خلیل عارف سومرو: معروف جدید غزل گو شاعر


خلیل عارف سومرو سندھی زبان کے جدید شعرا میں نمایاں اور جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اپنے منفرد لہجے کے حسین شاعر ہیں۔ عارف سندھی زبان کے ان جدید شعراء میں سے ہے جنہوں نے روایتی شاعری کی پگڈنڈی پر چلنے کے بجائے اپنے خیالات کے اظہار کا الگ اور منفرد راستہ چن لیا۔ یہ ہی وجہ ہے کے عارف سومرو نے بہترین شاعر ہونے کا مقام حاصل کیا ہے۔

خلیل عارف سومرو سندھ کے سرائیکی زبان اور سندھی زبان کے معروف شاعر احمد خان مدہوش کے بیٹے اور شاعری میں شاگرد ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ خلیل عارف علم عروض پر بڑی دسترس رکھتے ہیں۔ اس کی شاعری میں موزونیت اور علم عروض کی پختگی کمال کو چھوتی ہے۔ اسے کلاسیکی سندھی شاعری میں موزونیت اور موسیقیت پیدا کرنے کے علم یعنی چھند ودیا کے استعمال پر بھی عبور حاصل ہے۔

اس کے علاوہ خلیل عارف نے شاعری میں نئی اور چیدہ تشبیہات، استعارے اور اصطلاح استعمال کر کے سندھی زبان کی زرخیزی میں خوب اضافہ کیا ہے۔ اس کی شاعری میں مشکل زبان کے بجائے سلیس یا آسان زبان کے استعمال کی شاعرانہ خوبی اسے ہم عصر دور کے جدید شعراء میں شمار کرنے کے لیے کافی ہے۔ عارف سومرو نے اپنی منفرد تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے منفرد شاعرانہ مقام حاصل کیا ہے۔

خلیل عارف سومرو بہ یک وقت سندھی زبان کے شاعر، افسانہ نگار، ڈراما نگار اور نقاد ہیں مگر ان کی زیادہ پہچان شاعری ہے۔ ویسے تو اس نے کلاسیکی سندھی شاعری کی اصناف کے ساتھ ساتھ عروضی شاعری کی ہر صنف میں شاعری کی ہے مگر اس نے جو غزل کی صنف میں شاعری کی ہے وہ بہت عمدہ ہے۔ اس کی غزل میں جدت، زبان کی شائستگی، تخیل کی شیرینی اور سادگی کا عنصر اس کو بہترین غزل کو شعراء میں شمار کرتا ہے۔ اس کی غزلوں میں تغزل، حسن و جمال، خوبصورتی اور رومانویت کی غیر روایتی خوبیاں بغیر کسی مبالغہ آرائی کے اسے معروف اور منفرد غزل گو شعراء میں شامل کرتی ہیں۔

خلیل عارف سومرو کی غزلوں کے موضوع محض تشبیب، رومانس اور حسن و جمال تک محدود نہیں۔ اس جدید شاعر کی غزلوں میں سماج کے ہر پہلو کی نمائندگی ملتی ہے۔ اس نے ذاتی احساسات اور کیفیات کے بیان کے علاوہ معروضی حالات کو بھی غزل کا موضوع بنایا ہے۔ اپنے ذاتی جذبات کے ساتھ سماجی طور غربت، نا انصافیوں، اذیتوں، احساس محرومیوں، فرسودہ روایات اور مضطرب سماجی حالات کے درد کو بھی اپنی غزلوں میں پناہ دی ہے۔ اس کی غزلوں اور اس کی شاعری میں جھلکتی ساری مضطرب کیفیات اجتماعی طور سماجی اور انسانی کیفیات کی ترجمان نظر آتی ہیں۔

غزل
محبت نہ مل سکی۔
راحت نہ مل سکی۔
دکھ کو سمیٹ لیتا،
فرصت نہ مل سکی۔
ابن الوقت سے کبھی،
طبیعت نہ مل سکی۔
حسن بے وفا تری،
الفت نہ مل سکی۔
غربت کی وادیوں میں،
شہرت نہ مل سکی۔
ظالم جھکا سکے، اسے،
ہمت نہ مل سکی۔
عارف تھا عشق صحرا،
فرحت نہ مل سکی۔
(مترجم: عزیز کنگرانی)
فوٹو خلیل عارف سومرو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments