الوداع کشمیر کے بزدار۔ قیوم نیازی


1970 کی دہائی سے ریاست آزاد جموں و کشمیر میں جمہوری نظام کا دور دورہ شروع ہوا اور 1970 میں پہلی مرتبہ ریاست میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ 1970 سے لے کر 2021 کے انتخابات تک جو بھی جماعت حکومت بناتی اس کے صدر کو ہی وزیر اعظم آزاد کشمیر منتخب کیا جاتا۔

مگر 2021 کے انتخابات سے قبل ہی ماحول ایسا بن چکا تھا کہ ایک بات طے تھی کہ اگر پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر اقتدار میں آتی ہے تو شاید روایت سے ہٹ کر کوئی نیا بندہ وزیراعظم بن جائے۔ 2016 کے انتخابات میں بری طرح ہارنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے لیے 2021 کا الیکشن نسبتاً آسان الیکشن تھا کیونکہ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم تھی۔ 2008 سے پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد یہی دیکھنے میں آیا کہ جو جماعت وفاق میں ہوتی ہے اسی کی حکومت آزاد کشمیر میں بھی بنتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کو دوسری جماعتوں سے زیادہ خطرات اپنی جماعت کی اندر کی گروپ بندیوں سے تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم (پاکستان مسلم لیگ نون آزاد کشمیر) راجہ فاروق حیدر خان کھلم کھلا جلسے جلوسوں میں کہا کرتے تھے کہ ”تحریک انصاف آزاد کشمیر وہ مریض ہے جو اپنی موت کا سبب خود بنے گا“ ۔ سب کو یقین تھا کہ وفاق میں حکومت ہونے کی وجہ سے آزاد کشمیر میں بھی پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر حکومت بنا لے گی پر سب کے تحفظات تھے تو اس بات پر کہ کتنی نشستیں حاصل کریں گے؟ وزیراعظم کون بنے گا؟

وزیر اعظم کی دوڑ میں پہلے تو صدر پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر ( 2021 سے قبل ) بیرسٹر سلطان محمود چوہدری مضبوط امیدوار تھے مگر سردار تنویر الیاس کی آزاد کشمیر کی سیاست میں انٹری کے بعد پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے دو گروپ بن گے۔ ایک گروپ کے پاس سرمایہ جب کہ دوسرے کے پاس دہائیوں کا سیاسی تجربہ تھا۔ آخر 2021 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر کی 53 میں سے 32 نشستیں حاصل کر لیں۔

سب کی نظریں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب مرکوز تھیں کہ وہ وزیر اعظم کے لیے کس کا نام تجویز کریں گے۔ سردار تنویر الیاس اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری میں مقابلہ تھا، سردار تنویر الیاس اس بات کا کریڈٹ لیتے تھے کہ ان کی آزاد کشمیر میں انٹری سے قبل پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کی صرف دو نشستیں تھیں جو کہ اب 32 ہو چکی ہیں جبکہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا ماننا تھا کہ اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا ہونا ہے۔

اس سب کے درمیان ایک خبر چلی جس کو قومی میڈیا نے بھی کوریج دی کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے کچھ ممبران قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر کو وزیر اعظم ہاؤس پاکستان میں طلب کیا اور ان کے انٹرویو کیے۔ یہ ریاست جموں و کشمیر میں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے منعقدہ انٹرویو تھے۔ ڈاکٹر نثار انصر ابدالی، خواجہ فاروق احمد، سردار تنویر الیاس، سردار عبد القیوم نیازی ان ممبران میں سے تھے جن کے انٹرویو کیے گئے۔ ان انٹرویوز کی خبر کے بعد جس نام کو سب سے زیادہ مضبوط سمجھا گیا وہ خواجہ فاروق احمد صاحب کا تھا جو کہ 1975 سے ریاست کی سیاست میں ہیں اور سابق وزیر حکومت بھی رے چکے تھے

خبریں یہ بھی تھیں کہ عمران خان صاحب پنجاب کی طرح آزاد کشمیر میں بھی کسی بزدار کے متلاشی ہیں۔ آخرکار وزیر اعظم کے انتخاب والے دن، انتخاب سے 2 گھنٹے پہلے اس وقت کے وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور متوقع وزیر اعظم آزاد کشمیر کے نام کا قرعہ کے کر مظفرآباد پہنچے۔ جب وزیراعظم آزاد کشمیر کے لیے سردار عبد القیوم نیازی صاحب کا نام سامنے آیا تو سب ہی حیران تھے، حتی کہ سردار عبد القیوم نیازی صاحب نے وزیر اعظم بننے کے بعد پہلے خطاب میں کہا کہ مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ مجھے وزیر اعظم آزاد کشمیر بنایا جا رہا ہے۔

ان کے بقول ان کو حلف برداری کی تقریب کے لیے کپڑے بھی کسی نے لا کر دیے۔ یوں غیر معمولی فیصلے کرنے میں مشہور، عمران خان صاحب نے کشمیری قوم کو بھی ”سرپرائز“ دے دیا۔ پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے ممبران قانون ساز اسمبلی کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے عمران خان کے اس فیصلے کو قبول کرتے ہوئے سردار عبد القیوم نیازی کے حق میں ووٹ دیا پر ساتھ عندیہ بھی دیا کہ سیاست ٹیسٹ میچ کی طرح ہے ابھی بہت کچھ ہو گا۔ دوسری جانب سردار تنویر الیاس نے اس فیصلے کو اس لیے مان لیا کہ وہ کسی صورت بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو وزیر اعظم آزاد کشمیر نہیں بننے دینا چاہتے تھے۔ یوں بیرسٹر اور سردار تنویر الیاس کی لڑائی میں سردار عبد القیوم نیازی وزیر اعظم آزاد کشمیر بن گئے۔

سردار تنویر الیاس نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے ذریعے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو صدر ریاست بنوا کر پارلیمانی سیاست سے باہر کروا دیا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے صدر ریاست منتخب ہونے کے بعد سردار تنویر الیاس کو کھلا میدان مل گیا۔ سردار تنویر الیاس نے اپنے گروپ کے ساتھ ( 9 یا 12 ممبران قانون ساز اسمبلی) مل کر کھلم کھلا سردار عبد القیوم نیازی کی مخالفت شروع کی اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس ہو یا قانون ساز اسمبلی کے اجلاس، غیر حاضری کو ترجیح دینا شروع کی۔ مگر ایک بات طے تھی کہ جب تک وفاق میں عمران خان وزیراعظم ہیں، سردار عبد القیوم نیازی ہی وزیر اعظم آزاد کشمیر رہیں گے۔ پاکستان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی بعد ، اس بات کا قوی امکان تھا کہ متحدہ اپوزیشن آزاد کشمیر میں بھی عدم اعتماد لائے گی۔

اس سے پہلے کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک جمع کرواتی، پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے 27 ممبران قانون ساز اسمبلی نے خود ہی اپنے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی درخواست جمع کروا دی۔

تحریک عدم اعتماد کی درخواست میں سردار تنویر الیاس کو نیا وزیراعظم ( آزاد کشمیر کے آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی درخواست میں ہی نئے قائد ایوان کی نامزدگی بھی کرنا ہوتی ہے ) آزاد کشمیر بنانے پر 27 ممبران قانون ساز اسمبلی کے دستخط موجود تھے۔

سردار تنویر الیاس گروپ کا یہ موقف تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کے خطرے کی وجہ سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی منشا و حکم کے مطابق تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے جب کہ سردار عبد القیوم نیازی نے بحیثیت وزیر اعظم اپنی آخری پریس کانفرنس میں برملا یہ کہا کہ پیسے دے کر ممبران قانون ساز اسمبلی کو ان کے خلاف خریدا گیا اور یہ عدم اعتماد خالصتاً سردار تنویر الیاس کو وزیر اعظم بنانے کے لیے لائی گئی ہے۔ سردار عبد القیوم نیازی نے قانون ساز اسمبلی میں بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ایک سابق وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور نے مجھے دھمکی دی ہے کہ سردار تنویر الیاس کو ووٹ دیں ورنہ آپ کی حکومت ایک دن یا تین دن میں ختم کر سکتا ہوں۔

سردار حسن ابراہیم (جموں و کشمیر پیپلز پارٹی آزاد کشمیر ) نے کہا کہ سابق وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ عمران خان کا پاکستان نہیں جہاں وہ جو مرضی آئے سیاسی فیصلے کرتے پھریں، بلکہ یہ سردار ابراہیم خان، سردار عبد القیوم خان، خورشید حسن خورشید کا کشمیر ہے یہاں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر و سابق صدر پاکستان مسلم لیگ نون آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر صاحب نے اسمبلی کے فلور پر کہا کہ یہ تحریک عدم اعتماد لوگوں کے ضمیر خرید کر لائی گئی ہے اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان، سردار تنویر الیاس کو جہانگیر ترین و علیم خان کے متبادل کے طور پر اپنا انویسٹر دیکھ رہے ہیں۔

تحریک عدم اعتماد کے ردعمل کے طور پر اس وقت کے وزیر اعظم سردار عبد القیوم نیازی نے پانچ وزراء حکومت بشمول سردار تنویر الیاس کو اپنی کابینہ سے فارغ کیا جبکہ سردار تنویر الیاس نے بحیثیت صدر پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر، سردار عبد القیوم نیازی کی پارٹی رکنیت معطل کر دی۔

نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے دن، متحدہ اپوزیشن نے اسمبلی سیشن کا بائیکاٹ کیا۔ یوں سردار تنویر الیاس 33 ووٹ لے کر چودھویں وزیراعظم آزاد ریاست جموں و کشمیر منتخب ہو گئے۔ اس میں حیران کن 33 واں ووٹ، سابق وزیر اعظم سردار عبد القیوم نیازی کا تھا جن کو سردار تنویر الیاس نے انتخاب سے ایک روز قبل منا ہی لیا تھا۔

سردار تنویر الیاس کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آزاد کشمیر کی سیاست 2006 والے دور میں واپس چلی گئی ہے۔ یاد رہے کہ 2006 سے 2011 والے دور میں آزاد کشمیر میں چار وزرائے اعظم آئے تھے اور تین مرتبہ تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی

اب دیکھنا یہ ہے کہ سردار تنویر الیاس کس طرح پارٹی کو اور حکومت کو سنبھالتے ہیں اور کب تک سنبھالتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments