خالصہ کالج گوجرانوالہ سے اسلامیہ کالج کا سفر (تیسرا حصہ)۔


اسلامیہ کالج گوجرانوالہ 1947 تا 1972

1947 میں برصغیر کے دو حصے ہوئے ایک پاکستان بن گیا۔ دوسرا انڈیا / ہندوستان کے نام سے جانا جانے لگا۔ تاریخ کا سب سے بڑا کشت و خون اس تقسیم نے دیکھا۔ اس کشت و خون یا انتقال آبادی کو آج ہم آزادی کا نام دیتے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہم نے تاریخ کی بنیاد ہی غلط رکھی۔ تقسیم کو آزادی کا نام دے دیا۔ لا کھوں لوگوں نے اپنی جانیں دے دیں اور عزتیں لٹ گئیں۔ لیکن ہم نے آزادی حاصل کر لی۔ آج ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں اور آزادی کی سانس لے رہے ہیں چاہے وہ سانسیں کسی طرح بھی لے رہے ہوں۔

جب پاکستان بن گیا تو جو تعلیمی ادارے ٹرسٹ چلا رہے تھے وہ ادارے پاکستان میں کام کرنے والی انجمنوں کے ہاتھ آئے۔ گورو نانک خالصہ کالج انجمن اسلامیہ گوجرانوالہ کے ہاتھ آیا۔ انہوں نے اس کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ اس طرح یہ اسلامیہ کالج بن گیا۔ انجمن اسلامیہ کے روح رواں صوفی جمال اللہ تھے۔ انجمن اسلامیہ کی بنیاد صوفی جمال اللہ نے اپنے ہم خیال لوگوں سے مل کر رکھی تھی۔ صوفی جمال اللہ نے 1927 ء میں محبوب عالم اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر بھی کام کیا۔

اس سکول کے قومیائے جانے تک وہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی طرح جڑے رہے۔ صوفی جمال اللہ کو سر سید گوجرانوالہ بھی کہا جاتا تھا۔ ان کے نام کی ایک تختی کچھ سال پہلے تک گوندانوالہ چوک پر لگی ہوئی تھی۔ پھر نا جانے وہ تختی وہاں سے کیوں ہٹا دی گئی؟ وہاں پر چوک میں ایک گول دائرہ بنا کر پہلوانوں کے مجسمے سجا دیے گئے کیوں کہ پہلوانی بھی اس شہر کی پہچان ہے۔ اب دوبارہ ایک بورڈ دیکھا جس پر صوفی جمال اللہ روڈ لکھا ہوا ہے۔

یہ بورڈ گوندانوالہ چوک سے دال بازار والے روڈ پر لگایا گیا ہے۔ اس پر صوفی جمال اللہ سر سید گوجرانوالہ بھی لکھا ہوا ہے۔ انجمن اسلامیہ گوجرانوالہ کا انتظامی ڈھانچہ درج ذیل لوگوں پر مشتمل تھا:صوفی جمال اللہ ( سرپرست اعلیٰ) ، مولوی فضل دین (صدر ) خان بہادر شیخ دین محمد ( 1953 ء) صدر، جسٹس شیخ عطا ءاللہ سجاد (صدر) ، میاں ضیا ءالحق (صدر) ۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس انجمن کے صدر طور پر مختلف ادوار میں کام کرتے رہے۔ اسی طرح درج ذیل لوگ بطور جنرل سیکرٹری اس سے جڑے رہے۔ بابو عطا محمد (جنرل سیکرٹری) ، اور میاں عبدالحمید ایڈووکیٹ (جنرل سیکرٹری)

انجمن اسلامیہ کا تاریخ میں ہمیں بہت کم ذکر ملتا ہے۔ احمد سعید نے اس انجمن کے بارے اپنی کتاب ”مسلمانان پنجاب کی سما جی اور فلاحی انجمنیں ایک تجزیاتی مطالعہ“ میں ایک صفحے پر اس کا ذکر کیا ہے۔ احمد سعید کے مطابق اس انجمن کے بانیان کے متعلق تو زیادہ معلومات ہمارے پاس نہیں ہیں۔ پیسہ اخبار کے مطابق صرف یہ معلوم ہو سکا کہ 1918 ء میں انجمن نے سکھوں کو ان کی تعلیمی ترقی کے لئے مبارک باد دینے کے لئے ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس میں اپنا ایک وفد بھیجا۔

انجمن نے گورونانک کالج کے لئے پچاس روپے اور سکھ نیشنل فنڈ میں بھی دس روپے دیے تھے۔ انجمن اسلامیہ کے ہاں سالانہ اجلاس کی روایت بھی موجود تھی۔ 12 مارچ 1933 ء کو اس انجمن کا ایک اجلاس ہوا جس کی صدارت حاجی رحیم بخش (ریٹائرڈ سیشن جج، لاہور) کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں سات ہزار لوگوں نے شرکت کی۔ (احمد سعید، ص 262 ) مہک گوجرانوالہ نمبر میں بھی اس انجمن کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اس انجمن کے بارے کوئی زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ نہ ہی کسی نے اس انجمن کی کارکردگی پر کوئی تحقیقی کام کیا گیا ہے۔

انجمن اسلامیہ نے جب سکھوں کے اس تعلیمی ادارے کا انتظام سنبھالا تو پاکستان میں پہلے پرنسپل حکیم محمد حسین بنے۔ ان کے بعد پرنسپل کا عہدہ احمد حسین نے سنبھالا جو ایک قابل اور نہایت شستہ آدمی تھے۔ ان کو قائد اعظم ثانی بھی کہا جاتا تھا۔ ان کا قد کاٹھ اور شکل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے بہت زیادہ ملتی تھی۔ اس سے پہلے وہ اسلامیہ کالج پشاور میں بھی خد مات سر انجام دے چکے تھے۔ وہاں پر ان کے کے شاگردوں میں عبدالرب نشتر شامل تھے۔ 1947 تا 1972 تک یہ کالج انجمن کے پاس رہا اس دور میں درج ذیل لوگ اس کالج میں پرنسپل رہے جن کے نام درج ذیل ہیں :

1۔ حکیم محمد حسین (ایم۔ اے، انگریزی) 1947 ء تا 1948 ء
2۔ ملک احمد حسین (ایم۔ اے، فلاسفی) 1948 ء تا 1968 ء
3۔ ڈاکٹر عبدالحمید عرفانی (پی۔ ایچ۔ ڈی) 1968 ء تا 1972 ء

کالج کے انتظامی معاملات کو سب سے زیادہ عرصے چلانے والے پرنسپلوں میں ملک احمد حسین تھے جو لمبے عرصے تک اس کالج کے منتظم کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ بہت ہی مرنجاں مرنج انسان تھے۔ انگریزی کے استاد تھے۔ پڑھانے کا انداز نرالا تھا۔ انہوں نے بے شمار بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ ان کے نامور شاگردوں میں عبدالرب نشتر بھی شامل تھے۔ جب وہ پشاور کالج میں تھے تو عبدالرب نشتر ان کے شاگردوں میں شامل تھے۔ آج کل اس کالج کے پرنسپل پرویز اختر ہیں جو اس کالج میں 2015 ءسے تعینات ہیں اور 2023 ء میں اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے۔

انجمن اسلامیہ کا بھی ایک مکمل انتظامی ڈھانچہ تھا جو اس کالج کو چلاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کالج کی ضرورتیں بڑھتی گئیں اور طلبا ء کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور پرانی عمارت طلباء کی ضرورت سے کم تھی تو انجمن اسلامیہ نے کئی ایک نئے بلاکس تعمیر کروائے۔ لیکن پرانی عمارت کے فن تعمیر کو انہوں نے کبھی بھی کوئی نقصان پہنچانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پھر بعد میں صوفی جمال اللہ کا بیٹا عبداللہ جمال بھی اس کالج کا پرنسپل بنا۔

وہ لمبے عرصے تک اس کالج میں بطور استاد بھی اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ وقت نے پلٹا کھایا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی۔ وہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو کر پاکستان کے حکمران بن گئے۔ وزیراعظم پاکستان نے ایک حکمنامے کے تحت بہت سے اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ ان اداروں میں تعلیمی ادارے بھی شامل تھے۔ وہ تمام تعلیمی ادارے جو انجمنیں چلا رہیں تھیں وہ بھی حکومت نے قومی تحویل میں لے لیے ۔

اس طرح اسلامیہ کالج بھی گورنمنٹ کی ملکیت میں چلا گیا۔ اس طرح یہ تعلیمی ادارہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج بن گیا۔ طلبا ء کی تعداد بڑھتی رہی اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کالج میں نئے بلاکس بھی تعمیر ہوتے رہے لیکن کسی کو بھی یہ ہمت نہ ہوئی کہ کالج کی پرا نی عمارت کے ساتھ چھڑ چھاڑ کی جائے۔ 1960 ء سے 1970 ء کی دہائی میں اس کالج میں درج ذیل اپنے اپنے مضمون کے بہترین استاد اس کالج میں موجود تھے۔ شیخ مبارک علی ( فزکس) حنیف علی باجوہ (فزکس، بعد میں پرنسپل بھی بنے اس کالج کے ) ، عبدالغنی (فزکس) مختار چیمہ (فزکس) ، شریف عابد (فزکس) امان اللہ چیمہ (بیالوجی) ، ملک عنائیت اللہ (بیالوجی) محمد رفیق چوہدری (کیمسٹری) ، ظفر اقبال قریشی (کیمسٹری) ، عثمان الہی شیخ (کیمسٹری) ، امان اللہ ورک (تاریخ، جو بعد میں انجمن کی نوکری چھوڑ کر گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے تھے ) سعید چغتائی (سوشل ورک) ، جاوید طاہر بٹ (شماریات) ، سی ڈی بھٹی ( فزیکل ایجوکیشن) ، کفایت اللہ (انگریزی) ، رفیق صدیقی (انگریزی) ، ملک غلام رسول (انگریزی) ، خالد محمود دھاریوال (انگریزی) ، محمد اکرام (انگریزی) ، محمد صادق (انگریزی) ، اطہر فاروقی (انگریزی) ، ملک افتخار ( پولیٹکل سائنس ) محمد یونس ساجد ( پولیٹکل سائنس ) ، آغا عبداللہ (ریاضی ) ، محمد نعیم مغل (ریاضی ) وغیرہ اس کالج میں پڑھاتے رہے۔

اس کالج کے فارغ التحصیل طلباء کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اس کالج سے تعلیم حاصل کی اور اس وقت ملک کے مختلف اداروں میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ یہاں پر ان کی تفصیل نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح انجمن اسلامیہ گوجرانوالہ کی کامیابیوں کی ایک لمبی داستان ہے۔ یہ داستان مضامین کے ایک نئے سلسلے کی متقاضی ہے۔ اس پر مستقبل میں مزید مضامین لکھنے کی کوشش کروں گا تاکہ انجمن کی جد و جہد لوگوں کے سامنے آ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments