور لازمی ضرورت کی جن اجناس کا ذکر ہے اور جن کو ترقی دی جاسکتی ہے اس میں چائے کے حوالے سے بھی مکمل منصوبہ بندی موجود ہے ’اگر احسن اقبال وہ منصوبہ بندی دیکھ لیں تو ان کو یقینی طور پر مایوسی نہیں ہو گئی۔‘

ایکٹیرہ کا موقف سرکاری اداروں کے برعکس

ایکٹیرہ یونی لیور کمپنی کا ایک ڈویثرن ہے جو چائے کے شعبے میں کام کرتا ہے۔ اس ادارے کی رائے سرکاری اداروں اور مقامی لوگوں کے برعکس ہے۔

ایکٹیرہ کے مطابق باوجود کوشش کے ابھی تک وہ شنکیاری میں اچھے معیار کی چائے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

ایکٹیرہ کے مطابق وہ بحثیت کمپنی ہر ایک کے لیے ترقی کے مواقع پیدا کرنے چاہتے ہیں اور اس کے لیے مواقع پیدا کرتے بھی ہیں۔

ایکٹیرہ کے مطابق ’چند دہائیوں سے مقامی کاشت کاروں کے ساتھ مل کر ہمارا اشتراک عمل جاری ہے۔ جس میں اچھی کوالٹی کی چائے پیدا کرنے کی انتھک کوشش کی جا رہی ہے مگر اس کے لیے چند موسمی اور جعرافیائی شرائط لازمی ہیں۔‘

’اس کے لیے درجہ حرارت کا 21 سے لے کر 29 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہونا چاہیے۔ بارش کی زیادہ سے زیادہ حد 150سینٹی میٹر سے لے کر 250 سینٹی میٹر تک ہونا چاہیے جبکہ ہوا میں نمی کا تناسب 70 سے نوے فیصد ہونا چاہیے۔‘

ایکٹیرہ کے مطابق دریائے سرن کے کنارے ہزارہ ڈویثرن کے علاقے شنکیاری، جو کہ سطح سمندر سے بارہ سو میٹر کی بلندی پر واقع ہے، کا درجہ حرارت تین سے لے کر تیس ڈگری تک ہوتا ہے۔

ایکٹیرہ کے مطابق یہاں پر کم سے کم بارش ہوتی ہے۔ جن وجوہات کی بنا پر یہ علاقہ اچھی چائے کی پیدوار کے لیے مناسب نہیں ہے۔

ایکٹیرہ کے مطابق ’اگرچہ ہم اچھی چائے کی کوالٹی حاصل نہیں کر پائے۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک طویل سفر ہے۔ ہم چائے کے معیار کو بہتر بنانے اور طویل مدت میں اس پراڈکٹ کو قابل قبول بنانے کے لیے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔‘

چائے سے متعلق اعداد و شمار

چائے کے کاروبار سے منسلک ماہرین اور نیشنل ٹی ریسرچ سینٹر شنکیاری کے مطابق سالانہ ہر پاکستانی ایک کلو چائے استعمال کرتا ہے۔

پاکستان کے سرکاری اور چائے کے کاروبار سے منسلک اداروں کے مطابق پاکستان میں 2018 کی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے جو زیادہ چائے استمعال کرتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2007 سے لے کر 2016 تک چائے کے استعمال میں تقریباً 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان 172,911 ٹن چائے استعمال کرتے ہیں اور 2027 تک یہ بڑھ کر 250,755 ٹن تک پہنچ سکتا ہے۔

مالی سال 2021-22 میں سرکاری بجٹ دستاویزات کے مطابق پاکستان میں تقریباً 84 ارب روپے کی چائے استعمال ہوئی ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں یہ حجم تیرہ ارب روپے زیادہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments