کراچی کے مال میں مردوں کے واش روم ایریا میں ڈائپر چینجنگ روم: بچے کا ڈائپر بدلنا کیا صرف ماں کا کام ہے؟

تابندہ کوکب - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


ڈائپر
ہمارے ہاں پہلا بچہ ہونے والا تھا، میرے شوہر خوش تھے انھوں نے کہا ’دیکھو میں اپنے بچے کا ہر کام کروں گا، تمہاری بھی خدمت کروں گا بس مجھے ڈائپر بدلنے کو نہ کہنا‘ چونکہ بچہ آپریشن سے ہوا تھا اس لیے میرا زیادہ اٹھنا بیٹھا تکلیف دیتا تھا، تیسرے دن میرے شوہر نے قدرے لجاہت سے اجازت طلب کی ’بے بی کا ڈائپر میں بدل دوں؟‘

وہ دن اور آج کا دن میں کسی شادی یا فنکشن کے لیے تیار ہوں یا فینسی کپڑے اور اونچے جوتے پہنے ہوئے ہوں تو میرے شوہر نے کبھی مجھے بچے کا ڈائپر بدلنے کے لیے پریشان نہیں ہونے دیا۔ اس کے علاوہ کوئی ایسی جگہ جہاں مرد زیادہ ہوں یا دورانِ سفر اجنبی جگہ ہو تو وہ بچوں کو خود ہی باتھ روم لے جاتے اور ڈائپر بدل دیتے ہیں۔

ذاتی تجرنے کی بنیاد پر میرا خیال تھا کہ شاید ہر مرد ہی ایسا ہوتا ہو گا لیکن فیس بک پر حال ہی میں پوسٹ کیے جانے والے ایک اشتہار میں بچے کا ڈائپر بدلتے مرد کی تصویر نے جہاں خوشگوار احساس دلایا تو وہیں اس کے نیچے بعض لوگوں کے کمنٹس نے حیرت میں بھی مبتلا کر دیا۔ کچھ لوگ اس پر سخت نالاں اور معترض نظر آئے۔

یہ اشتہار کراچی کے ایک شاپنگ مال میں مردوں کے واش روم ایریا کے قریب ڈائیپر چینجنگ روم کا تھا جس کی تصویر پر ایک مرد کو بچے کا ڈائپر بدلتے دکھایا گیا تھا۔

’چاہتے ہیں کہ اسے ٹیبو نہ سمجھا جائے‘

یہ اشتہار کراچی کے ڈولمن مال میں لگایا گیا ہے اور اسے ڈیزائن کرنے والے عزیر چوہدری اور ان کی ٹیم کا مقصد تھا کہ وہ مردوں میں اولاد کی پرورش کی ذمہ داری کو اجاگر کریں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ’بیرون ملک تو یہ بہت عام بات ہے لیکن پاکستان میں ایسی کوئی جگہ نہیں۔ یہاں مرد یا تو چپکے سے جا کر ڈائپر تبدیل کرتے ہیں یا گاڑیوں میں جا کر کر لیتے ہیں۔ اسے ٹیبو (ممنوع) سمجھا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’نئی نسل کے لوگ تو اب یہ کر لیتے ہیں لیکن اب بھی اسے عوامی طور پر کرنے میں جھجھک ہے لیکن اس سہولت سے ہمارا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اسے ممنوع نہ سمجھا جائے اور ہم نے اسے اسی لیے ’فادرز ڈے‘ پر لانچ کیا تاکہ لوگوں کو پتا چلے کے باپ کی ایک اور ذمہ داری بھی ہے۔‘

عزیر چوہدری کا کہنا تھا کہ ’اس کمرے میں سہولیات دی گئی ہیں، یہاں صفائی ستھرائی کا خیال رکھا گیا ہے، یہاں ڈسپوزبل شیٹش ہیں، ہاتھ دھونے کی جگہ اور ڈسٹ بن اور میز ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں خواتین کے لیے تو پہلے سے ایسے کمرے موجود تھے تاہم کئی باپ اکیلے آتے تھے اور انھیں اس سہولت کی ضرورت تھی۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ تصویر میں موجود شخص ماڈل ہے یا اصلی والد تو کا کہنا تھا کہ ’اس تصویر میں موجود شخص بچے کا اصلی والد ہیں اور مقصد تھا کہ لوگوں کو یہ کر کے دکھایا جائے۔‘

بی بی سی نے ایسے چند والدین سے بات کی ہے، جن کے بچے چھوٹے ہیں اور ڈائپر استعمال کرتے ہیں۔

احمد شاہ کی ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں اور وہ پاکستانی فوج میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں بچوں کی پیدائش پر چھٹی جاتا ہوں تو بیگم کی ہر ممکن مدد کرتا ہوں۔ بیٹی بڑی ہے اور اس کی عمر چار سال ہے جبکہ بیٹے دونوں چھوٹے ہیں۔ ابھی چھوٹے بیٹے کی پیدائش پر اپریل میں ڈیڑھ ماہ کی چھٹی کے بعد واپس آیا ہوں اور اس عرصے میں بچوں کے ڈائپر خود بدلتا رہا ہوں، یہ تو میرا فرض ہے۔‘

حمزہ قدیر ایک آئی ٹی پروفیشنل ہیں اور ان کی ایک دو سال کی بیٹی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بچوں کی پرورش میں بیوی کی مدد کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ میں گھر پر بھی بیٹی کا ڈائپر تبدیل کرتا ہوں، جب وہ کچن میں مصروف ہو یا کپڑے دھو رہی ہوں تو اور مجھے عوامی مقام پر بھی یہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی۔‘

لیکن بہت سے مرد ایسے بھی ہیں جو اپنے بچے کے ڈائپر تبدیل کرنے کو شاید معیوب سمجھتے ہیں۔

میں نے اسلام آباد میں اپنا کاروبارہ کرنے والے اور حال ہی میں باپ بننے والے حمزہ عباسی سے پوچھا کہ کیا عوامی مقامات پر وہ اپنے بچے کا ڈائپر بدل لیں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ ہرگز نہیں کروں گا کیونکہ یہ میں نے کبھی نہیں کیا۔ میرا بچہ انتظار کر لے گا لیکن میں یہ نہیں کروں گا۔‘

انھوں نے اس کی کوئی خاص وجہ نہیں بتائی تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔

سوشل میڈیا ردعمل

فیس بک کے ایک پبلک گروپ میں یہ پوسٹ اسی لیے کی گئی تھی کہ اس اقدام کی تعریف کی جائے اور متعدد سوشل میڈیا صارفین نے اس پر ویسا ہی رد عمل بھی دیا۔

آنسہ مسرت کا کہنا تھا کہ ’میرے ساتھ تو ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ایسے مرد ہوتے ہیں جو یہ کام بھی کرتے ہیں اور باشعور و تعلیم یافتہ لوگ ایسا کرتے ہیں ، اس میں کوی قباحت نہیں اور نہ ہی کوی توہین والی بات ہے، اگر کوئی متبادل موجود نہیں تو بجائے اس کے کہ بچہ گندا رہے اور ریشز ہو جائیں تو والد کو یہ کام کر لینا چاہیے۔‘

ایک خاتون نے حیران ہو کر پوچھا کہ مردوں کے حصے میں کیوں بنایا ہے، خواتین کے حصے میں کیوں نہیں؟

انھیں جواب دیتے ہوئے اقصیٰ وسیم کا کہنا تھا کہ ’باپ کو بھی بچوں کی پرورش میں ماؤں کی طرح ہی برابر کردار ادا کرنا چاہیے۔ ڈائپر بدلنا صرف ماؤں تک محدود نہیں ہونا چاہیے اور سنگل فادرز کے لیے بھی یہ ایک اہم ضرورت ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ یہ بہت اچھا ہے لیکن مجھے خوف ہے کہ بہت سے مرد عوامی مقامات پر دوسرے مردوں کی نظروں کی وجہ سے ایسا کرنے سے گریز کریں گے۔‘

ایک اور صارف مائدہ کا کہنا تھا کہ ’آخر کار، یہ ایک بہت اچھا اقدام ہے۔ باپ کو بھی ڈائپر بدلنے کا ذمہ دار ہونا چاہیے، آخر کو یہ ان کا بھی بچہ ہے۔ یہ بہت مزاحیہ ہے کہ بہت سے مرد اور عورتیں اس پوسٹ سے مشتعل ہوئے ہیں۔‘

ایک صارف احسن حسین کا کلنا تھا ’کراچی ائیرپورٹ پر بچوں کا ڈایپر بدلنے کے لیے مردوں کے لیے ایک مخصوص کمرہ پہلے سے موجود ہے، اچھا کام کرتے رہیں لیکن یہ کوئی بڑی بات بھی نہیں۔

جہاں لوگ اس کی تعریف کرتے نظر آئے وہیں کچھ خواتین کو یہ اشتہار دلچسپ لگا کیونکہ ان کے خیال میں ان کے مرد ایسا کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

صبا فراز نامی صارف نے لکھا ’ایسے ابا بھی لا دیں جو بچے کا ڈائپر تبدیل کریں گے اور وہ بھی مال جا کر۔‘

فضہ ظفر کا کہنا تھا ’ہائے میرے میاں کبھی بھی بے بی کا ڈائپر چینج نہ کریں۔‘

ماہا نعیم کا کہنا تھا کہ ’اب شوہر بیویوں کو مال نہیں لے کر جائیں گے کیونکہ وہاں جا کر یہ سب کرنا پڑے گا۔‘

ان خواتین کے تبصروں پر لطف لیتے ہوئے ایک صارف شعیب صابر کا کہنا تھا ’اگر شوہر گھر میں ڈائپر نہیں بدلتے تو انھوں نے مال جا کر بھی نہیں بدلنا۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا ماں باپ کا کوئی لاڈلا بچہ ہوتا ہے؟ وہ راز جسے والدین سینے میں چھپائے رکھتے ہیں

ایک مثالی باپ کیسا ہوتا ہے

نسلِ انسانی میں باپ ہونے کا معمہ: باپ بچوں کا خیال کیوں رکھتا ہے؟

باپ نے 20 ’سال تک بیٹے کو پنجرے میں قید رکھا‘

اس پوسٹ اور اشتہار پر کچھ لوگ خاصا برا مناتے ہوئے نظر آئے۔

خضر حیات نامی ایک صارف کا کہنا تھا کہ ’قابل نفرت۔۔۔ صرف فیمینسٹ ( حقوق نسواں کے کارکن) بننے کے لیے وہ اس حد تک چلے گئے ہیں۔‘

ایسی ہی ایک خاتون کرن منصور نے بھی اس اشتہار کے لیے اپنی ناپسندیدگی کچھ اس طرح ظاہر کی: ’تو دونوں اصناف کو یکساں ذمہ داریاں اٹھانی چاہیے۔ ٹھیک ہے۔۔۔ تو مردوں کے لیے بھی ڈیلیوری روم ہونا چاہیے، مردوں کے لیے دودھ پلانے کا کمرے کے بارے میں کیا خیال ہے، اور کتنا لاجواب خیال ہے کہ عورتیں مزدوری کریں، کنوئیں کھودیں، اور سڑکوں پر پائپ لائنیں بچھائیں۔‘

ان کے اس کمنٹ پر کئی سوشل میڈیا صارفین ان کی سرزنش کرتے اور انپیں والدین کی ذمہ داریاں سمجھاتے دکھائی دیے۔

ایک صارف کا طنزیہ انداز میں کہنا تھا ’کبھی کسی اچھے کام کی حوصلہ افزائی نہ کرنا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments