کراچی: تھوڑی توجہ ادھر بھی سہی


نوکری کی تلاش ہو یا رشتے کی بات ہو، راشن کی خریداری ہو یا گھر کی صفائی ہو، ہر چھوٹی سے بڑی چیز، بنا ہماری توجہ کے نہ ٹھیک ہوتی ہے نہ خراب ہوتی ہے۔ یہ انسان ہی تو ہوتے ہیں جو اپنی مرضی سے یا تو کسی جگہ کو سنوارنے میں لگ جاتے ہیں یا بگاڑنے میں، بات کڑوی ضرور ہے لیکن سچ ہے۔

اب بھلا روشنیوں کا شہر کراچی اپنے آپ ہی تھوڑی اندھیر نگری میں بدل گیا ہے، نہ تو کسی خلائی مخلوق نے یہاں دھاوا بول دیا ہے، جس سے شہر کی شکل ہی بدل گئی ہو۔ یہ تو یہاں کے عہدیداران کی ہی مہربانی ہے جو جگہ جگہ پھولوں اور ہریالی کے بجائے کوڑے کے ڈھیر منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔

بات صرف اتنی سی ہوتی تو کیا ہی بات تھی، لیکن یہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی تو کیا، پانی ہی میسر ہونا مشکل ہو گیا ہے۔ اب تقریباً 22 ملین کی آبادی والا یہ شہر جائے تو جائے کہاں؟ بھلا ہو وزیراعظم شہباز شریف کا جنہوں نے حال ہی میں ہونے والے اپنے دورہ کراچی میں اس بات پر زور دیا کہ ’کے۔ فور‘ منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے تا کہ روزانہ کی بنیاد پر 650 ملین گیلن پانی لوگوں کو فراہم کیا جا سکے۔ امید تو یہی کی جا رہی ہے کہ سال 2024 تک یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ لیکن عوام کو سکھ کا سانس دینے کے لیے اتنا کافی نہیں ہے، کیونکہ جن علاقوں میں پانی کی شدید قلت ہے وہاں ٹینکر مافیا بھی عروج پر ہے۔ 3 ہزار کا ٹینکر 5 ہزار میں دیا جا رہا ہوتا ہے جو عوام کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ ان ٹینکر مافیا کو کوئی روکتا نظر نہیں آتا۔

جیسے تیسے پانی مل جاتا ہے تو شہر کی گرد آلود فضائیں، ٹوٹی سڑکیں سفر کو انگریزی والا ’سفر‘ (suffer) بنا دیتی ہیں۔ سمجھ نہیں آتا یہاں کی انتظامیہ کی توجہ آخر کہاں ہیں۔ کہنے کو تو اصولاً سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی اور کراچی میونسپل کارپوریشن شہر کی صفائی ستھرائی کے ذمہ دار ہیں۔ ہر گھر سے کوڑا اکٹھا کر کے علاقے کے کوڑے خانے تک لے جانا اور پھر وہاں سے آبادی سے دور ’لینڈ فل سائٹس‘ پر کچرا ڈمپ کرنا ان اداروں کی ہی ذمہ داری ہے۔

لیکن معلوم نہیں یہ کچرا لینڈ فل سائٹس کے بجائے اسکول، کالجوں، اسپتالوں، پارکوں حتیٰ کہ ہر گلی میں ہی نظر آ جاتا ہے۔ میڈیا پر تو ہر کوئی ہی اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے دعوے کرتے نظر آ رہا ہوتا ہے، نہ جانے پھر کون یہ کراچی کو تباہ کرنے میں لگا ہے۔ سڑکیں اتنی جلدی بنتی نہیں ہیں جتنی جلدی ٹوٹ ضرور جاتی ہیں۔

شہری ان پریشانیوں کو نظر انداز کر نے کی کوشش کرتے ہیں تو جناب راستے میں گداگروں سے ملاقات نہ ہو یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ ہر مارکیٹ، ہر شاپنگ مال، پیٹرول پمپ، سگنل اور اسپتال کے باہر گداگروں کی لمبی قطار موجود ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے لوگوں کا جینا محال کر دیتے ہیں۔ اب انسانیت کے ناتے ایک فرد کی مدد کردی جاتی ہے تو ساتھ ہی مزید گداگر برق رفتاری سے ایسے نمودار ہو جاتے ہیں کہ دینے والا ایک عجیب شرمندگی و پریشانی کی سی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

مختلف اعداد و شمار کے مطابق شہر قائد میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ گداگر موجود ہیں۔ ان میں یقیناً حقیقی ضرورت مند بھی ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک بڑی تعداد پیشہ ورانہ گداگروں کی ہوتی ہے۔ کتنا ہی اچھا ہو جائے اگر ہمارے حکمران ان گداگروں کے لیے رہائش کا انتظام کر دیں، جہاں انہیں نہ صرف کھانا مہیا کیا جائے بلکہ ساتھ ہی خود کفیل بنانے کی تربیت بھی دی جائے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ان افراد کو مختلف ہنر سکھا دیے جائیں تا کہ یہ اپنا گزر بسر کر سکیں اور معاشرے پر بوجھ کی جگہ سرمایہ بن سکیں۔ اس سے نہ صرف ان افراد کی زندگی بہتر ہوگی بلکہ ساتھ ہی یہ گداگر جو موٹر سائیکلوں سے پیٹرول اور گاڑیوں کے سائڈ میرر (شیشے ) چوری کرتے ہیں، ان میں بھی نمایاں کمی واقع ہوگی۔

اس کے ساتھ ہی تھوڑی توجہ اس جانب بھی ہونی چاہیے کہ کراچی میں بد قسمتی سے غریب طبقے کے لیے کوئی ہاؤسنگ اسکیم نظر نہیں آتی، جس کے باعث ہزاروں افراد کچی آبادی اور ندی نالوں پر بسیرا کر لیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بارش ندی نالوں میں طغیانی لے آتی ہے بلکہ ان کچی آبادی میں رہنے والے بہت سے افراد جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔ جب ندی نالوں کی صفائی میں دشواری ہوگی اور پانی ان نالوں میں جانے کے بجائے سڑکوں اور گلیوں میں کھڑا رہے گا تو شہر کا نظام درہم برہم ہی ہو گا۔

جو حکمران کراچی کو الگ صوبہ بنانے اور کراچی میں مزید ڈسٹرکٹ بنانے کی مخالفت کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ تھوڑی توجہ اس شہر کی بہتری کی جانب بھی کر لیں۔ عوام کو کارکردگی چاہیے نہ کہ صوبہ بنانے اور مزید ڈسٹرکٹ بنانے کی بحث اور لڑائی۔ ہر فرد چاہتا ہے کہ اس شہر کو لوٹنے کے بجائے مسائل کا حل نکالا جائے۔ کیونکہ ان برے حالات کے باوجود جب یہ شہر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو ذرا سوچئے کہ جب یہ شہر پوری آب و تاب کے ساتھ چل رہا ہو گا تو پاکستان کس قدر ترقی کر رہا ہو گا۔ ان مسائل سے چھٹکارا نا ممکن نہیں ہے، بس ذرا توجہ، احساس ذمہ داری اور باقاعدہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).