روداد سفر۔ حصہ 27


ایوو شہر میں جہاں اور بہت پیارے پیارے پاکستانی بھائی تھے وہاں ایک ہمارے میر پور آزاد کشمیر کے شفقت بھائی، بہت پیاری شخصیت اور بہت عرصے سے ایوو شہر میں مقیم۔ شفقت بھائی کی اہلیہ سنکیانگ صوبے کے علاقے کاشغر سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ لوگ نسلاً ترک ہیں اور خالص ترکش زبان بولتے ہیں، عادات و اطوار کے لحاظ سے بھی ہماری طرح ترک ہی ہیں۔ یہ علاقہ پھلوں اور کاٹن کے حوالے سے پورے چائنا میں مشہور ہے خاص کر کاشغر کے انگور اور میوہ جات۔

اس کاشغر کے علاقے میں چائنا گورنمنٹ نے سپیشل اکنامک زون بنایا ہے۔ زون کو بنانے سے پہلے ایغور مسلمانوں سے ان کی زمینیں خریدی گئیں جو انہوں نے بہت ہنسی خوشی اچھی قیمت پر بیچیں اور بیچ کر دوسرے علاقوں میں نکل گئے۔ کچھ نے نان بیچنا شروع کر دیا اور کچھ نے سیخ کباب۔ پھر جب حکومت نے انہیں خطرہ قرار دے کر دوسرے علاقوں سے واپس کاشغر بھیجنا شروع کیا تو یہاں ان کے پاس کچھ تھا ہی نہیں جو تھا وہ پہلے ہی بیچ چکے تھے۔ پھر شور مچ گیا کہ چائینز نے ہماری زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

شفقت بھائی کا ماشاء اللہ ایک بیٹا بھی ہے جس کی عمر اب شاید چودہ پندرہ سال ہو گئی۔ اکثر ہماری ملاقات ہوتی رہتی۔ میری بیوی شفقت بھائی کے گھر دو تین دفعہ گئی لیکن اسے وہ پسند نہیں آئیں۔ کیوں یہ مجھے بھی معلوم نہیں۔ عجیب سی بات ہے میری بیوی کی سہیلیوں میں سے کوئی بھی پشتینی مسلمان ( نسلی مسلمان ) میں زیادہ عرصے اس کے ساتھ دوستی کے بندھن میں نہیں رہتی۔ خیر میں نے بھی کبھی ایسی باتوں کی تفتیش نہیں کی جتنا اس نے تبصرہ کر دیا اتنا میں نے سن لیا۔

لیکن نو مسلم یا کچھ مسلم کھلی طبیعت کی خواتین سے اس کا میل جول بہت اچھا تھا جو شاید دل کی بات کھل کر سامنے رکھ دیتیں۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ کوئی مصنوعی لبادہ نہیں اوڑھے رکھیں۔ جب بھی میری بیوی کوئی مستقبل کے متعلق کوئی کام کہتی میں کہتا انشاء اللہ ہو جائے گا تم کیوں فکر کرتی ہو، تو ساتھ ہی وہ بھڑک اٹھتی کہ انشاء اللہ تم نے کہہ دیا اب تو تم نے خدا کے سر پھینک دیا اب تم نے یہ کام کرنا ہی نہیں۔ شاید اس کی کسی سہیلی نے جو کسی عرب کمپنی میں کام کرتی ہو گی اسے بتا دیا ہو گا کہ یہ مسلمان جب ساتھ انشاء اللہ کہیں تو شک کرنا کہ اب اس کا یہ کام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں یہ صرف سر سے بات اتار رہا ہے۔

خیر ہمارے شفقت بھائی نے ایک دن مجھے فون کر کے پوچھا کہ آج کل کام کی طرف سے فراغت ہے یا مصروفیت۔ میں نے کہا کہ دس بارہ دن کے لیے کوئی خاص مصروفیت نہیں تو انہوں نے کہا کہ ان کے جاننے والے ایک چائنیز صوبے ہونان کے شہر چھانگشاء میں ہیں ان کے پاس ایک بلوچ سردار ریڑھ کی ہڈی کے علاج کے لیے آئے ہیں ان کے پاس جانا ہے اور ٹرانسلیشن کرنی ہے کیونکہ وہ سردار صاحب انگریزی بھی نہیں جانتے۔ میں نے حامی بھر لی انہوں نے رابطے کے لیے فون نمبر مجھے دے دیا۔

یہ صوبہ اندرون چائنا کہلاتا ہے اور غریب صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر انڈسٹری چائنا کے ساحلی علاقوں میں لگی ہے جہاں سے مال آسان سے بحری راستوں سے دوسرے ممالک تک جا سکتا ہے۔ اس صوبے کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں یا دوسرے صوبوں میں روزگار کے لیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ صوبہ چیرمین ماؤ کے حوالے سے بہت مشہور ہے یہ ان کی جائے پیدائش ہے اور کمیونسٹ فوجوں جن کی عملداری دیہی علاقوں میں تھی کے خلاف جب نیشنلسٹ حکومت نے گھیرا تنگ کر کے بڑا حملہ کیا تو وہ اس گھیرے کو توڑ کر چیرمین ماؤ کو اسلحہ اور سامان سمیت پیدل نکل کر لے گئے اور اپنا بیس کیمپ دوبارہ سانشی میں یے نان کے علاقے میں پہاڑوں میں بنایا۔

اس گھیرے کو توڑ کر نکلنے کو لانگ مارچ کہا جاتا ہے۔ یعنی چیرمین ماؤ کے انقلاب میں ساتھ دینے والے زیادہ تر اسی علاقے غریب کسان تھے۔ مسلمانوں کے علاقے قرآنک بیلٹ جن میں نن شاہ، کانسو، چھن ہائی اور سانشی کا علاقہ شامل ہے، میں مسلمانوں کی بغاوت کو ختم کرنے والی فوج میں اسی علاقے کے لوگ زیادہ تعداد میں تھے اور ابھی تک وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں۔ بعد والا انقلاب تو ایسا تھا کہ جس نے بہت سے علاقوں سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور وہ حال ہوا کہ اگر وہ سامنے آ جائے تو لوگ اسپین سے مسلمانوں کے خاتمے کو چھوٹی بات سمجھیں۔

جن علاقوں میں مسلمان اتنی کثیر تعداد میں تھے کہ وہ بغاوت اٹھا سکتے تھے وہاں سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ یہ نفرت شاید اس وجہ سے بھی تھی کہ مسلمانوں نے اس وقت چن کائی شک نیشنلسٹ حکومت کا ساتھ دیا جنہوں نے بعد میں تائیوان میں حکومت قائم کی۔ بلکہ ان کی طرف سے نن ہائی کے نام سے جس میں صرف مسلمان تھے علیحدہ یونٹ بنا کر لڑے۔ اس یونٹ نے کمیونسٹ پارٹی کی فوجوں کو جنہیں ریڈ آرمی کہا جاتا ہے کو 1936 میں شکست دی تھی۔

لانگ مارچ میں چیئرمین ماؤ کے ساتھ شرکاء کی تعداد ایک لاکھ تھی جن میں سے صرف دس ہزار باقی بچے۔ دوسری طرف ہلاکتوں کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں۔ چن کائی شک کی حکومت اس وقت چائنا کی لیگل حکومت تھی جو جمہوریت کی علمبردار تھی اور مذہبی حوالے سے وہ کوئی متشدد کا رویہ نہیں رکھتے تھے بلکہ مذہبی آزادی کے علمبردار تھے۔ جبکہ کمیونسٹ پارٹی کمیونزم نظام کی حامی تھی۔ اس لیے جو کچھ دوسرے ملکوں کے کمیونسٹوں نے اپنے علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا وہ یہاں کے مسلمانوں کے سامنے تھا اور اس کمیونسٹ انقلاب کے متعلق وہ یہی خدشات رکھتے تھے۔

تائیوان قیام کے دوران بھی مجھے ایک سابق فوجی نے یہی بتایا تھا کہ ہماری اس وقت کی فوج میں بہت سے مسلمان شامل تھے جو کمیونسٹ انقلاب کے خلاف لڑ رہے تھے اور اپنے لیے علیحدہ کھانا پکاتے تھے۔ لیکن سارے ہمارے دوست تھے۔ بعد میں 1966 میں کلچرل ریولوشن ( ثقافتی انقلاب ) جس کے دوران ثقافتی ورثے کو تباہ کیا گیا اور مذاہب پر سختیاں کی گئی، مذہبی عبادت گاہوں کو تباہ کیا گیا، اس میں بھی اس علاقے ہونان کے لوگ بہت جوش و خروش سے شریک ہوئے تھے۔

دوسری وجوہات اپنی جگہ ایک معاش کی وجہ بھی تھی۔ کیونکہ اس علاقے کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی تھا۔ جنگ کی وجہ سے ان کے کھیت کھلیان تباہ ہو رہے تھے تو جان کے لالے پڑ گئے۔ اس وقت جنگ بھی وہ کاروبار تھا جو لوگوں کے لیے معاش کا ذریعہ بن رہا تھا اس لیے اور کچھ نہ پاتے ہوئے لوگ یہی اختیار کر رہے تھے کہ کم ازکم جسم و جان کا رشتہ تو برقرار رکھا جا سکے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں میں انڈینز کی شمولیت بھی شاید اسی وجہ سے تھی جہاں وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف باہر کے لوگوں کے ساتھ مل کر جنگ کر رہے تھے۔ اور عربوں کے ساتھ مل کر برٹش حکومت کے تحت ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ عرب ممالک میں کر رہے تھے۔ ہمارے دوسرے پڑوسی ملک افغانستان میں بھی لوگوں کی جنگ میں عام شمولیت اسی وجہ سے ہے۔ یہ روزی روٹی انسان سے سارے عقائد اور محبتیں چھین لیتی ہے۔

دوسرا یہ علاقہ مائننگ انڈسٹری کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سے جو سٹوڈنٹ چائنا جاتے ہیں وہ بھی زیادہ تر یہاں کی یونیورسٹیوں میں موجود ہیں۔ یہ ہمارے رہائشی صوبے جیجانگ کے ساتھ ہی ہے۔ میں نے شفقت بھائی کے بتائے نمبر پر کال کر کے تفصیلات لیں، فاسٹ ٹرین جسے بلٹ ٹرین کہا جاتا ہے کا ٹکٹ آن لائن بک کروایا اور کچھ سامان ساتھ لے کر سٹیشن پہنچ گیا۔ ٹرین اپنے ٹھیک وقت پر ایوو کے اسٹیشن پر پہنچی اور تین منٹ کے سٹاپ کے بعد 300 سے 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ سے اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔

ٹرین بہت صاف ستھری اور آرام دہ تھی۔ ساڑھے چار گھنٹے کے سفر کے بعد چھنگ شاہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئی۔ باہر نکل کر کال کی تو ایک صاحب جو گاڑی لے کر میرے انتظار میں تھے۔ مجھے ساتھ بٹھایا اور کھانے کا پوچھا۔ ایک گانسو مسلمانوں کے ریسٹورنٹ میں لے گئے۔ کھانے کے بعد ہم ہسپتال چلے گئے۔ یہ ہسپتال ملٹری کے زیر انتظام تھا اور باہر سے محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہسپتال ہے۔ سردار صاحب کے کمرے میں پہنچے۔ یہ بلوچستان کے علاقے چاغی سے تعلق رکھنے والے پشتون بلوچ قبیلے احمد زئی سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ علاقے بلوچستان کے اس کونے میں ہے جہاں ایک طرف ایران اور دوسری طرف افغانستان کا بارڈر ہے۔ انہیں ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی تکلیف تھی اور انہیں یہاں لانے والے چائنیز کا نام مسٹر وانگ تھا۔ خیر اس وقت رات کافی دیر ہو گئی تھی میں نے ان سے حال احوال پوچھا اور پھر وہیں ہسپتال کے اسی کمرے میں عشاء کی نماز پڑھ کر دوسرے بستر پر میں سو گیا۔

صبح کی نماز ادا کی اور آپس میں گپ شپ شروع کی انہوں نے بتایا کہ ان کا گاؤں چاغی ریکوڈک کے پاس ہے اور حکومت نے مائننگ کے لیے جو نئی لیز جاری کی ہیں ان میں سے دس لیز ان کے نام ہیں جو پانچ پانچ سو مربع کلومیٹر کی ہیں جہاں انہوں نے کاپر اور ماربل کی مائننگ کے لیے کام شروع کیا ہے۔ یہ چائنیز مسٹر وانگ اس کام کے لیے چائنیز انویسٹر ارینج کر رہے ہیں۔ کوئٹہ گرین اونیکس ماربل کی مائن پر کام ہو رہا ہے اس کے لیے نئی مشینری وہ یہاں سے پاکستان بھیج رہے ہیں اور اونیکس ماربل چائنا کچھ کنٹینر بھیجے ہیں۔

کاپر مائننگ کی ایک سائٹ پر کام ہو رہا ہے اور باقی کے لیے انویسٹر پارٹیوں سے بات چیت ہو رہی ہے۔ وہ محترم سردار محمد زئی صاحب مشرف کے شدید مخالف تھے کہ انہوں نے نواب اکبر خان صاحب کو مروایا تھا۔ یہ ایک عدم تحفظ کا احساس ہے۔ جب بھی ماوراء قانون کارروائی کی جاتی ہے تو یہ تحفظ لازماً پیدا ہوتا ہے۔ اگر وہ مجرم تھے تو عدالتیں اور قانون اسی لیے ہوتا ہے کہ آپ مجرم کو اس کے جرم کے ساتھ عدالت میں لے کر جائیں اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقعہ دیں۔ پھر جرم ثابت ہو جائے تو سزا کا نفاذ کریں۔ اس وقت تک ریکوڈک پروجیکٹ میں کام کرنے والی کمپنی TCC ٹیسان کا لائسنس منسوخ ہو چکا تھا۔

کچھ دیر تک ایک مسلمان لڑکا اپنے ریسٹورنٹ سے کھانا لے کر آ گیا۔ ہم نے ناشتہ کیا اور بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہے۔ رات کو مسٹر وانگ سردار صاحب سے ملنے آئے اور ڈاکٹر سے پوچھ کر بتایا کہ کل ان کی ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کا آپریشن ہو گا۔ مسٹر وانگ کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے جو بہت پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان تھے یہ مسٹر چھان تھے۔ بہت اچھی گفتگو کرتے تھے اور دیکھنے میں بہت ہی نفیس انسان۔ انہوں نے سردار صاحب سے تفصیلی بات چیت کی جس کے لیے میں نے ترجمانی کی۔

یہ میرا بھی پہلا موقع تھا کہ کسی انتہائی نفیس چائنیز سے ملا ہوں۔ ورنہ کلچر ریولوشن ( ثقافتی انقلاب ) اور آپس کی خانہ جنگیوں نے یہاں کے لوگوں کے مزاج کو بہت الجھا ہوا بنا دیا ہے۔ عجیب شکی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور جیسی چاہے مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہو لیکن نظریں عجیب ہی سی ہوتی ہیں۔ کسی نے سچ کہا کہ انقلابات اور جنگیں معاشرے کے مزاج کو تبدیل کر دیتے ہیں۔

دوسرے دن صبح سویرے سردار صاحب کو سٹیچر پر لٹا کر آپریشن روم لے جایا گیا۔ مجھے بھی گاؤن اور ماسک پہنا کر ساتھ آپریشن روم میں کھڑا کیا گیا۔ سردار صاحب کی پیٹھ پر کیمرے کی مدد سے دیکھا گیا کہ ریڑھ کی ہڈی کے کس مہرے کے درمیان گوشت آ گیا ہے۔ اس جگہ پر ایک لمبی سوئی جو پائپ کی شکل کی تھی داخل کی گئی اور ساتھ ساتھ سوئی کی پوزیشن بھی کیمرے سے سکرین پر دیکھی جاتی رہی۔ مجھے سردار صاحب سے ساتھ ساٹھ باتیں کرنے کو کہا گیا کہ وہ کہیں ٹیشن ہی نہ لے لیں۔

پھر جب سوئی اس اضافی گوشت والی جگہ پہنچ گئی تو سوئی اس میں ایک محلول ڈال کر اس اضافی گوشت کو وہیں جلا دیا گیا۔ ساتھ ساتھ کیمرے کی مدد سے سکرین پر جائزہ لیا جانا رہا۔ بیس پچیس منت بعد ہمیں واپس کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ سردار صاحب پہلے مہرے کے درمیان اس اضافی گوشت کی وجہ سے بہت تکلیف میں تھے۔ آپریشن کے بعد الحمدللہ شام تک بہت بہتری ہو گئی۔

یہ انسان بھی کتنی پرفیکٹ بنائی گئی مخلوق ہے کہ ایک چھوٹے سے اضافی گوشت سے سسٹم خراب۔ ہر چیز کیسے میزان اور نپی تلی خدا نے بنائی ہے ذرہ برابر زائد اور ذرہ برابر کم اس مشین کو خراب کر دیتا ہے۔ پھر یہ دعویٰ بھی کر رہا ہوتا ہے کہ یہ خود بخود ہی بن گیا۔ کیا صدیوں میں ایسی کوئی خود بخود مکھی بھی بنی ہے کہ اتنی پرفیکٹ مشین بنی ہو۔ اس خود بخود سے زیادہ غیر سائنسی بات بھی کوئی ہو سکتی ہے۔ پھر اس مشین کو ٹھیک کرنے کی بھی خدا نے اس کو صلاحیت بھی دی اور خوب دی۔ یہ سارا آپریشن دیکھنے کے بعد مجھے افسوس بھی ہوا کہ کیا یہ سب پاکستان کی کسی ہسپتال میں نہیں ہو سکتا کیا ہمارے ڈاکٹروں کے پاس اتنی صلاحیت بھی نہیں کہ کیمرے سوئی اور محلول سے یہ آپریشن کر سکیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments