رشتہ ازدواج اور معاش میں وسعت۔ ایک شدید غلط فہمی


رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا ایک بنیادی انسانی تقاضا اور مرد و زن کی باہمی ضرورت ہے۔ تاہم شادی کا مقصد صرف جنسی جبلت کی تسکین ہی نہیں بلکہ مونس و ہمدردی کے ایک رشتے کی بنیاد رکھنا ہے، جس میں میاں اور بیوی ہر قسم کے حالات میں ایک دوسرے کے رفیق اور مددگار ثابت ہوں۔ یہی وہ رشتہ ہے جو نسل انسانی کی بقاء اور اس کی پرورش کا ضامن ہے۔ تاہم کیا ہر انسان ان تقاضوں سے نبردآزما ہو سکتا ہے، جو شادی کے بعد اس پر عائد ہوتے ہیں؟

یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کو ہمارے یہاں نظر انداز کر کے، محض اپنی جبلت کی تسکین اور والدین کی آرزوؤں کی تکمیل کی خاطر انسان اپنے اوپر ایک بھاری ذمہ داری اٹھا لیتا ہے، اور بعد میں وسائل کی قلت، معاشی ناآسودگی، منصوبہ بندی کا فقدان اور نامناسب ماحول کے سبب اپنے ساتھ ساتھ اپنی شریک حیات کی زندگی کو بھی جہنم بنا لیتا ہے، اور وہ صنف نازک ایک خوشحال اور خوبصورت زندگی کے سہانے سپنے اپنی آنکھوں میں ہی بسائے دنیا سے رخصت ہوجاتی ہے۔

تاہم اس کی بنیادی وجہ ہمارا یہ عقیدہ ہے، کہ انسان جب رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتا ہے، تو اس کے بعد اس کے اوپر رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ معاشی لحاظ سے آسودہ ہوجاتا ہے۔ لہذا ہمارے یہاں گھروں اور دیگر محافل میں ہمارے بزرگ اپنے نوجوانوں کو شادی کی ترغیب دلانے کے واسطے ایک واقعہ سناتے ہیں، جس میں ایک صحابی ( جن کا نام تک معلوم نہیں ) رزق کی تنگی کی شکایت بارگاہ رسالت میں کرتے ہیں، جس پہ حکم ملتا ہے کہ شادی کرلو۔

چنانچہ وہ ارشاد کی تعمیل کرتے ہیں، مگر حالات نہیں بدلتے۔ اس پہ حکم ہوتا ہے کہ ایک اور شادی کرلو۔ غرض دوسری شادی سے بھی جب حالات نہیں بدلے، تو بموجب ارشاد تیسری اہلیہ صاحبہ گھر میں تشریف لاتی ہیں اور ان صحابی کی قسمت ایسے بدل جاتی ہے کہ وہ مالامال ہو جاتے ہیں۔ لیجیے جناب یہ ہے وہ واقعہ جس سے ہماری نئی نسل کو گمراہ کر کے مائیں اپنی سہولت کے واسطے، ایک عدد بہو گھر میں لے آتی ہیں۔ مگر اس مجہول الکیفیت واقعے کی بنیاد پر آج تک ہم نے کتنے گھروں کو جو جہنم کا نمونہ بنا ڈالا، اس پہ بات کرنے یا سننے کو تیار نہیں ہوتے۔

چنانچہ ہمیں ہوش اور احتیاط کے ساتھ اس چیز کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں نکاح کا نظریہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں جو متفق علیہ حدیث ہے وہ یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو (برائی سے ) محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور اگر کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے“ ۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں نکاح کو کیوں استطاعت سے مشروط کیا ہے، اور استطاعت سے مراد کیا ہے۔ تو استطاعت سے مراد جسمانی طاقت جس سے وہ وظیفہ زوجیت ادا کرسکے، اور دوسری مالی استطاعت ہے تاکہ وہ اہلیہ اور بچوں کے نان نفقہ کو پورا کرسکے۔ تاہم ایک انسان جو جسمانی طاقت تو رکھتا ہے، مگر مالی لحاظ سے کمزور ہے، تو اسلام اس کو نکاح کی اجازت ہرگز ہرگز نہیں دیتا۔ اور اس کا عملی نمونہ خود حیات نبوی میں موجود ہے، کہ ایک صحابیہ عورت بیوہ ہونے کے بعد بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں، اور عرض کیا کہ مجھے حضرت معاویہ نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے، آپ کیا مشورہ دیتے ہیں۔

اس پہ جواب عنایت ہوا کہ ان سے نکاح مت کرو، کیونکہ وہ غریب ہے اور تمہاری کفالت نہیں کر سکتا۔ پس ان دو واقعات سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہوتی ہے، کہ شادی اور معاشی آسودگی کا آپس میں بالکل کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خوشنما دھوکہ ہے جو ہنستے بستے گھروں کی خوشیاں اجاڑ دیتا ہے۔ اور دوسری جانب عقل اس بات کو کیسے گوارا کر سکتی ہے، کہ وہ دین جو قدم قدم پر اپنے ماننے والوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، اس کے شارح علیہ السلام ایسا حکم صادر فرمائیں جو عقل سے مخالف ہو، جبکہ خود شارح کی واضح تعلیمات اس نظریے کے برعکس ہوں۔

کیونکہ ازدواجی بندھن ایک کھیل نہیں ہے جسے جب جی چاہا، ختم کر دیا اور اس کی جگہ ایک نیا تماشا رچا لیا، بلکہ یہ دو انسانوں کی زندگی کا سوال ہے جس میں ذرا سی کوتاہی یا غفلت بہت بڑی تباہی کا موجب بن سکتی ہے، اور اس میں زیادہ نقصان بھی عورت کا ہی ہوتا ہے۔ ایک ایسا انسان جو خود ابھی تک اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا، جس کو اس رشتے کے تقاضوں کا علم نہ ہو، جو بنیادی ضروریات کے لئے والدین کا محتاج ہو، جس کو زندگی کے معنی تک نہ پتہ ہوں، اس کو ہم محض اس لئے اس رشتے میں باندھ دیں کیونکہ خاتون خانہ کو گرہستی کے کاموں کے لئے ایک معاون درکار ہے، جس کا سب سے آسان حل ایک عدد بہو ہے۔

لہذا اپنی زندگی میں آسانی لانے اور اپنے سکھ چین کی خاطر، بے روزگار اور غیر سنجیدہ مرد کی شادی اس آس پہ کردی جاتی ہے، کہ آنے والی کے قدم سے رزق بھی آ جائے گا۔ تاہم اکثر و بیشتر وہ رزق تو آتا نہیں، البتہ اس غریب اور والدین کی لاڈلی کی زندگی ضرور مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔ اور شادی کے بعد اگر وہ اس جہنم سے خلاصی حاصل بھی کرنا چاہے، تو والدین کی عزت اور معاشرتی رسوم و رواج کی خاطر وہ یہ سب کچھ برداشت کرتی چلی جاتی ہے۔ چنانچہ والدین کا یہ لازمی فرض بنتا ہے، کہ وہ اپنے دل کے ٹکڑے کو بوجھ سمجھ کر، سر سے ٹالنے کی بجائے ان کے لئے چھان پھٹک کر اچھے رشتے کا انتخاب کریں، جو اپنی شریک حیات کی خوشیوں کا خیال رکھنا جانتا ہو۔ وگرنہ بیٹی کے تنہائی میں بہتے آنسو، انسان کو قبر میں بھی بے چین رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments