طریقہ تدریس


صبح سویرے نیند سے زبردستی جگا کر اسکول بھیجنے پر سب بچے خوش نہی ہوتے۔ اب یہ کہا جائے کہ رات جلدی سلا دیں تو نیند پوری ہو جائے گی۔ نہیں مجھے تو لگتا ہے بچوں کی نیند پوری ہونے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہے جو بچہ جتنا تھک کر سوئے گا اسے اتنی لمبی نیند چاہیے۔

چلیے اس پر پھر کبھی بات ہوگی اس وقت موضوع گفتگو طریقہ تدریس ہے خاص کر ابتدائی کیونکہ یہ بچوں کی بنیادی تدریس ہے جہاں بچہ نہ صرف نیا بہت کچھ سیکھتا ہے وہیں سیکھنا بھی سیکھتا ہے۔

بھاری بھاری کتابوں سے بھرے بستوں کا وزن اپنی پیٹھ پر ڈھوتے یہ بچے شاید اس وزن کا ایک فیصد اپنے اندر اتار پاتے ہوں گے ۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے خوش حال گھرانوں کے بچے جنہیں کھانے پینے سے لے کر کھیلنے کودنے تک ہر چیز کی سہولت میسر ہے ان کے گھر کا ماحول پرسکون ہے۔ وہ بچے پڑھائی میں بہترین ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بچے جن کو جماعت میں بہتر تصور کیا جاتا ہے وہ ہوتے تو خوش حال گھرانوں سے ہیں لیکن کبھی بہن بھائیوں کی زیادہ تعداد یا گھر میں لڑائی جھگڑے ہونے کے باعث اپنی توجہ پوری طرح مرکوز نہیں کر پاتے اسی لئے جو کامیابیاں وہ حاصل کر سکتے ہیں نہیں کر پاتے۔

کچھ بچے مزاجاً لاپروا و لا ابالی ہوتے ہیں۔ محنت سے جی چراتے ہیں انھیں گھر پر یا تو مار پیٹ کر پڑھائی کی طرف لایا جاتا ہے یا پھر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے جس میں زیادہ تر وہ بچے کامیاب ہوتے ہیں جنہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے وہ اپنی شرارتوں میں کافی کچھ سیکھ جاتے ہیں۔

جماعت میں کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ سیکھ ہی نہیں پاتے اس میں ان کے گھر کے ماحول کا بہت ہاتھ ہوتا ہے ایسے بچے کبھی کبھی حسرتوں کا شکار ہوتے ہیں کبھی احساس کمتری کسی بھی معاملے میں یا پھر عدم تحفظ انہیں گھیرے رکھتا ہے۔ گھر کے ماحول میں اگر ہر وقت چیخ پکار الزام تراشی لڑائی جھگڑا ہوتو بچہ نادانستہ طور پر ان سب کا قصور وار اپنے آپ کو ٹھہراتا ہے۔ پھر وہ اپنے اوپر ایک حصار تان لیتا ہے جہاں اس کی صلاحیتیں اس کے جذبات سب قید ہو جاتے ہیں۔

اب چونکہ کمرہ جماعت میں ہر بچہ الگ ماحول سے آیا ہے ہر بچے کے دماغ میں اس کی اپنی دنیا ہے۔ اس کے سیکھنے کی صلاحیت ایک دوسرے سے مختلف ہے لہذا دوران تدریس اب یہ ذمہ داری استاد کی ہے کہ وہ سب کو ایک ہی طرح پڑھائیں گے یا ہر بچہ کے سیکھنے کی صلاحیت کے مطابق اسے سکھایا جائے گا۔

ہمارے یہاں سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم بہتر نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ استاد کے پاس بچوں کی تعداد زیادہ ہے دوسرا جدید طریقہ تدریس سے ناواقفیت اور سلیبس مکمل کرانے کی دوڑ نے معیار تعلیم گرا دیا ہے اسی لئے عام آدمی اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل نہی کرواتا۔ جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچے محنتی اور ذہین نہیں ہیں۔ بہت سے بچے سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر ڈاکٹرز انجینئرز بینکرز بنے ہیں اور بن رہیں ہیں۔

پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم کا معیار قدرے بہتر ہے اس کی وجہ جماعت میں بچوں کی کم تعداد، ان کو اسکول میں دیا گیا ماحول اور تربیت یافتہ اساتذہ ہیں۔ اس کے باوجود ہم ابھی تک تعلیم کے بین الاقوامی معیار تک نہی پہنچے۔

اگر کمرہ جماعت میں سب بچوں کوایک ہی انداز سے پڑھانے کے بچائے ہر بچے کے سیکھنے کی صلاحیت مطابق پڑھایا جائے تو کچھ عرصے میں تمام بچوں کا معیار قریباً ایک ہو جائے گا یا کم از کم کوئی بچہ پیچھے نہیں رہے گا۔ جماعت میں تین سے چار گروہ بنا دیے جائیں ان کی صلاحیت کے مطابق اور پھر آپ اس گروہ کو جماعت میں دیا گیا ہدف ان کی صلاحیت کے عین مطابق سکھائیے۔ ہر مرتبہ یہ ہی طریقہ اپناتے ہوئے بچے کو ٹاسک دیجئے جنہیں سیکھنے میں دقت پیش آتی ہے انہیں مدد کے لئے مواد مہیا کیجئے۔ تاکہ کمرہ جماعت میں وہ بچے بھی اپنی جماعت کے باقی بچوں کے ساتھ کچھ سیکھ سکیں انہیں اعتماد دیجئیے ان کی حوصلہ افزائی کیجئیے۔

ہمارے ملک میں جس تیزی کے ساتھ ٹیوشن سینٹرز کی بھرمار ہو رہی ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ابتدائی دور میں ہم بچے کی سیکھنے کی صلاحیت ہی ختم کر دیتے ہیں اپنا ممکنہ نتیجہ لینے کے لئے ہم ان ہی بچوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں جن ہمیں فوراً جواب دیتے ہیں اور جلدی کام کر کے دکھاتے ہیں۔ یہی بچے آگے نکل جاتے ہیں اور جو پیچھے رہ جاتے ہیں انہیں ہمیشہ ہی پیچھے رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے آگے جاکر ٹیوشن سینٹرز یا ٹیوشن ٹیچرز کے روزگار کا باعث بنتے ہیں۔ پوری کی پوری پوت ضائع ہوجاتی ہے صرف پرائمری اساتذہ کی لاپروائی کی وجہ سے۔

اس سلسلے میں ماں باپ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے بچے کے اسکول میں گزارے وقت کی خبر رکھیں اور اس کے استاد سے رابطہ رکھیں۔

اس وقت اساتذہ پر بھاری ذمہ داری ہے ان کے ہاتھ میں قوم کا مستقبل ہے انہیں اپنی محنت سے بچے کا دماغ کی گرہیں کھولنا ہے تاکہ وہ سیکھنا سیکھ سکیں، اس کا اعتماد اپنے اوپر بحال ہو جبھی وہ بڑے ہو کر معاشرے کا پراعتماد شہری بن سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments