آئینِ پاکستان تنہا ہو رہا ہے، اس سانحے کا کسی کو احساس نہیں


اس وقت آئین پاکستان کی حالت صحیح معنوں میں قابل رحم ہے۔ یوں لگتا ہے ایک پیج پر آنے کی کوشش میں دھینگا مشتی کرتے کرتے سب ریاستی ادارے اور تمام سیاسی جماعتیں آئین کے خلاف ایک پیج پر آ گئے ہیں۔ یہ بات بظاہر پیچیدہ دکھائی دیتی ہے لیکن غور کریں تو بہت سادہ ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے آئین کو بنیادی نقطہ ماننا پڑے گا۔

سب سے پہلے عمران خان کو دیکھتے ہیں جن کا نعرہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ اور ان کی ٹیم کے لوگ بار بار یہ کہتے ہیں کہ اداروں کو نیوٹرل نہیں ہونا چاہیے، نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی ان کا بیانیہ ہی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی جوڑ توڑ میں شامل ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ایسا ہو گا توان کی مرضی کے بغیر کوئی کام ہو گا نہ کوئی پالیسی بنے گی۔ تو بھائی اسٹیبلشمنٹ یہی تو چاہتی تھی اور یہی تو کرتی آ رہی ہے۔ آپ کون سی نئی بات کر رہے ہیں یا کوئی منفرد مطالبہ کر رہے ہیں؟

اس میں ایک کھلا تضاد پایا جاتا ہے جو ظاہر ہے پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کو مشکل سے دکھائی دے گا۔ عمران خان سازش کا معروف بیانیہ دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے امریکہ نے سازش کی اور یہاں کی قوتیں یعنی اسٹیبلشمنٹ وغیرہ اس سازش میں شریک تھیں۔ پھر اسی سانس میں فرماتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل کیوں ہے؟ اس کا مطلب ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل نہیں ہے۔ یعنی عمران خان خود یہ کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف ہے، یعنی نیوٹرل نہیں ہے۔

تو بھائی آپ کسی ایک طرف ہوں اور واضح بتائیں کہ آپ کی نظر میں وہ نیوٹرل ہیں یا نہیں ہیں؟ یا سیدھا کہیں کہ وہ آپ کا ساتھ دیں گے تو نیوٹرل نہیں کہلائیں گے اور اگر مخالف کا ساتھ دیں گے تو نیوٹرل ہوں گے۔ کیا آپ کرکٹ میں جن نیوٹرل امپائروں کو متعارف کرانے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ ایسے ہی نیوٹرل تھے؟ سبحان اللہ!

ایسی ہی لایعنی منطق رکھنے والے کچھ اور لوگ جب کہتے ہیں کہ عمران خان ریڈ لائن کراس کر گیا اور اس کے باوجود اسے کچھ نہیں کہا جا رہا تو میں کہتا ہوں، نہ بھائی نہ، خان نے کوئی ریڈ لائن کراس نہیں کی، بلکہ وہ تو اسٹیبلشمنٹ کو آئین کی لائن کراس کرنے کی سر عام دعوت دے رہا ہے۔ غور فرمائیں تو یہ ایک طرح سے اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ ہی ہے جسے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ محبت کے اس چکر میں سب کہا سنا معاف ہوتا ہے۔ بقول غالب

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

اب دوسری جانب موجودہ حکومت میں شریک دیگر جماعتوں کو دیکھتے ہیں جن کی سرخیل نون لیگ کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ آئین اور جمہوریت کو ہر حال میں مقدم ہونا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار آئینی دائرہ کار کے اندر محدود ہونا چاہیے۔ اب دیکھیے نون لیگ و پیپلز پارٹی وغیرہم کیا کر رہے ہیں۔ حکومت کی تبدیلی کے لیے جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ وہ اپنے بیانیے کے الٹ چل پڑے ہیں۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل ہونے کا درس دینے والے اب اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ کسی کو یقین نہ آئے تو آئین کو روندنے والے جنرل مشرف کی بیماری کے بارے میں ان کے سینوں میں جاگتی ہمدردیاں دیکھ لیں۔ کیا وہ فاطمہ جناح، سہروردی، بھٹو، بے نظیر سے لے کر نواز شریف تک، اور جمہوریت اور آئین کے لیے قربانیاں دینے والے سول سوسائٹی کے سب لوگوں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک بھول گئے؟

چلیں آپ اپنی جلاوطنی کے ذاتی دکھ تو بھول سکتے ہیں لیکن آئین، جسے آپ مقدس کہتے نہیں تھکتے اور ووٹ کو عزت دینے کے دعوے دار ہیں، اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کیسے معاف کر سکتے ہیں؟ سوال تو بنتا ہے کہ آپ اپنی تقریروں میں جن ذمہ داروں کے نام لیتے تھے، کیا وہ آپ کا ساتھ دینے کے بعد پاک صاف ہو گئے؟ عمران خان آپ کے بقول سلیکٹڈ تھا تو اصل ذمہ دار تو اسے سلیکٹ کرنے والے اور اسے ملک پر مسلط کرنے والے تھے۔ ان کے خلاف آپ چپ کیوں ہو گئے؟

قصہ مختصر، اس وقت سب ایک پیج پر ہیں۔ آئین کی بات کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا سنہری دور چل رہا ہے۔ عمران خان آج کل مثالیں دیتے نہیں تھکتے کہ روس کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج تھی، اس کے باوجود کمزور معیشت کی وجہ سے اس کے ٹکڑے ہو گئے۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ ہمارا پڑوسی ملک بھارت، علیحدگی کی کئی مضبوط تحاریک کے باوجود ابھی تک قائم ہے، کیونکہ اسے اس کے آئین نے متحد رکھا ہوا ہے۔ ہمارے ہاں آئین میں بار بار کی مداخلت نے ملک کو ہر سطح پر کمزور کر دیا ہے جس کا ایک نتیجہ ہم 1971 میں دیکھ چکے ہیں۔

پاکستانی عوام لیے یہ دور حقیقی معنوں میں نازک ہے۔ گزشتہ ادوار میں جب ریاستی ادارے اپنا جبر آزماتے تھے یا حکومتوں کو ظالمانہ اقدامات اٹھانے پر مجبور کرتے تھے تو اپوزیشن اس کے خلاف کھڑی ہو جاتی تھی۔ حتیٰ کہ آمروں کے دور میں بھی کچھ ایسی آوازیں سنائی دے جاتی تھیں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ موجودہ اپوزیشن خود اداروں کے ترلے کر رہی ہے کہ ہمارا ساتھ دیں اور سول سوسائٹی کا غالب حصہ پی ٹی آئی کی رخصت ہونے والی فاشسٹ حکومت کے جانے پر تھوڑا ریلیکس کرنے کے چکر میں خاموش دکھائی دے رہا ہے اور یوں آئین پاکستان تنہا ہو رہا ہے۔ آئین پاکستان سب شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ طاقت ور تو دوسروں کا حق بھی چھین لیتے ہیں لیکن غریبوں اور بے نواؤں کا سہارا یہی آئین ہے، جو پہلے صرف کمزور تھا اب تنہا ہو رہا ہے۔ صد افسوس کسی کو اس سانحے کا احساس نہیں ہو رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments