سیاست جھوٹی اور مسائل حقیقی


ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں جھوٹ کو پذیرائی ملتی ہے اور حقیقت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے سماج میں سیاست جھوٹی ہوتی ہے اور مسائل حقیقی ہوتے ہیں لیکن سیاسی چلن ایسا ہے کہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے اس پر سیاست در سیاست کی جاتی ہے۔ اگر پاکستانی سماج سے مسائل کا خاتمہ ہو جائے تو یقیناً اس سماج میں سیاست کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ یعنی پاکستانی سماج میں سیاست کے لئے ضروری ہے کہ مسائل کو زندہ رکھا جائے بصورت دیگر سیاست مر جائے گی۔

ایسے ہی سماج کا دوسرا المیہ میڈیا ہے جو روزانہ ایسی خبریں اور ٹاک شوز پیش کرتا ہے جو حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے اس پر ہونے والی جھوٹی سیاست کو ابھار رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سماج کے سنجیدہ حلقے خبروں کو اور ٹاک شوز میں ہونی والی سیاسی گفتگو پر اعتماد کرنے کی بجائے اظہار بیزاری کرتے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک خبروں اور ٹاک شوز میں ہونے والی سیاسی گفتگو پر عوام کا گرتے ہوئے اعتماد کا معاملہ ہے تو یہ مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور مہذب سماج کا بھی ہے۔ اس ضمن میں روئٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دا اسٹڈی آف جرنلزم نے اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے جو خبروں پر عدم اعتماد کے حوالے سے بہت کچھ بیان کرتی ہے۔

روئٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دا اسٹڈی آف جرنلزم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کا خبروں پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن ملکوں میں سروے کیا گیا ان میں سے نصف میں میڈیا پر اعتماد میں کمی آئی ہے۔ صرف سات ممالک ایسے تھے جہاں خبروں پر اعتماد میں اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر 42 فیصد لوگوں نے خبروں پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اس سے قبل اس طرح کے سروے میں 44 فیصد لوگوں نے میڈیا پر اعتماد ظاہر کیا تھا۔

امریکہ میں میڈیا پر اعتماد میں سب سے کم یعنی 26 فیصد کمی آئی ہے۔ اوسطاً 42 فیصد امریکیوں کا کہنا تھا کہ وہ بیشتر اوقات خبروں پر بھروسا کرتے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی اس رپورٹ میں ایک نوجوان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ”میں خاص طور پر ایسی چیزوں سے گریز کرتا ہوں جو میری بے چینی میں اضافہ کا سبب بنیں اور میری دن بھر کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کریں“ ۔ اسی طرح بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو میڈیا کو نامناسب سیاسی اثرات سے متاثر کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ ایک معمولی اقلیت کا خیال ہے کہ بیشتر میڈیا کمپنیاں سماجی قدروں اور سماج کے لیے سودمند چیزوں کو اپنے تجارتی مفادات پر ترجیح دیتی ہیں۔

بلا شبہ جیسا کے ہم نے اس رپورٹ میں دیکھا کہ مہذب معاشروں میں بھی خبروں اور ٹاک شوز میں ہونے والی سیاسی و غیر سیاسی گفتگو کے منفی اثرات کو محسوس کیا جا رہا ہے تو پھر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ اثرات کیوں نہیں عوام پر اثر انداز ہو سکتے۔ اس وقت ہم دیکھتے ہیں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے اور معاشی بد حالی اپنے آخری سرے پر ہے اس کے باوجود پاکستانی ذرائع ابلاغ عوام کو حقیقت سے آگاہی دینے کی بجائے اہل سیاست کی بیان بازیاں اور قلابازیاں پیش کر رہے ہیں۔ یعنی سیاست میں عوام کو ان کے مسائل نظر آنے چاہئیں لیکن ذرائع ابلاغ اپنی ہی راگنی میں سیاست کو تفریحی انداز میں پیش کر رہے ہیں۔

اگر ایسے میں پاکستانی سماج میں بھی روئٹرز انسٹی ٹیوٹ فار دا اسٹڈی آف جرنلزم کے سروے کی طرز پر کوئی سروے کیا جائے تو اس کی رپورٹ بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں ہو گی لیکن اس میں اس بات کا اضافہ ضرور ہو گا کہ پاکستانی سماج میں مین سٹریم میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا کا الم غلم کو خبر کے طور پر لیا جاتا ہے، یعنی پاکستانی سماج کا یہ تیسرا بڑا المیہ ہے کہ یہاں کے عوام سوشل میڈیا پر نظر آنے والی معلومات کو مستند سمجھتے ہیں اور اسے بغیر کسی تحقیق کے آگے سے آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں اس کے برعکس مین سٹریم میڈیا کی خبروں کو نہ صرف بے وزن قرار دیتے ہیں بلکہ اسے لفافہ جرنلزم بھی کہتے ہیں۔ لیکن پاکستانی سماج کا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں تحقیق کا فقدان اور تنقیدی رجحان میں کمی پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سماج میں کبھی بھی اس طرح کے عمومی نوعیت کے سروے نہیں دیکھے گئے جو سوشل پالیسی بنانے کے لئے معاون و مدد گار ثابت ہوتے ہوں۔

بہرکیف ہم گزشتہ سات دہائیوں سے بغیر کسی مشاہدے اور سروے کے تجربے کے بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں۔ ملک کے مسائل کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھ رہے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری شدت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ملکی سیاست بھی پھل پھول رہی ہے اور سیاستدانوں کی سیاست کو گویا ایک ایسی زرخیز زمین دستیاب ہے جہاں ہر روز نئی فصل اگائی جا سکتی ہے اور کاٹی جا سکتی ہے۔ یعنی پاکستانی سماج میں مسائل کے انبار سیاستدانوں کی سیاست کو ایندھن فراہم کرتے ہیں جبکہ عوام ان مسائل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ اگر پاکستانی سماج میں سیاسی چلن کو ایک لائن میں بیان کیا جائے تو یہ ”یہاں سیاست جھوٹی ہے اور مسائل حقیقی ہیں“ ۔ آخر میں برصغیر کے عظیم شاعر کلیم عاجز کا یہ شعر میرے اس عرضیے کی بھرپور انداز میں ترجمانی کرتا ہے۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments