خودکشی: جدید مسائل کے قدیم حل کیسے ممکن ہیں


گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر غور و فکر کے لئے منعقد کیے گئے غذر یوتھ گرینڈ مرکہ آن مینٹل ہیلتھ کے کامیاب انعقاد پر یوتھ کے دوستوں کو مبارک دیتے ہوئے میں ان چند خرافات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو غذر کی خودکشیوں سے متعلق ہمیں اکثر معاشرے میں سننے کو ملتے ہیں۔ ایک تو یہ کہا جاتا ہے کہ خودکشیاں صرف غذر میں ہوتی ہیں۔ یہ بات سراسر غلط ہے خودکشیاں صرف غذر میں ہی نہیں ہوتیں ہیں بلکہ گلگت بلتستان کی پولیس کے ریکارڈ کے مطابق پورے گلگت بلتستان میں خودکشیاں ہوتی ہیں مگر یہ سب رپورٹ نہیں ہوتی ہیں۔

گزشتہ سال پورے جی بی سے 29 خودکشیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 19 غذر سے اور دس دیگر اضلاع سے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ غذر سے یہ واقعات رپورٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ نہ کہا جائے کہ صرف غذر میں خودکشیاں ہوتی ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ غذر سے رپورٹ زیادہ ہوتی ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں ایسے واقعات چھپائے جاتے ہیں۔ 2000 سے پہلے غذر سے بھی خودکشیاں رپورٹ نہیں ہوتی تھیں۔ حالانکہ خودکشیاں انسانی معاشروں میں تب سے ہوتی ہیں جب سے انسان دنیا میں آباد ہے۔ قتل اور خودکشی روز اول سے شانہ بشانہ ہیں۔ قتل دوسرے کو مارنے کا نام ہے اور خودکشی اپنے آپ کو مارنے کا نام ہے جو کہ قتل کی نسبت زیادہ مشکل کام ہے۔

دوسرا یہ کہ کہا جاتا ہے کہ خودکشیاں ایک مخصوص فرقے میں ہوتی ہیں۔ یہ بالکل غلط تاثر ہے کیونکہ پولیس ریکارڈ کے مطابق گلگت بلتستان میں بسنے والے ہر فرقے کے لوگ خودکشی کرتے ہیں تاہم کہیں کم اور کہیں زیادہ رپورٹ ہوتی ہیں۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ پورے پاکستان میں سالانہ دس ہزار سے زائد لوگ خودکشی کرتے ہیں وہ سب کسی خاص فرقے کے نہیں بلکہ تمام مسلم فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے کسی مسلم معاشرے میں خودکشیاں نہیں ہوتی۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا کے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک میں یکساں خودکشیاں ہوتی ہیں۔ تاہم زیادہ تر خودکشیاں غریب اور ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہیں۔ اسی طرح امیر ممالک میں بھی خودکشیاں ہوتی ہیں۔ سالانہ پوری دنیا میں دس لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ میں ایک فرد خودکشی کرتا ہے۔ ہر بیس سیکنڈ میں ایک فرد خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔ اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے بتاتے ہیں کہ 2030 تک یہ نمبر دوگنا ہو گا یعنی تب سالانہ بیس لاکھ لوگ خودکشی کریں گے کیونکہ سالانہ دنیا میں خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

خودکشیوں کا عمل گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے ایک نیاء سماجی مسئلہ ہے۔ اس لئے یہ لوگ اس مسئلہ کو سائنسی بنیادوں پر سمجھے بغیر اس پر روایتی طرز فکر کے ساتھ اپنی رائے دیتے ہیں۔ ہر وہ شخص اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہے جس نے اس موضوع کو سمجھنے کے لئے ایک تحقیقی کتاب پڑھنا تو دور کی بات ایک پیراگراف بھی نہیں پڑھا ہے۔ اس لئے جو بھی شخص بولتا ہے وہ اپنے دماغ میں جو بھی بات فوری طور پر آتی ہے یا جتنا اس کا علم ہے اس کو سامنے لاتا ہے۔ ایسے ہزاروں خرافات ہیں جو روز سوشل میڈیا یا پرائیویٹ میڈیا میں آتے ہیں جن کا بنیادی طور پر خودکشی کے موضوع سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔

یہ ایک پیچیدہ انسانی سماجی مسئلہ ہے جس پر دنیا میں ہزاروں لوگوں نے سیر حاصل تحقیقی مقالے اور کتابیں لکھی ہیں مگر اس کا حل پوری طرح کہیں بھی نہیں نکالا جا سکا ہے۔ تاہم کچھ معاشروں نے اس کی شرح پر قابو پایا ہے۔ کچھ چھوٹی آبادیاں اس پر خاطر خواہ قابو پانے میں اس لئے کامیاب ہوئی ہیں کیونکہ وہاں آبادی چھوٹی تھی۔ مگر بڑی آبادیوں میں یہ مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے۔

ہمارے معاشرے میں خودکشیوں کے علاج کے لئے کیا کیا خرافات بتائے جاتے ہیں وہ حیران کن اور تشویشناک ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہ سائنسی معاشرہ نہیں ہے بلکہ ایک قدامت پسند روایتی معاشرہ ہے۔ یہ معاشرہ جدید بننے کی تگ و دو میں ہے مگر بن نہیں سکا ہے کیونکہ جدید علوم کا یہاں فقدان ہے۔ یہاں جو بھی مسئلہ اٹھتا ہے ہم اس پر ردعمل دینے سے لے کر اس کا علاج اور حل تک اپنے روایتی طریقوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ ہمارے ہاں پہلی دفعہ کورونا کا سنا گیا تو لوگوں نے اس پر اپنی روایتی سوچ کا اظہار کیا مگر جب یہ عروج پر پہنچ گیا تو سب ڈر کے گھروں میں بند ہو گئے اور دنیا سے ویکسین کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔

کیونکہ اس دوران سارے روایتی طریقے فیل ہوچکے تھے۔ حل صرف سائنسی تھا۔ جب ویکسین آئی تو انہوں نے اس سے استفادہ کیا مگر پھر دوبارہ روایتی سوچ کی طرف مائل ہو گئے۔ ہمارے لوگ بے ہوش ہو کر گرنے تک ہسپتال نہیں جاتے ہیں۔ ہر مسلے کا حل یہ روایتی طریقے سے ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب مکمل ناکام ہو جاتے ہیں تو ہسپتال جاتے ہیں۔ ہمارے لوگ زندگی کے ہر قدم پر سائنسی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے محتاج ہیں مگر اپنی روایتی طرز فکر کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اب خودکشی کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کیونکہ ہم پرانے لوگوں کی طرح بہادر نہیں رہے۔ ان سے پوچھا جائے کہ پرانے لوگوں کا کیا کمال تھا تو یہ ایسے بیان کریں گے جیسے پرانے زمانے میں سب بہادر تھے۔ کوئی بیماری نہیں تھی۔ لوگ حالات کا مقابلہ کرتے تھے۔ ان کو پرانے زمانے میں کوئی مسئلہ سرے نظر ہی نہیں آتا ہے۔ دل کرتا ہے ان سب کو اٹھا کر پرانے زمانے میں پھینکا جائے مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے۔

پرانے زمانے کے بارے میں ان کی معلومات بھی محض روایتی قصے کہانیوں تک محدود ہیں، کسی تحقیقی مواد یا مسند تاریخی کتابوں کا نہ مطالعہ کیا گیا ہے نہ ایسا مواد دستیاب ہے۔ کیونکہ ذہنی طور پر یہ لوگ پرانے زمانے میں رہتے ہیں اس لئے ان کو پرانا زمانہ اچھا لگتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی عمل ہے کہ جب تک انسان حال میں جینا نہیں سیکھتا ہے یا جدید علوم سے نابلد ہوتا ہے یا تبدیلیوں سے خوف زدہ ہوتا ہے اس کو پرانا زمانہ اچھا لگتا ہے۔

ہمارے بعد کی نسلوں کو بھی ہمارا زمانہ اچھا لگے گا حالانکہ ہم میں سے بہت سارے لوگ آج کے زمانے کو بہت برا بھلا کہتے ہیں۔ ہماری بعد کی نسلوں کو یہ نہیں معلوم ہو گا کہ ہم آج کس مصیبت میں جی رہے ہیں۔ پیٹرول اور ڈالر کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافہ کے علاوہ کرپشن نے ہمارا جو حال کیا ہے وہ آج سے پچاس سال بعد کی نسل کو کیسے معلوم ہو گا۔ ہم اپنی تکلیفات اور مصیبتیں لے کر دفن ہوجائیں گے۔ بالکل اسی طرح پچھلی نسلوں کی تکلیفات ان کے ساتھ دفن ہو چکی ہیں۔ مگر ہماری طرح ہمارے اگلی نسلیں ہمیں دنیا کے بہترین لوگ بنا کر پیش کریں گی۔ اًس وقت ہم عالم ارواح میں ہنس رہے ہوں گے جیسے اس وقت ہمارے آباؤ اجداد ہمارے منہ سے اپنی تعریفیں سن کر ہنستے ہوں گے۔

جدید مسئلوں کے پرانے حل بتانے والوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیونکہ اس عمل میں زیادہ کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو باپ دادا سے سنا ہے یا جو دماغ میں پہلے سے موجود بات ہے اس کو ہی بیان کرنا ہے۔ جبکہ جدید مسئلوں کے جدید حل کے لئے پڑھنا پڑتا ہے اور سخت ذہنی مشقت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

یہ کہنا بہت آسان ہے کہ خودکشی لوگ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ کمزور ہو گئے ہیں۔ اب اسی شخص کو یہ کہا جائے کہ اگر یہ کام اتنا آسان ہے اور کمزور لوگوں کا کام ہے تو برائے مہربانی آپ پوری خودکشی نہ کریں صرف ایک انگلی کاٹ کر دیکھا دیں، تو وہ فوراً کہے گا یہ کام تو مجھے سے نہیں ہو گا۔

جب یہ کہا جاتا ہے کہ خودکشی لوگ اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ان کا ایمان کمزور ہو گیا ہے۔ تو دل میں خیال آتا ہے کہ سب فرشتوں کے بیچ میں بس وہ خودکشی کرنے والا اکیلا کمزور ایمان کا گناہگار آدمی تھا۔ گویا باقی یہاں ایمان کی یہ حالت ہے کہ معاشرے میں نہ کوئی جھوت بولتا ہے، نہ کرپشن کرتا، نہ قتل کرتا، نہ چوری کرتا اور نہ کوئی اور غلط کام کرتا ہے۔ یہاں تو معاشرے میں ایسے ایسے کام ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر انسانیت شرما جاتی ہے۔ مگر پھر بھی خیال ہے کہ ایمان صرف خودکشی کرنے والے کا خراب ہے۔

جو لوگ خودکشی کا علاج سائنسی علوم سے ہٹ کر بتاتے ہیں ان سب کو ماہر نفسیات سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ سائنسی علوم و جدید بنیادی معلومات سے نابلد ہونا خود ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ اسی کی وجہ سے توہم پرستی، مزاروں میں جانا، چشموں کا پانی پینا، تعویز گنڈے، جادو سحر، طعنے دے کر ذہنی اذیت بڑھانے سمیت کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ ذہنی صحت پر دنیا میں صدیوں پہلے کام شروع ہوا تھا۔ ہمارے ہاں اب بھی ذہنی صحت کو مسئلہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔

غصے کا ایک حد سے بڑھنا ہی ذہنی بیماری کی بنیادی علامات میں سے ایک ہے۔ ہر دوسرا شخص اس بیماری کا شکار ہے۔ ذہنی صحت کی نہ تو یہاں کوئی سہولیات ہیں اور نہ ہی یہاں کوئی آگاہی ہے۔ شدید ذہنی مسائل کے باوجود اس کو مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ جسمانی صحت کی طرح ذہنی صحت بھی صحت کے شعبے کا اہم حصہ ہے۔ اس شعبے پر اتنی ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے جتنی جسمانی صحت کے شعبے پر دی جاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں خودکشیوں کے پیچھے ذہنی صحت کے عوامل کا بنیادی کردار رہا ہے۔ مگر اس بڑی حقیقت سے انکاری ہیں۔

اسی طرح ہمارے ہاں سکولوں اور گھروں میں بھی ماحول تھانوں سے مختلف نہیں ہے۔ جہاں ایموشنل انٹیلیجنس، پیرنٹنگ سکل اور دیگر سائنسی و جدید تصورات و ضروریات پر تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی ہے۔ جدید دنیا میں ماں باپ جلاد بن کر بچوں کی تربیت نہیں کر سکتے۔ آج کے بچے اپنے عزت نفس کو مجروح ہوتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ صدیوں پرانے بچے نہیں ہیں جن کو کسی چیز کا علم نہ ہو یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا کی معلومات رکھتے ہیں۔ آج کا بچہ انسان دوست رویوں کا تقاضا کرتا ہے۔ پرانے زمانے کی طرح ڈنڈوں سے مار کر ان کو نہیں سکھایا جاسکتا۔ ان سب مسائل کا حل جدید سائنسی علوم میں ہے۔ زمانہ پرانا نہیں رہا ہے تو اس کے مسئلوں کا حل پرانے طریقوں سے کیسے ہو سکتا ہے؟

خودکشی سمیت کوئی بھی نئی بیماری ہو یا مسئلہ اس کا حل قدیم زمانے کے ٹوٹکوں میں نہیں ہے بلکہ جدید سائنسی علوم میں ہے۔ یہ علوم اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم سائنسی انداز فکر اپنائیں۔ دین اسلام کی بات کرنے والے حضرات بھی ایک طرف مسلمان سائنسدانوں کی تعریفیں کر کر کے نہیں تھکتے ہیں مگر جب خود سائنسی انداز فکر اپنانے کی بات آ جائے تو بھاگ جاتے ہیں کیونکہ یہ ایک محنت طلب کام ہے۔ جن جن لوگوں کو خودکشی پر بولنے یا لکھنے کا شوق ہے ان سب کو چاہیے کہ وہ خودکشی پر تین چار تحقیقی مقالے ضرور پڑھیں تاکہ موضوع کی بنیادی معلومات مل سکیں۔ یہ ایسا موضوع نہیں ہے جس پر بغیر بنیادی معلومات کے روایتی طریقے سے بات کی جائے اور روایتی حل بتا یا جائے۔ قدامت پرستی سے یہ مسئلہ دور نہیں ہو گا بلکہ اس میں اضافہ گا۔ اس لئے خرافات سے اجتناب کیا جائے۔

یہ مسئلہ سائنسی علوم کی شاخیں سوشیالوجی، سائیکالوجی اور اینتھرو پالوجی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ گاؤں کے واٹر چینل کا کام یا مسئلہ نہیں ہے جو روایات یا دستوری طریقہ کار سے حل ہو گا۔ مسئلہ نیاء ہے اس کا حل بھی نئے علوم میں ہے۔ غذر یوتھ اس کے جدید حل تلاش کر رہی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments