ناطق کے کردار کی پُرسراریت ، سفید موتی کے تناظر میں


علی اکبر ناطق موجودہ دور ترقی کے ایسے عمدہ لکھاری ہیں جن کی وجہ شہرت ناول نولکھی کوٹھی ہے۔ مگر اس کے علاوہ شاعری اور افسانہ نگاری میں اپنی پہچان بنانے میں بھی سرگرداں ہیں۔ اگر بات کی جائے ان کے افسانوی کرداروں کی تو وہ زیادہ تر ایسے کرداروں کو پیش کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے ایسے کرداروں سے ہم بھی مل چکے ہیں اور شاید بچھڑ بھی چکے ہیں۔ ایسے ہی کرداروں میں سے ایک کردار کا نام منشی فضل حسین ہے جسے افسانہ بعنوان ”سفید موتی“ میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کردار کی شخصیت کو ایک ایسی پراسرار فضا کے سانچے میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے کہ افسانہ شروع ہوتے ہی تجسس کی لہر کھوج کی مہک میں تبدیل ہو کر اس کردار کی شخصیت کے راز کی تلاش میں محو جاتی ہے۔ افسانہ کے شروع میں کردار کو قارئین کے سامنے یوں پیش کیا جاتا ہے :

” وہ کھلے گراؤنڈ میں کرسی پر بیٹھا اتنا پرسکون تھا جتنا کوئی خزاں رسیدہ درخت ہو سکتا ہے“

اس جملے کو پڑھتے ہی تعجب ہوتا ہے کہ ایک ایسا کردار ہے جو زمانے کے سفاک پن کے ہاتھوں لوٹا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود وہ پرسکون ہے اور اسے اپنی حالت پر کچھ ملال نہیں۔ آخر یہ کیسا کردار ہے۔

جیسے ہی افسانہ کی کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے تجسس کی چمک میں تیزی آتی جاتی ہے۔

”ہر کوئی جانتا تھا کہ اس کے پاس ایک انڈے کے برابر سفید رنگ کا موتی ہے اور اس موتی میں ایک جن بند ہے۔ وہ جن اسے لوگوں کے راز اور غیب کی باتیں بتاتا ہے اور گیت بھی سناتا ہے۔“

انڈے کے برابر سفید رنگ کے موتی اور اس میں بند جن جیسے الفاظ سے جہاں اس کردار کی پرسراریت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی داستانوی ہیرو ہے جس کے پاس ایک جن ہے جو اس کی ہر خواہش کی تکمیل کرتا ہے۔

اس کہانی ”سفید موتی“ کا کردار منشی فضل حسین ہمیشہ سکول میں بیٹھا رہتا ہے مگر کسی کو پڑھاتا نہیں۔ جب سکول کے طلبہ فضل حسین کے بچوں سے اس سفید موتی، جو ان کے مطابق منشی فضل حسین کے پاس موجود ہے، کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو وہ ایسا جواب دیتے ہیں جس سے پراسراریت میں جہاں اضافہ ہوتا ہے وہاں اس کی شخصیت کے اسرار سے پردہ کھسکتا بھی معلوم ہوتا ہے۔

”اس کے پاس پھٹی پرانی کتابوں کا ایک ڈھیر ہے، جس میں عجیب و غریب باتیں لکھی ہیں۔ دلچسپی سے یکسر خالی، مکمل نہ سمجھ آنے والی۔ بڑے بیٹے کا کہنا تھا سفید موتی ان کتابوں میں کہیں چھپا کر رکھا ہو تو اور بات ہے۔ ورنہ پورے گھر میں موجود نہیں۔“

سفید موتی کی حقیقت اور اس کے اصل رمز سے شناسائی کی لہر اس وقت بیدار ہوتی ہے جب ایک طالب علم منشی فضل حسین سے سفید موتی کے متعلق سوال کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ موتی کہاں ہے؟ منشی صاحب یوں جواب دیتے ہیں۔

”استاد جی لڑکے کہتے ہیں آپ کے پاس انڈے برابر موتی ہے۔ ہاں بیٹا وہ ٹھیک کہتے ہیں میرے پاس موتی ہے، لیکن یہاں کوئی اس کے دیکھنے کا اہل نہیں۔“

فضل حسین کے جواب سے جہاں اصل راز سے پردہ اٹھنا شروع ہوتا ہے وہاں حیرت بھی ہوتی ہے کہ موتی میں ایسا کیا راز ہے جس کی بدولت لوگ اس کو دیکھنے کے اہل نہیں۔

فضل حسین ایک طالب علم جو فضل حسین کے دوست کا بیٹا ہوتا ہے اسے پڑھانے کی ذمہ داری لیتا ہے اور اسے اپنے ساتھ پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھ کر پڑھانا شروع کرتا ہے۔ مگر اس سادہ واقعہ کو ایسے طلسماتی الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ افسانہ کے کردار پر داستانوی ہیرو کا شک گہرا ہوتا جاتا ہے۔

”اس جگہ کو پہچان لو۔ روزانہ میں تمہیں یہیں تین گھنٹے تک کچھ منتر پڑھاؤں گا۔ جب تک تم یاد نہیں کر لیتے، میں وہ سفید موتی تم کو نہیں دکھا سکتا۔“

منشی فضل حسین کے طالب علم کو پہلے دو منتر پڑھنے کے ساتھ ہی اس کی شخصیت پر چھائی طلسماتی دھند چھٹنے لگتی ہے۔ جملہ ملاحظہ فرمائیے :

”دو منتر وہیں بیٹھے بیٹھے یاد بھی کرا دیے۔ اس کا نام اس نے مجھے امیر خسرو کی پہیلیاں بتایا تھا۔“

قدرتی مناظر کی خوبصورتی کے رموز کو فضل حسین جس طرح بیان کرتا ہے، اس سے اس کی شخصیت پر پڑے وہ سارے پردے، جو اس کی شخصیت کو پراسرار بنا رہے تھے، اٹھ جاتے ہیں اور ایک ایسا کردار ابھرتا ہے جسے حقیقی معنوں میں استاد کہا جاتا ہے۔

”اس پھول کی پتیوں کے اندر جو یہ نیلے نیلے اور گلابی ریشے نظر آتے ہیں یہ اصل میں خدا کی نرم روحیں ہیں اور یہ جو ہلکی ہلکی خوشبو سونگھ رہے ہو، جسے تم دیکھ نہیں سکتے، یہ خدا ہے۔ یہی وجہ ہے جو انسان جتنے زیادہ پھول اور درخت لگاتا ہے، اللہ میاں اس سے اتنا ہی خوش ہوتا ہے اور اسے بڑے بڑے سفید موتی دیتا ہے۔“

منشی صاحب نہ صرف طالب علم پر ایسا جادو کر دیتا ہے جو طالب علم کے لئے ان موتیوں سے محبت کا باعث بنتا ہے جو کتابوں کی نگری میں جابجا بکھرے ہوتے ہیں بلکہ اس گر کے رمز کو بھی طالب علم پر عیاں کر دینے کے ہنر کو جانتا ہے، جو کتب نگری میں بکھرے موتیوں کے چننے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بغیر موتیوں کو چننا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن۔

طالب علم کا بیان دیکھئے :

”دن کیا رات کیا، میں منتر پڑھتے تھکتا نہیں تھا۔ ایسی ہڑک لگی کہ بعض دفع ساری ساری رات جاگتا اور جادو کے ملکوں کی سیر کرتا۔ الف لیلہ، امیر حمزہ کا عمرو عیار، سامری جادوگر اور قصہ چہار درویش، طوطا کہانی، قصہ حاتم طائی، مثنوی سحر البیان اور زہر عشق کے منتروں نے وہ رونق پیدا کی اور ایسے سفید موتی دیکھا دیے کہ ان کے آگے منشی جی کے موتی کی کچھ حیثیت نہ رہی۔“

المختصر سفید موتی استعارہ ہے علم کا۔ اور فضل حسین کی شخصیت کا رمزیہ ہے کہ وہ نہ صرف عالم ہے بلکہ حقیقی معنوں میں ایک ایسا استاد بھی ہے جو نہ صرف طلبہ کو علم سے مالا مال کرتا ہے اور قدرتی رموز سے آشنا کرتا ہے بلکہ ان کے اندر علم کی سچی تڑپ پیدا کرتے ہوئے انہیں اس راستے سے آگاہ بھی کرتا ہے جس کا ذرہ ذرہ انہیں ان کی تڑپ کی گہرائی کو علم سے پر کرنے کے ہنر سے اٹا ہوا ہے۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 65 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments