نواب آف آرکوٹ : جس نے 77 سال کی عمر میں انگریز کے لئے فرانسیسیوں کے خلاف جنگ میں جان دی


نیلور جہاں صدیوں سے ایک روٹی میلہ بھی لگتا ہے۔ 1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

ہم آندھرا پردیش کے آخری بڑے شہر نیلور سے گزر رہے۔ اس علاقے کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے معلوم ہوا کہ نوابز آف آرکوٹ نے ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصے تک اس علاقے پر حکومت کی۔ آرکوٹ اب تامل ناڈو کا ایک اہم شہر ہے۔ اس قصبے کے نام کی وجہ سے وہ نواب آف آر کوٹ کہلاتے تھے۔ کچھ کتابوں میں نواب آف کرناٹک بھی کہا گیا۔

اب سورج بھی طلوع ہو رہا تھا اور روشنی بھی ہو رہی تھی۔ طلوع آفتاب کا منظر ہمیشہ ہی دل کو بھاتا ہے۔ میں چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے کھڑکی کے پاس بیٹھ کر علاقے کا نظارہ کر تا رہا اور دل میں یہ سوچتا رہا کہ صرف چند ہزار سپاہیوں کے ہمراہ اس قدر دور دراز علاقے میں آ کر دو صدیوں تک حکومت کرنا کوئی آسان بات نہ تھی۔ اس میں جہاں مسلمان حکمرانوں کی فوجی طاقت کا کمال ہے وہیں مقامی لوگوں کے ساتھ ان کے حسن سلوک نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہو گا۔ تبھی تو اتنے طویل عرصے تک ان کے خلاف کوئی بغاوت نہیں ہوئی۔

مجھے اس بات پر پہلے بھی یقین تھا اور اس سفر نے اس یقین کو مزید مستحکم کر دیا کہ جو کچھ آپ سیاحت میں سیکھ سکتے ہیں وہ کسی اور طریقے سے سیکھا نہیں جا سکتا۔ ہندوستان کی جو تاریخ میں نے پڑھی ہے اس میں مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے کبھی نواب آف آرکوٹ سے متعلق کچھ پڑھا ہو، جنھوں نے 1687 ء میں ایک دور دراز علاقے میں اپنی ریاست قائم کی ہو اور پھر اس کا حیدرآباد کی ریاست سے الحاق کیا ہو۔ تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس سلطنت کے ایک نواب نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کی نیت سے آنے والے فرانسیسی لوگوں کے خلاف انگریزوں کی طرف سے لڑتے ہوئے میدان جنگ میں شہادت حاصل کی۔

یہ بات ہم میں سے بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو آرکوٹ کی ریاست کے بارے کچھ بتاؤں، نیلور شہر کی تاریخ اور اس کی موجودہ صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس شہر سے متعلق بھی کچھ باتیں آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں۔

نیلور بھارت کا چوتھا گنجان آباد شہر

نیلور آندھرا پردیش کا ایک اہم شہر ہے جو تامل ناڈو کی سرحد پر واقع ہے۔ دہلی سے اس کا فاصلہ 2038 کلو میٹر ہے ( خنجراب بارڈر سے کراچی کا فاصلہ 22 سو کلومیٹر ہے اس سے آپ دہلی اور نیلور کے درمیانی فاصلہ کا اندازہ کر سکتے ہیں ) ۔ اس سے آپ کو اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ مغل حکمرانوں نے جنوب میں بھی اپنی سلطنت کو دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ وسیع کیا ہوا تھا۔

یہ بھارت کا چوتھا گنجان آباد شہر ہے۔ اس علاقے کی 65 فیصد آبادی شہر میں رہتی ہے۔ انگریزوں نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں اس علاقے کی مختلف ریاستوں پر قبضہ کر کے ان سب کو مدراس ریذیڈنسی کا حصہ بنا دیا۔ ایسے علاقے جو انگریز لڑ کر حاصل کرتے تھے وہ انھیں برٹش انڈیا کا نام دیتے تھے۔ وہ ایسے علاقوں میں میونسپل کمیٹی بناتے تھے جو شہری معاملات کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے سکول اور کالجز کا نظام بھی قائم کرتے تھے۔ اسی طرح انھوں نے 1866 ء میں نیلور میں بھی میونسپل کمیٹی کا آغاز کیا۔ یہ علاقہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ یہاں پانچ لاکھ کی آبادی والے شہر میں ایک لاکھ مسلمان رہتے ہیں جن میں سے اکثر کی زبان اردو ہے۔

یہاں پر ایک درگاہ ہے جسے بڑا شہید درگاہ کہا جاتا ہے۔ اس جگہ پر بارہ قبریں ہیں۔ جنھیں شہیدوں کی قبریں کہا جاتا ہے۔ میں نے پوری کوشش کی کہ یہ جان سکوں کہ یہ شہید کون تھے؟ لیکن مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ اس درگاہ پر ایک بہت بڑا سالانہ میلہ لگتا ہے۔ اس میلے کا نام ”روٹیوں کی عید ہے“ ۔ یہ بڑا دلچسپ نام ہے۔

جب میں نے یہ جاننا چاہا تو پتہ چلا کہ اس موقع پر لوگ اپنے گھروں سے پکی ہوئی روٹیاں لا کر ایک دوسرے سے روٹی کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ایک پرانی روایت کو اب تک نبھا رہے ہیں۔ یہ کس نے شروع کی، کب کی کیوں کی، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ میرے خیال میں جس نے بھی اس روایت کو شروع کیا ہو گا اس نے یہ چا ہا ہو گا کہ لوگ ایک دوسرے کو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ دیں اور اب تک یہ روایت برقرار ہے۔ اب تک اس علاقے کے جن شہروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ان میں مسلمانوں کی تعداد دس فیصد کے قریب ہے لیکن نیلور میں مسلمانوں کی تعداد بیس فیصد کے قریب ہے جو اس شہر کی انفرادی خصوصیت محسوس ہوتی ہے۔

اس شہر سے ایک بڑا تاریخی واقعہ بھی منسوب ہے۔ آندھرا پردیش بھارت کی وہ پہلی اسٹیٹ ہے جو زبان کی بنیاد پر بنائی گئی۔ تقسیم ہند کے فوراً ًبعد تیلگو زبان بولنے والوں نے اپنے لیے ایک الگ اسٹیٹ کا مطالبہ کر دیا تھا۔ اس مقصد کے لیے تحریک چلائی گئی اور ایک صاحب جن کا نام پوٹی سریرا ملا تھا، نے اپنے مطالبات کے حق میں بھوک ہڑتال کردی۔ انھوں نے 56 دن تک بھوک ہڑتال کی۔ اس بھوک ہڑتال کے نتیجے میں دسمبر 1952 ء میں ان کی موت واقع ہو گئی۔ اس ہلاکت سے ایک الگ اسٹیٹ بنانے کی تحریک نے مزید زور پکڑا اور بالآخر 1956 ء میں آندھرا پردیش کی اسٹیٹ بنائی گئی۔ اس بھوک ہڑتال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس بھوک ہڑتال نے بھارت کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ پوٹی صاحب کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔ اس تاریخی واقع نے نیلور کو بھی ایک تاریخی شہر بنا دیا۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب مغلوں نے دکن کو فتح کیا تو اس وقت یہاں پر پہلے سے پانچ مسلمان ریاستیں موجود تھیں۔ پانچ ریاستوں میں ایک ریاست کا نام گولکنڈہ بھی ہے، جس میں نیلور کا علاقہ بھی شامل تھا۔ عالمگیر نے جب ان ریاستوں کو ختم کیا اور اس علاقے پر اپنا قبضہ کیا تو اس نے مختلف علاقوں میں اپنے گورنر مقرر کیے۔ ان گورنروں نے نظام چلانے کے لیے اپنے معاون صوبیدار تعینات کیے۔ جیسے ہی مغل حکومت کمزور ہوئی تو ان لوگوں نے مغل حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اپنی ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ حیدرآباد کی ریاست بھی اسی طرح قائم ہوئی۔

ذوالفقار علی خاں اور ان کے والد نے دکن کی فتوحات میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس پر خوش ہو کر عالمگیر نے ذوالفقار علی خاں کو آرکوٹ جو کرناٹک میں واقع تھا کا صوبیدار بنا دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ریاست حیدرآباد کے ماتحت بھی تھے۔ یہ سلسلہ پچاس سال سے بھی زائد عرصہ تک اسی طرح چلتا رہا۔ جب 1744 ء میں جب مغل حکومت کمزور پڑی تو ان لوگوں نے ریاست حیدرآباد سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایک خودمختار ریاست بنانے کا فیصلہ کر لیا۔

آرکوٹ میں رہنے کی وجہ سے یہ لوگ نواب آف آرکوٹ کہلانے لگے، آف انگریزی کا لفظ ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ ان لوگوں پر انگریزوں کے اثرات آنا شروع ہو گئے تھے۔ چند سال ایک خودمختار ریاست کے طور پر رہنے کے بعد 1749 ء میں انھوں نے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ الحاق کر لیا اور ایک وفادار ساتھی کی حیثیت سے انگریزوں کو بے حد مالی اور فوجی امداد فراہم کی۔ اس کے بدلے انگریزوں نے ان کی سلطنت کو وسیع کرنے میں ان کی معاونت کی۔

اس طرح دونوں نے مل کر پورے کرناٹک پر قبضہ کر لیا۔ اسی وجہ سے انھیں نواب آف کرناٹک بھی کہا جاتا ہے۔ اسی دوران فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ میرے لیے بھی ایک نئی بات تھی کہ فرانسیسی لوگوں نے بھی ہندوستان پر قبضہ کے لیے جو تجارت سے شروع ہو کر قبضہ تک جاتا تھا، فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی ہوئی تھی، جس طرح انگریزوں نے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی تھی۔

کام بھی ایک جیسا اور نام بھی ایک جیسے، کیا حسن اتفاق ہے!

انگریزوں اور فرانسیسیوں میں کئی جنگیں بھی ہوئیں جن کا مقصد ہندوستان کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرنا تھا۔ ریاست حیدر آباد کی طرح آرکوٹ کے حکمرانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ کسی وجہ سے نواب آف آر کوٹ کو انگریزوں سے ایک بڑی رقم سود پر لینی پڑی جو اتنی بڑی تھی کہ جس کی ادائیگی ممکن نہ تھی۔ اس کے بدلے وہ انگریزوں کی خاطر فرانسیسی لوگوں سے لڑائی کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک لڑائی میں نواب آف آرکوٹ محمد انوار الدین 77 سال کی عمر میں شہید ہو گئے۔

اس کا یہ قدم دو بڑے غیر ملکیوں میں سے ایک کی مدد لے کر دوسرے کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے تھا۔ فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی کو شکست ہوئی اور ان کو شکست سے دو چار کرنے میں نواب آف آرکوٹ کا بہت بڑا عمل دخل تھا۔ فرانسیسیوں کی شکست کے بعد انگریز مزید طاقتور ہو گئے اور اب ہندوستان پر قبضہ کرنا ان کے لیے مزید آسان ہو گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ اب تک اپنے آپ کو پرنس ہی کہلواتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ ایک تاریخ ہے۔ ایک کے بعد دوسرا پرنس بنایا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت بھی ان کو مکمل پروٹوکول دیتی ہے۔ پروٹوکول کی ترتیب میں پرنس آف آرکوٹ کا پندرہواں نمبر ہے۔ یہ لوگ اپنا سلسلہ نسب حضرت عمر فاروق سے جوڑتے ہیں۔ چند سال قبل ہمارے وزیر خارجہ خورشید قصوری صاحب نے چنائی میں رہائش پذیر موجودہ پرنس نواب عبدالعلی خان کے ساتھ ملاقات بھی کی تھی۔

ریاست ہو یا نا ہو پرنس تو ہو ہی سکتا ہے!

اس ریاست نے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کو بہت زیادہ سپورٹ دی جس کی وجہ سے وہ جنوبی ہندوستان کے مختلف علاقوں پر قابض ہوئے انھوں نے ریاست میسور سمیت کئی دیگر مراٹھا ریاستوں کو بھی نیست و نابود کیا۔ تاریخ پڑھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ریاستیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ تھیں اور کچھ ریاستوں کے تعلقات فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ تھے۔ دونوں ممالک اس وقت یورپ میں بھی حالت جنگ میں تھے اور یہاں بھی آ کر انھوں نے ہندوستانی لوگوں کو اپنی فوج میں بھرتی کر کے جنگ کی۔ یہ ان کی جنگ تھی جو ہم نے لڑی۔ ایسا ہی حال پاکستان میں ہوا جہاں ہم لوگوں نے امریکہ کی جنگ افغانستان میں لڑی۔

فرانس کمزور تھا وہ واپس چلا گیا دوسرا سیانا اور طاقتور تھا، اس نے پہلے جنوبی ہندوستان پر قبضہ کیا اور پھر وہ شمال کی طرف آ گیا۔ بالآخر وہ ہندوستان کا حکمران بن بیٹھا، یہ تھا انگریز صاحب بہادر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments