انڈیا کی سب سے مالدار ریاست میں سیاسی بحران: شیو سینا کے 35 اراکین اسمبلی ہزاروں میل دور گواہٹی کے ہوٹل میں کیوں بند ہیں؟


مہاراشٹرا کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے
مہاراشٹرا کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے
انڈیا کی سب سے مالدار سمجھی جانے والی ریاست مہاراشٹرا کو ایک ایسے سیاسی بحران کا سامنا ہے جس نے ریاست میں شیو سینا کی حکومت کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔

تقریبا 35 اراکین اسمبلی، جن کی سربراہی اکناتھ شندے نامی بااثر لیکن باغی وزیر کر رہے ہیں، مہاراشٹرا سے ہزاروں کلومیٹر دور شمال مشرقی آسام ریاست کے شہر گواہٹی کے ایک ہوٹل میں بند ہوئے بیٹھے ہیں۔

حیران کُن بات یہ ہے کہ ان 35 اراکین اسمبلی کا تعلق شیو سینا جماعت سے ہے جو مہاراشٹرا ریاست پر کانگریس اور مقامی نیشنل کانگریس پارٹی (این سی پی) سے اتحاد کی شکل میں حکومت کر رہی ہے۔

اکناتھ شندے کئی دہائیوں سے شیو سینا کا حصہ ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے مفاد میں ہی یہ کام کر رہے ہیں۔ لیکن سیاسی ماہرین کے مطابق اُن کی بغاوت نے ریاستی حکومت کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔

اکناتھ شندے کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ شیو سینا سے علیحدہ نہیں ہو رہے اور اُن کے ’باغی‘ ساتھی جماعت کے بانی سربراہ بال ٹھاکرے، جو ادھو ٹھاکرے کے والد تھے، کے ہندو قوم پرست نظریات کا پرچار کرتے رہیں گے۔

ادھر شیو سینا کے سینیئر رہنما سنجے روات نے بی جے پی پر الزام عائد کیا ہے کہ اس بغاوت کے پیچھے اُن کا ہاتھ ہے اور ان کی حکومت گرانے کی کوشش کی گئی ہے۔

ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بی جے پی نے بحران کو شیو سینا کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں بی جے پی کے صدر چندراکانت پٹیل جو پہلے ہر ہفتے حکومت گر جانے کی پشین گوئی کرتے تھے اب اس معاملے پر بلکل خاموش ہیں۔

ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ واقعی شیو سینا کا اندرونی معاملہ ہے یا پھر اس بغاوت کا ریموت کنٹرول بی جے پی کے ہاتھ میں ہے؟

شیو سینا میں بغاوت کیوں اہم ہے؟

بی جے پی

مہاراشٹرا انڈیا کی بڑی ریاستوں میں شمار ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اہم بھی ہے کیوںکہ انڈیا کا معاشی دارالحکومت ممبئی یہاں موجود ہے۔ انڈیا کی فلم انڈسٹری بالی وڈ کے علاوہ یہاں ملک کی کئی بڑی انڈسٹریز بھی موجود ہیں۔

اس ریاست میں پیش آنے والے واقعات کا عام طور پر پورے ملک کی سیاست پر اثر پڑتا ہے۔

سنہ 2019 سے یہاں ایک غیر معمولی سیاسی اتحاد کی حکومت قائم ہے جس میں دائیں بازو کی شیو سینا اور کانگریس کے ساتھ نیشنل کانگریس پارٹی اور چند آزاد اراکین اسمبلی شامل ہوئے۔

اس اتحاد کی مدد سے ان جماعتوں نے حکومت قائم کرنے کے لیے 288 اراکین کی اسمبلی میں ایک 144سیٹوں کا ہدف حاصل کیا تاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جس نے سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کی تھیں، کا راستہ روکا جائے۔

سنہ 2019 کے الیکشن کے بعد جب بی جے پی نے مہاراشٹرا حکومت قائم کی تو ان کو چھ دن بعد ہی یہ اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہونا پڑا کہ ان کے پاس حکومت چلانے کے لیے اکثریت نہیں ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں شیو سینا نے بی جے پی کا ساتھ دیا ہے لیکن دائیں بازو کی دونوں جماعتوں کے درمیان یہ اتحاد شراکت اقتدار کے سوال پر پیدا ہونے والے اختلافات کے باعث قائم نہیں رہ سکا۔ اگرچہ ہندو قوم پرست دونوں ہی جماعتوں میں نظریاتی مماثلت ہے، بی جے پی اور شیو سینا کا تعلق ٹوٹنے سے پہلے بھی ان کا رشتہ مسائل سے بھرپور رہا۔

شیو سینا کی شروعات ایک ایسی جماعت کے طور پر ہوئی جس میں نسلی اور مقامی نظریات موجود تھے، یعنی ممبئی کے مراٹھی بولنے والوں کی جماعت۔ لیکن جیسے جیسے اس کا مقامی ووٹ بینک کم ہوتا گیا، شیو سینا نے اپنی شناخت ایک ایسی جماعت کے طور پر ڈھال لی جو ہندو مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے وجود رکھتی تھی۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ شیو سینا کا بنیادی ووٹر کانگریس مخالف سمجھا جاتا تھا۔

اسی لیے جب شیو سینا نے کانگریس سے اتحاد کیا تو اس پر سوالات بھی اٹھے اور اس اتحاد کے دیرپا ثابت نہ ہونے کی پشین گوئی بھی ہوئی۔ لیکن ادھو ٹھاکرے اور ان کے اتحادی اب تک کسی نہ کسی طرح سیاسی بحرانوں کا سامنا کرتے رہے۔

رپورٹس کے مطابق شیو سینا کے وزیر اکناتھ شندے بی جے پی سے اتحاد کی بحالی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسے حکومت میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر شیو سینا کے مزید چند اراکین اسمبلی ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں تو وہ ادھو ٹھاکرے کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نوجوان کارٹونسٹ جو انڈیا کے سب سے بڑے شہر کے سیاہ و سفید کا مالک بنا

ادھو ٹھاکرے: ریموٹ کنٹرول کی سیاست سے وزیر اعلیٰ تک

انڈین ریاست میں حکومت سازی کا ’گیم آف تھرونز‘

یہ بحران شروع کیسے ہوا؟

اس بحران کا آغاز بھی کافی دلچسپ طریقے سے ہوا۔ اکناتھ شندے اچانک منظر سے اس وقت غائب ہو گئے جب سوموار کو ریاست میں قانون ساز کونسل الیکشن کے نتائج سامنے آئے۔

اس الیکشن میں شیو سینا اور اتحاد کو 10 میں سے چھ نشستیں جیتنے کی امید تھی اور بی جے پی کو چار سیٹیں ملنے کا امکان تھا۔ لیکن شیو سینا کو پانچ سیٹیں ملیں جب کہ بی جے پی بقیہ پانچ سیٹیں لے اڑیں۔ خبر یہ تھی کہ شیو سینا کے باغیوں نے بی جے پی کا ساتھ دیا ہے۔

ان نتائج کے بعد سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق اکناتھ شندے شیو سینا کے 11 اراکین اسمبلی کے ہمراہ گجرات ریاست کے سورت شہر روانہ ہو گئے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ بی جے پی کے جانے مانے چہرے مہیت کمبوج کو شیو سینا اراکین کو سورت ایئر پورٹ روانہ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

ادھو ٹھاکرے نے ردعمل میں اکناتھ شندے کو پارٹی وہپ کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جواب میں اکناتھ شندے نے اپنے ٹوئٹر پروفائل سے شیو سینا کو ہٹا دیا اور ان کو گجرات کے ایک ہوٹل میں بی جے پی رہنماوں سے ملاقاتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔

اب کیا ہو رہا ہے؟

اکناتھ شندے

منگل کی رات کو ادھو ٹھاکرے سے فون پر بات چیت کے بعد اکناتھ شندے اور ان کے حمایتی اراکین آسام کے شہر گواہٹی پرواز کر گئے۔ یہاں بھی بی جے پی کی حکومت قائم ہے اور بے جے پی کے ایک اور رہنما اسی ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے جہاں شیو سینا کے باغی اراکین رُکے ہوئے تھے۔

انڈین اخبار انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ گواہٹی جانے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کیوںکہ سورت مہاراشٹرا سے بہت قریب ہے اور باغی اراکین کی واپسی کا خطرہ موجود تھا۔

ان میں سے دو رکن اسمبلی بدھ کے دن مہاراشٹرا واپس بھی لوٹے جہاں ایک نے الزام عائد کیا کہ ان کو ’زبردستی سورت لے جایا گیا اور احتجاج پر ان کو ایک ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔‘ دوسرے رکن اسمبلی نے کہا کہ ان کو ’اکناتھ شندے کے حامیوں نے گمراہ کر دیا تھا اور بہانے سے ان کو گجرات لے جایا گیا جہاں سے وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔‘

انڈیا میں اپنی جماعت سے انحراف کے قوانین کے تحت نااہلی کی سزا سے بچنے کے لیے اکناتھ شندے کو 37 اراکین اسمبلی کی حمایت درکار ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اُن کے پاس شیو سینا کے 40 اور چھ آزاد اراکین کی حمایت موجود ہے لیکن اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔

بدھ کی رات شیو سینا کے سربراہ اور مہاراشٹرا کے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے ایک جذباتی تقریر میں باغی اراکین اسمبلی سے لوٹنے اور ان سے بات کرنے کی اپیل کے بعد سرکاری رہائش گاہ چھوڑ کر روانہ ہو گئے تھے۔

جب ادھو ٹھاکرے سرکاری رہائش گاہ سے اپنے گھر جانے کے لیے روانہ ہوئے تو شیو سینا کے سینکڑوں کارکن بارش کے باوجود ان کو حمایت کا یقین دلانے کے لیے موجود تھے۔ ان میں سے چند سسکیاں لے رہے تھے جب کہ ادھو ٹھاکرے کا سرکاری رہائش گاہ سے نکلنے کا مقصد، چند رپورٹس کے مطابق، سفر کے دوران اپنی سیاسی طاقت دکھانا ہے۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ باغی اراکین کو منا کر واپس لانے اور اپنی حکومت بچانےمیں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments