کیا آپ جلیل القدر صحافیوں کے سرخیل ارشد شریف کو جانتے ہیں


عقیدت یا اندھی تقلید باخبر اور بے خبر کے بیچ واضح فرق کو مٹا ڈالتی ہے اسی لیے عقیدت کو ”مبالغہ آمیزی“ کی ماں کہا جاتا ہے جس کی کوکھ سے درجنوں ایسی مضحکہ خیزیاں جنم لینے لگتی ہیں جو چنگے بھلے انسان کو قبیلہ انسان میں سے اچک کر فرشتے کے منصب پر فائز کر کے ایک ”سپر ہیومن بینگ“ میں تبدیل کر ڈالتی ہے۔ دو پارٹی سسٹم کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے کچھ سیاستدانوں کے خلاف ”بیڈ ماؤ تھنگ یا نیم کالنگ“ کمپین روزانہ کی بنیاد پر چلانے کے لئے عمران خان کے گلے میں گھنٹی باندھی گئی اور ایک ہنگامی بندوبست کر کے طاقت کے ایوانوں میں پہنچایا گیا تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں اور اسے ایک ایسے مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا جس کے پاس تمام ملکی مسائل کا حل موجود ہے اور پلک جھپکتے ہی وہ اس ملک کو ایشین ٹائیگر بنا دے گا۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ساڑھے تین سالہ ناکام دور حکومت کے بعد صاحب بہادر مہاتما اور قبیلہ مہاتما کو اچھے سے اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ ہمارا انتہائی محنت سے بنایا ہوا ”آرٹیفیشل بت“ بہت بری طرح سے پاش پاش ہو چکا ہے اور اپنی شرم ناک ناکامیوں کو امریکہ کے کندھے پر ڈال کر ایک ”سیف ایگزٹ یا فیس سیونگ“ کا سہارا لے کر پتلی گلی سے نکلنا چاہ رہا ہے مگر چند صحافیوں کا قبیلہ عاشقاں مہاتما کی جان چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہے اور بار بار اس کے مردہ بیانیے میں جان ڈال کر ان کو ”فیلڈ ان“ رکھنے میں مصروف ہے۔

ان کا ذہن کسی بھی طرح سے اس متھ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ بھلا مسیحا یا مہاتما ناکام کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ اوتار ہوتے ہیں ان کو ناکام بنانا تو انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہوتی، حالانکہ مہاتما کے بت کا ”متھ بسٹنگ“ بھی ہو چکا مگر ماضی کے بوجھ کو بخوشی اتار کر ”ان لرن“ کرنا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ ارشد شریف قبیلہ صحافیاں کے ان چند جلیل القدر صحافیوں میں سے ہیں جو اوتاری صلاحیتوں سے مالامال مسیحا کے ”برین چائلڈ“ یا دماغی بچہ کو جسے مشہور زمانہ رجیم چینج کانسپیریسی کا درجہ حاصل ہو چکا ہے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

حالانکہ اس تصور کا خالق اپنے اس بیانیے کی خود دھجیاں اڑا کر درجنوں مزید بیانیے تشکیل دے چکا ہے مگر قبیلہ عاشقاں اس مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لیے مسلسل مصروف عمل ہیں۔ ارشد شریف کا کہنا تھا کہ رجیم چینج کانسپیریسی ایک بہت بڑا موضوع ہے جس پر دنیا بھر میں درجنوں کتب اور ریسرچ پیپرز لکھے گئے مگر بدقسمتی سے اس موضوع پر پاکستان کی اکیڈیمیا نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔

سوال بالکل درست ہے مگر جواب اتنا سادہ نہیں ہے جسے ایک مخصوص فریم آ ف مائنڈ سیٹ کی عینک لگا کر اور فقط ایک شخص کی محبت کا اسیر ہو کر ارشد شریف نے ایک روٹین کی معمولی سی آئینی تحریک عدم اعتماد کو رجم چینج کانسپریسی ثابت کر کے دینے کی کوشش کی ہے، اگر واقعی یہ کوئی کانسپریسی ہوتی تو تحریک عدم اعتماد میں کانسپریسی کی بو سونگھ لینے کی صلاحیت رکھنے والے قاسم سوری کو یہ کہنے کی ضرورت نہ پڑتی کہ ”خان صاحب تھوڑا اسلامی ٹچ بھی دے دیں“ ۔

رجیم چینج کانسپریسی کے پس منظر میں انٹرنل اور ایکسٹرنل فیکٹرز کا حوالہ دینے کے بعد عراق یا دوسرے ممالک کے ساتھ جوڑ کر موجودہ پراسرار قسم کے رجیم چینج کو نتھی کرنے پر درجنوں سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے مسیحا نے ایسا کون سا انوکھا کارنامہ سرانجام دیا تھا جسے جو بائیڈن نے محسوس کر لیا اور فیصلہ کیا کہ اس ایشیائی ٹائیگر سے جان چھڑا لی جائے اور اس نے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر ڈالا؟

حالانکہ جو پارٹیاں آج پی ڈی ایم کی حامی ہیں وہی کل تحریک انصاف کی حامی تھیں، جسے سازش کا نام دیا جا رہا ہے وہ اشارہ ابرو ہوتا ہے جس کی سہولت پاکستان میں ہی دستیاب ہے۔ امریکہ کو اتنی دور سے سازش کرنے اور اس سازش کا خلاصہ خان صاحب کو خط کی صورت میں بھیج کر مطلع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جو کام وہ سامنے سے آ کر کر سکتے ہیں وہ انہیں چھپ کر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ریمنڈ ڈیوس کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہے اور اس وقت کے وزیر خارجہ بھی شاہ محمود قریشی تھے وہ اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں اور ان کی ناک کے نیچے سے ریمنڈ ڈیوس نکال کر لے گئے اور شاہ جی کو کان و کان خبر ہی نہ ہوئی۔

سازشیں اور مداخلتیں تو برابر کی ٹکر یا انیس بیس کے فرق کے درمیان چلتی ہیں، جو ممالک خود ہی ہاتھی کو اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے ہر وقت دستیاب رہتے ہوں ان کے خلاف سازش یا مداخلت کیسی جناب؟ اس کے بعد ارشد شریف نے انتہائی رازداری سے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ عمران حکومت کو گرانے کے لیے میڈیا کے ”تھری ڈی“ استعمال کیے گئے جنھیں ”ڈس رپٹ، ڈس کریڈٹ اور ڈینائی“ کہا جاتا ہے اور دوسری سانس میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ انیس سو سینتالیس سے یہی پلے بک چلتی آ رہی ہے تو پھر آپ کا گلہ کس سے ہے؟

یہ تین فارمولے تو ہر جمہوری حکومت کے خلاف استعمال ہوتے آ رہے ہیں، اگر شروع دن سے سب کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا جانے کا چلن ہے تو پھر عمران خان اکیلے مظلوم یا وکٹم کیسے ہو سکتے ہیں؟ میرے خیال میں اس روش کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ فلاں بہت دیانت دار اور خوددار قسم کا شخص تھا اسی لیے استعماری طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا اور اسی بنیاد پر انہوں نے ایک سازش کے ذریعے سے اسے چلتا کر دیا اور اب قبیلہ عاشقاں کا سرخیل سابقہ پرائم منسٹر کی موجودگی میں ببانگ دہل یہ پیشگوئی بھی کر ڈالتا ہے کہ جتنی مرضی کوشش کر لیں عمران خان کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس نہیں نکلے گا، اور جو شخص پانی کی آدھی بوتل بھی ضائع نہیں ہونے دیتا وہ بھلا کرپشن کیسے کر سکتا ہے؟

وطن عزیز میں یہ ٹیلنٹ اول درجے کا پایا جاتا ہے بلکہ ہم اس صلاحیت میں خود کفیل ہو چکے ہیں کہ کسی کو بھی اوتار یا مسیحا پینٹ کرنے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو باقاعدہ پروان چڑھایا جاتا ہے اسی لئے ہمارے ہاں روحانی تلقین بابوں کی کثرت پائی جاتی ہے اور جذباتیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بہے چلا جاتا ہے۔ سرکار کرپشن تو ہوئی ہے مگر ذرا چوکس اسٹائل کے ساتھ یعنی ہاتھ لگائے بغیر سب کچھ جیب میں منتقل، دوسرے لفظوں میں کہیں تو آف شور ٹائپ کرپشن۔

کاروباری فرنچائز چند اپنوں میں بانٹ کر خود غائبانہ طور پر مستفید ہوتے رہنا اور ثبوت ملنے پر یہ رولا ڈال دینا کہ مہاتما خود تو بہت دیانت دار ہے یہ تو اس کے نام پر دوسروں کا کیا دھرا ہے۔ یہ سب داستانیں تو ایک طرف مگر ارشد شریف کسی شخص کے متعلق اتنا بڑا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے کہ اس پر کرپشن کا کوئی کیس نہیں نکل سکتا؟ باقی انہوں نے جس ”اسموکنگ گن“ کو ڈھونڈنے کی بات کی ہے جو شروع دن سے ایسے سازشی کے ہاتھ میں موجود ہے جو واضح منظرنامہ کو اسموک سکرین یا کیمو فلاج کر کے حقائق مسخ کر دیتا ہے۔

بالکل درست بات ہے اس کا سرا ضرور تلاش کرنا چاہیے مگر جناب تاریخی پلے بک یہ بتاتی ہے کہ اسموکنگ گن شروع دن سے طاقتور کے ہاتھ میں ہی موجود رہی ہے، اسی لئے تاریخ بادشاہ کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اور ان بادشاہوں کی رعایا کیسی تھی اس کے متعلق تاریخ خاموش ہے اور باقی آپ جیسے عاشق صادق ہمراہ دوسرے عاشقین مثلاً اوریا مقبول جان، ہارون رشید، زید حامد اور عمران ریاض اپنی اپنی حیثیت میں ٹی وی اسکرین کا سہارا لے کر کسی کو بھی اوتار ثابت کر کے اس کے متعلق ایسی اساطیری کہانیوں کا جال بن دیتے ہیں جو کہ بعض اوقات انتہائی مضحکہ خیز لگنے لگتا ہے۔

تاریخ اس قسم کے خوش نمائی پینٹ سے بھری پڑی ہے اور خوش نمائی کے اس پینٹ کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے جو کبھی کبھار آپ کا تجزیہ سننے کے لئے ٹی وی کا بٹن آن کرلیتے ہیں۔ اس لیے قوم کو جھوٹی سچی قصے کہانیاں سنانے کی بجائے حقائق پر بات کریں کیونکہ آپ صحافی ہیں اور آپ کے ہاتھ میں قلم ہے اور اگر آپ کو طبلچی بننے کا شوق ہے تو پھر صحافت کو خیر آباد کہہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments