افسانہ: کچے رشتے


رات دو بجے کا وقت تھا۔ میں اپنے دکھوں اور تکلیفوں سے سمجھوتا کر کے گہری نیند سو رہا تھا۔ اچانک دروازے پر زور زور سے دستک ہوتی ہے۔ ارے یار یہ آدھی رات کو کون آ گیا۔ میں نے آنکھیں ملتے دروازہ کھولا لیکن حیرت کی بات تھی کے دروازے پر کوئی نہ تھا۔ اماں نے آواز دی ارے ناظم کون ہے دروازے پر میں نے بات کو ٹال دیا اور نیند کا مارا دوبارہ بستر سے لپٹ گیا۔ رات کو یہی بات سوچتے سوچتے میں سو گیا کے آخر دستک کس نے دی اگر کوئی انسان تھا تو وہ گیا کدھر کیا کوئی بھوت پریت ارے نہیں نہیں یہ سب کچھ صرف باتیں ہیں یہی سب سوچتے سوچتے مجھے نیند آ گئی اور میں پھر سے سو گیا۔

میں نے خواب دیکھا کے ایک آدمی ہلکی شال اوڑھے آ کر مجھے گلے ملتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔ میں پیچھے سے اسے آواز دے رہا ہوں۔ اتنے میں اماں نے آواز دی ارے ناظم اٹھ جاؤ آج ابا کو حکیم کے پاس بھی لے کر جانا ہے۔ میں آنکھیں ملتا اٹھا ہاتھ منہ دھونے کے بعد ناشتہ کرتے اماں کو رات کی ساری بات بتائی۔ اور پھر وہ خواب بھی۔ اماں پریشان سی ہو گئیں۔ خیر میں ابا کو حکیم کے پاس لے گیا۔ واپسی پر میں نے ابا کو گھر چھوڑا اور کسی کام سے دوبارہ بازار کے لیے نکل گیا۔

بازار میں مجھے چچا امتیاز ملے۔ جو رشتے میں میرے ابا کے کزن لگتے تھے۔ میں نے چچا کو رات کا خواب بتایا۔ چچا نے مجھے ایک ایسی بات بتائی جس سے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ میں فوراً اٹھا اور گھر کی طرف نکل پڑا امتیاز چچا آواز دیتے رہے ارے ناظم میاں چائے تو پیتے جاؤ لیکن میں نے ان کی بات پر توجہ نہ دی اور گھر کے لیے نکل آیا۔ گھر پہنچ کر میں نے اماں کو آواز دی دوپہر کا وقت تھا۔ جولائی کی دھوپ اپنا اثر دیکھا رہی تھی۔

ابا کھانا کھا کر آرام کر رہے تھے۔ اماں نے کھانا دیا تب میں نے اماں سے وہ بات پوچھ ہی لی جس کا مجھے امتیاز چچا نے بتایا تھا۔ اماں کیا آپ نے کبھی مجھ سے جھوٹ بولا ہے؟ اماں مجھے بہت عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔ میں نے کہا اماں کیا آپ نے میرے کسی بھائی کو گھر سے نکالا تھا۔ اماں کے ہاتھ سے پانی کا گلاس زمین پر گر گیا اور ابا بھی شور سن کر باہر آ گے۔ میری برداشت اب جواب دے چکی تھی میں جاننا چاہ رہا تھا کے کیا سچ میں میرا کوئی بھائی تھا۔

کیا سچ میں ابا نے اسے گھر سے نکال دیا تھا۔ اگر ایسا تھا تو پھر کیوں بہت سارے سوال میرے دماغ میں گردش کر رہے تھے اور میں نے وہی سوال ابا سے بھی پوچھ لیا۔ اب برسوں کی خاموشی ٹوٹ چکی تھی اور اماں ابا کی آنکھوں میں آنسوں تھے آخر ابا نے بتایا کے آج سے 25 برس پہلے جب گھر کے حالات ٹھیک نہیں تھے تب میرے بھائی جن کا نام امجد تھا۔ ایک ٹائروں کے پنکچر لگانے والی دکان پر کام کرتے اور گھر کا خرچہ چلاتے تھے۔ ایک شام بھائی گھر آئے اور معمولی تلخ کلامی پر ابا نے انہیں گھر سے نکلنے کی دھمکی دی یہ بات سنتے بھائی نے اپنے کپڑے ایک شاپر میں ڈالے اور گھر سے نکل پڑے وہ دن اور آج کا دن بھائی کی کوئی خبر نہیں ابا کے آنسوں داڑھی سے نیچے زمین پر گر رہے تھے۔

دوسرے دن چچا امتیاز سے پھر ملاقات ہوئی اور انہوں نے بتایا کے تمہارا بھائی فلاں افسر کے بنگلے پر چوکیدار کی نوکری کرتا تھا۔ میں اٹھا اور اس بنگلے پر پہنچ گیا۔ جیسے تیسے میں نے لوگوں سے معلومات جمع کی اور بھائی کے گھر کا پتہ لگا لیا۔ میں نے اماں ابا کو بتایا اماں ابا بہت خوش تھے اور صبح میں بھائی کے گھر جانے والا تھا۔ رات ساری وقت دیکھنے میں گزر گئی۔ صبح ہوئی تو میں نے ناشتہ کیا اور اماں سے اجازت لے کر بھائی کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

جو دوسرے شہر میں تھا تقریباً 6 گھنٹے سفر کے بعد آخر میں اس شہر میں پہنچ چکا تھا۔ میں نے ایک ٹیکسی والے کو گھر کے پتے کی پرچی پکڑائی اور اس کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ جب میں بھائی کے گھر پہنچا تو وہاں پر منظر کچھ یوں تھا۔ بھائی کی بیوی پھٹی پرانی چادر اوڑھے روٹی بنا رہی تھی۔ میرے گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے سلام کیا۔ اس کی آنکھیں گہرے دکھ چھپائے بیٹھی تھی۔ میں نے اسے ساری بات بتائی اور بھائی کا پوچھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

اور اس نے بتایا کے بھائی شادی کے پہلے دن سے ہی بہت چڑچڑے سے تھے۔ وہ ہر وقت سگریٹ پیتے رہتے اور بس مجھے بولتے شمائلہ بیگم تم میرا خیال رکھا کرو میرا تمہارے سوا کوئی نہیں۔ اور جب میں ان کے اماں ابا کے بارے میں کوئی بات کرتی تو وہ مجھے خاموش کروا دیتے اور پھر اداسی میں گم ہو جایا کرتے۔ وقت گزرتا گیا اور ان کی طبیعت شدید خراب ہو گئی وہ اپنا ذہنی توازن مکمل کھو بیٹھے تھے کچھ وقت بعد ڈاکٹروں نے ادویات دے کر گھر بھیج دیا لیکن وہ گھر سے باہر چلے جاتے اور اونچی اونچی آواز میں کہتے لوگو میرے ابا کو بولنا مجھے معاف کر دیں شمائلہ بیگم تم نے میری بہت خدمت کی ہے تم جنتی عورت ہو۔

رات کو اٹھ کر لوگوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹانا اور آوازیں لگانا ابا میں ہوں آپ کا بیٹا امجد ابا دروازہ کھولیں۔ پھر ایک دن جب میں انہیں ہسپتال لے گئی تو نہ جانے کیسے وہ چپکے سے دروازے سے باہر نکلے اور ایک لاری پر سوار ہو گے یہی آواز لگاتے ابا مجھے معاف کریں میں پیچھے بھاگی لیکن لاری کی رفتار مجھ سے بہت زیادہ تھی میں نے خود کو بے بس پایا بہت ڈھونڈا لیکن ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ آپ گھر جا رہے ہیں ابا کو بولیے گا ان کو معاف کر دیں۔ یہ سب باتیں سننے کے بعد میری زبان بولنے کی سکت کھو بیٹھی تھی اور میں دل ہی دل میں خود کو کوس رہا تھا کے کاش اس رات میں دروازہ کھولنے کے بعد باہر نکل کر اردگرد دیکھ لیتا کاش!

منظر لطیف
Latest posts by منظر لطیف (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments