والدین ہمارے دشمن


Loading

ویسے تو کہنے اور سننے کو یہ بات ہم سب کے لیے ہی نا قابل برداشت ہے۔ اسی لیے اس آرٹیکل کا عنوان نہایت ناگوار گزرے بہت سے لوگوں کو! کیونکہ ہمارے ہاں ادب کے کچھ معیار ہیں جن میں سے ایک اپنے بڑوں کے سامنے رائے کا اظہار نا کرنا ہے۔ اظہار تو دور کی بات ان کی رائے اور فیصلے کے خلاف کوئی رائے رکھنا بھی بے ادبی مانا جاتا ہے۔ چاہے ماں باپ کے یہ فیصلے بچوں کے ہمسفر چننے سے متعلق ہوں یا ان کے کیریئر کے انتخاب سے متعلق ہوں، ان فیصلوں کے نتائج کی پروا کیے بغیر ماں باپ کمان کو پوری طرح اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اور ہم بھی سر تسلیم خم ہیں۔ بھلا کون بے وقوف اس فانی دنیا کی عارضی خوشیوں کے پیچھے اپنی آخرت برباد کرنا چاہے گا! اسی لیے ہم میں سے اکثریت زندگی بھر کے پچھتاوے تو قبول کر لیتے ہیں لیکن بروقت لڑی جانے والی لڑائی نہیں لڑ پاتے۔

یہ درست ہے کہ والدین کے ہم پر بہت سے احسان ہیں خصوصاً برصغیر کے والدین کی زندگیوں کا محور صرف اور صرف ان کی اولاد ہوتی ہے۔ اس خطے کے والدین آخری دم تک اپنی اولاد کی مالی اور ہر دوسرے لحاظ سے مدد کرنے اور ان کو پڑھانے اور کامیاب ہونے کے جذبے سے لبریز ہیں۔ لیکن اس کامیابی کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا ہے اس کا حق والدین بچوں کو دینے کے لیے تیار نہیں۔

پوری کی پوری سوسائٹی خاندانی نظام اور ”گھر“ کے ادارے کے گرد گھومتی ہے۔ حتیٰ کہ بہت سے جوڑے صرف بچوں کی خواہش لئے شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں۔ اولاد ہی ان کا کل سرمایہ ہوتے ہیں۔ اور بچوں کی پیدائش کے بعد ان کا تمام وقت، اپنی تمام زندگی بچوں کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ماں باپ اولاد کو اپنی محبتوں کی مقروض سمجھتی ہے۔ اور غیر فطری طور پر ان کی اپنی اولاد سے بے شمار توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس قدر محبت ملنے اور اس قدر مضبوط خاندانی نظام کے دعووں کے باوجود ہر انسان خصوصاً نوجوان کسی نا کسی ذہنی کشمکش میں دکھائی دیتے ہیں۔ اور ہمارا شمار دنیا کی ناخوش اوام کی فہرست میں سر فہرست ہوتا ہے۔ آپ جس سے بھی بات کر لیں ان کے پاس سنانے کو ایک کہانی ہو گی جس میں کسی نا کسی طرح ان کے بڑوں کی دخل اندازی اور فیصلوں سے ان کے ارمانوں کا خون ہوا ہے اور خواہشات کا سر کچلا گیا ہے۔ اس طرح وہ اپنی پوری زندگی ایک صدمے کا شکار رہے ہوں گے۔

لوگ اپنی ذات سے نا امید ہو کر خود سے نفرت کرنا تو گوارا کر رہے ہیں لیکن بے ادبی کے احساس ندامت اور معاشرے کی پھٹکار سے بچنے کے لیے اپنے آپ کو بہت ہی ابتدائی عمر میں مار ڈالتے ہیں۔ ایک بچے کا آپ کی گود میں ہونا، آپ کے ہاتھوں پروان چڑھنا کائنات کی طرف سے ایک نعمت اور آپ کو سونپی جانے والی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری ہے۔ اس لیے اس کام کو جتنا بھی احتیاط اور مہارت کے ساتھ سر انجام دیا جائے کم ہے۔ لیکن ہمارے ہاں بچے کی پرورش اور نگہداشت کو اس قدر غیر سنجیدگی اور عمومیت میں لیا جاتا کہ جس بھی انسان کے پاس کرنے کو کچھ نا ہو اور اسے شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کے مشورے دیے جاتے ہیں۔

ماہر نفسیات کے مطابق مختلف پیرنٹنگ سٹائل کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ کیسے بچوں کی شخصیت سازی کرتے ہیں یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گیں۔ کہ کیسے منہ سے نکلا کوئی بے معنی جملہ اور لفظ بچوں کی ذہنوں پر نقش ہوجاتا ہے اور ان کی کردار سازی میں کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا ہر روز ایک نیا موڑ لے رہی ہے ہر لحاظ سے چاہے وہ ٹیکنالوجی ہو، معیشت ہو یا رشتوں کے محرکات! تو ایسے میں ایک پرانے اصول پر پیرا عمل رہنا کہ ”بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نگاہ سے“ پر قائم رہنا بچوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔

کیوں کہ بچوں کا اپنی ذات کے لیے وہی خیال ہو گا جو آپ ان کو محسوس کروائیں گے۔ ہمارے دیسی پیرنٹنگ سٹائل میں بچوں کی تعریف کرنا ان کو بگاڑنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے اسی لیے تمام عمر بچے احساس کمتری اور کم ہمتی کا شکار رہتے ہیں۔ اور کبھی بھی خود پر فخر نہیں کر پاتے نا ہی اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کو زیادتی سمجھ پاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ نرگسیت کے شکار والدین اپنی خواہشات کو اپنے بچوں کی صورت پورا کرنے کی خاطر معاشرے کو ایسے فرد دے دیتے ہیں جو مقابلے کی دوڑ میں تو سب سے آ گے رہتے ہیں لیکن ہمدردی اور انسانیت سے خالی ہی رہتے ہیں۔ یوں کڑواہٹ اور محرومیت کا یہ چکر نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ مانا کہ ماں کی محبت باپ کی شفقت قدرتی جذبے ہیں لیکن یہ تصور کر لینا کہ ان جذبوں کے اظہار و عملداری کے لیے کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں کم عقلی ہے۔

ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں جہاں حکومت کے پاس زہر کھانے کے پیسے نا ہوں اور ان کی ترجیحات میں عوام کی فلاح آ خری ہو یہ امید رکھنا کہ وہ والدین کے لیے تربیتی کورس متعارف کروائے گی بے وقوفی ہے۔ لیکن پھر بھی سند کے لیے ہی سہی حکومت کے لیے تجویز ہے کہ وہ کم از کم نصاب میں ریلیشنشپ پر کوئی کورس یا سبجیکٹ متعارف کروائے جس میں ہر کوئی یہ سیکھ سکے کہ ایک تعلق میں اس کی حدود کیا ہیں اور دوسرے کی حدود کہاں سے شروع ہو جاتی ہیں۔

جس میں محبت کرنا سکھایا جائے اور اپنے انس والے رشتوں کو ٹاکسک یا زہریلا ہونے سے بچانا سکھایا جائے، دوسرے سے پیار کرتے کرتے اپنی ذات کو نظر انداز نا کیا جائے اور اپنے فیصلوں میں دوسرے کو کس حد تک اختیار دیا جائے۔ متوازن رشتے کیسے بنائے جائیں، اور ایک دوسرے کو تکلیف دیے بغیر اپنی موجودگی کا احساس کس طرح دلایا جائے، کسی کے استحصال اور دوسرے کی ذہنی جوڑ توڑ کیے بغیر آ گے کیسے بڑھا جا سکے۔ اگر ایک فرد اور اس کے بنائے گئے رشتے اس قدر متوازن ہوں گے تب ہی ایک معاشرہ بھی متوازن ہو سکے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments