کراچی کے فریئر ہال کا نيا تعمير ہونے والا دروازہ


تحرير: عارف حسن
ترجمہ: یاسرقاضی

معروف ماہر فن تعمیر، مارئی مظہر نے حال ہی میں سوشل میڈیا کے ذریعے کراچی کے باشندوں کو آگاہ کیا ہے کہ کراچی کے فریئر ہال گارڈن کے لیے ایک نیا دروازہ ڈیزائن کیا گیا ہے، جو آج کل زیر تعمیر ہے۔ انہوں نے تصویروں اور خاکوں کے ذریعے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ یہ دروازہ کراچی کی ”ایمپریس مارکیٹ“ کے بعد کراچی کے شاید اس سب سے اہم تاریخی مقام کے نظارے میں زبردست رکاوٹ بنے گا۔ یاد رہے کہ انیسویں صدی کے وسط میں ( 1850 ء تا 1859 ء) سندھ میں کمشنر کے طور پر تعینات، ویلش برطانوی نوآبادیاتی منتظم، سر ہینری بارٹل فریئر کے نام سے منسوب فریئر ہال، اپنے نواح میں موجود وسیع باغ سمیت، 1994 ء کے سندھ کے ’ثقافتی ورثے کے تحفظ ایکٹ‘ کے تحت ”ثقافتی ورثے“ کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے چند دن قبل ہی اس گیٹ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے گرانے کا حکم دیا ہے۔

فریئر ہال کے لیے اس گیٹ کی تنصیب، تقریباً دس برس پہلے بھی زیر بحث آئی تھی۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ 10 سال بعد دوبارہ بھی سر اٹھائے، جب تک کہ ہماری مقامی حکومتوں کے انتظامی طور طریقوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، یا جب تک ہماری ”تعمیراتی برادری“ پیشہ ورانہ اخلاقیات کو مکمل طور پر اپنا نہیں لیتی۔

اس گیٹ کی تعمیر کی بہت سی وجوہات، جواز کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں۔ اول یہ، کہ اس کی تعمیر سے پارک کی دیکھ بھال کے لیے یہاں آنے والوں سے فیس کی مد میں رقم وصول کی جا سکے گی (جو کہ اس وقت وصول کرنا ممکن نہیں ہے۔ ) ایک اور جواز یہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس سے باغ میں ہونے والی توڑ پھوڑ پر قابو پایا جا سکے گا۔ اس وقت منشیات کے عادی افراد، پارک کے فرنیچر کے کچھ حصے لے جاتے ہیں، جسے وہ منشیات خریدنے کے لیے بیچتے باچتے ہیں۔

داخلے پر فیس لگا کر، ان آوارہ افراد کی یہاں آمد و رفت سے چھٹکارا پایا جا سکے گا، جو سماجی ماحول کو خراب کرتے ہیں اور اس قسم کا ماحول خواتین کو ہراساں کرنے کی وجہ بھی بنتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ اس گیٹ کے لگ جانے سے، مخصوص اور قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کے پابند ’چیزیں بیچنے والے‘ (پھیری والے / ہاکرز) کو اجازت دے کر، ان کے پارک میں داخلے کو ممکن بنایا جا سکے گا۔

یہ تمام جواز مدلل سہی، مگر ان تمام دلائل کے جوابات بھی موجود ہیں۔ فریئر ہال تفریح کے لیے تشریف لینے والوں سے فیس وصول کرنے کے بجائے، مخیر حضرات کی مدد لینے اور باغ کی دیکھ بھال کے لیے فنڈز پیدا کرنے کے دوسرے متعدد طریقے بھی موجود ہیں۔ اس پر ایک سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے، جس بحث کے نتائج شاید فریئر پارکس کے ساتھ ساتھ کراچی کے تمام پارکس کے لیے بھی سودمند ثابت ہوں اور ایسے وسائل پیدا کرنے سے ان تمام پارکس کو داخلہ فیس سے مستثنٰی کر دیا جائے، جیسا کہ انہیں ہونا بھی چاہیے۔

دنیا کے بہت سے ممالک میں باغات میں توڑ پھوڑ ہونا ایک عام بات ہے، جس سے بچنے کے لیے پارکس کے لیے خصوصاً ایسا فرنیچر تیار کروایا جاتا ہے، جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو سکے۔ ہم دیگر ممالک کی طرح ایسا کیوں نہیں کر سکتے! اس کے ساتھ ساتھ اس مذکورہ توڑ پھوڑ یا چوری کو باغ کی نظر داری پر معین سٹاف کی مدد سے بھی کافی حد تک روکا جا سکتا ہے، بشرطیکہ دیکھ بھال کرنے والے ٹھیکیدار، اپنے چوکیداروں کو ماہانہ صرف 1,200 روپے ادا کر نہ رہے ہوں (جیسا کہ وہ آج کل کرتے ہیں ) ۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہاں تو اس دور میں بھی کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی تھی، جب امریکی قونصل خانہ اس پارک کے سامنے والی عمارت میں واقع تھا، اور قونصل خانے کی سیکیورٹی کی غرض سے فریئر ہال پارک میں ایک عرصے تک ہر کسی کے داخلے پر پابندی تھی۔ جہاں تک یہاں نامناسب یا ناپسندیدہ لوگوں کے آنے جانے کا تعلق ہے، تو اس حوالے سے ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ یہاں آنے کے لیے داخلہ فیس ادا نہیں کر سکتے، انہیں اس ملک کا شہری ہی نہیں سمجھا جاتا۔

جہاں تک پھیری والوں کے داخلے کا تعلق ہے، تو کوئی بھی شخص جو ’سڑک کی معیشت‘ کے بارے میں تھوڑا بہت بھی جانتا ہے، اسے یہ بھی معلوم ہو گا کہ یہ پھیری والے خود کو منظم رکھنے، اپنا کھاتہ یا ممبرشپ رجسٹر وغیرہ رکھنے کی کافی حد تک معلومات رکھتے ہیں، اور وہ اس یا کسی بھی پارک میں داخلے اور یہاں اپنا روزگار کرنے کے حوالے سے بھی ایسا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ان سے بات کر کے انہیں پارک کی دیکھ بھال اور آپریشن کے عمل اور وضع شدہ طریقۂ کار کا حصہ بنایا جائے۔

فریئر ہال تقریباً 150 سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ تب سے، لگ بھگ ڈیڑھ صدی تک اس تاریخی عمارت کا یہ باغ، بغیر داخلی دروازوں کے موجود رہا ہے۔ یہاں تک کہ ان ادوار کے دوران بھی یہ بے درو دیوار رہا، جب اسے غیر علانیہ طور پر متروک کر دیا گیا تھا یا جب اس کا غلط استعمال کیا گیا تھا۔ اس باغ کے گرد ہمیشہ سے ایک چھوٹی سی باڑ لگی رہی ہے، جس کی اونچائی آنکھوں کی سطح سے بھی کافی نیچے ہے، جس وجہ سے یہ باڑ اس خوبصورت ہال کے نظاروں کو محدود نہیں رکھتی، جو حسین نظارے اس یادگار عمارت کے ”گوتھک روائیول طرز تعمیر“ کی عکاسی کرتے ہیں۔

( ’گوتھک احیاء‘ کا انداز انیسویں صدی کے وسط میں فن تعمیر میں دلکش اور رومانوی تحریک کا حصہ رہا ہے، جو قرون وسطی کے ڈیزائن سے متاثر عمارتوں کے لیے عوامی ذوق کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ پہلے کے مقبول طرزوں سے ایک واضح منتقلی تھی، جو قدیم یونان اور روم کی کلاسیکی شکلوں سے متاثر شدہ تھی۔ ) اس باڑ کی کم اونچائی، اس کے مشرق میں عبداللہ ہارون روڈ اور فاطمہ جناح روڈ کو بھی فریئر ہال گارڈنز میں ضم کر دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ ایک ہی جگہ کا حصہ ہیں۔

ایوب دور کے بعد ، تاریخ کے ہر دور میں، کراچی کے باغات کی ترتیب، ان کی راہ داریوں اور ان کے تعمیراتی اجزاء کو یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب فریئر پارک میں درختوں کی بغیر منصوبہ بندی کی گئی افزائش بھی اس عظیم اور خوبصورت تاریخی عمارت کے نظارے میں رکاوٹ ہے۔ اس کے علاوہ ’سول لائنز‘ کے علاقے (جہاں یہ ’فریئر ہال‘ واقع ہے ) میں متواتر بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر، جو اس شہر کے کسی بھی ”اربن ڈیزائن پروجیکٹ“ کا حصہ نہیں تھی، (ہونی بھی نہیں چاہیے! ) اس پورے علاقے میں قائم تاریخی ورثے کی حیثیت رکھنے والی تمام عمارتوں اور کھلی جگہوں کو ڈھانپ کر ان کی اہمیت ختم کر رہی ہے۔

یہ ضروری ہے کہ فریئر ہال گارڈنز کی زمین کے موجودہ استعمال اور اس سے متعلق عناصر کو درست طریقے سے دستاویزی شکل دی جائے اور مستقبل کے لیے باغات کے لیے ایک ماسٹر پلان تیار کیا جائے۔ اس منصوبے کی تیاری میں سول سوسائٹی کی شرکت کو بھی ہر طور یقینی بنایا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں یہاں باغ گھومنے کے لیے آنے والے لوگوں کی شرکت، لگاتار دو اتوار تک آنے والے اندازہ ایک ہزار افراد کا سروے کر کے یہ بتا سکتی ہے، کہ وہ اس پارک میں کیوں آتے ہیں، اور باغ کے مستقبل کے لیے ان کی ترجیحات و تجاویز کیا ہیں۔ اس کے بعد ان تحریری تجاویز اور تبصروں کی پوسٹرز کی شکل میں فریئر ہال کے اندر ہی ایک باقاعدہ نمائش کی جائے۔ اور ان سے مرتب شدہ سفارشات حکومت سندھ کے محکمۂ ثقافت کی ہیریٹیج کمیٹی کے سامنے رکھ کر، اسے اس پارک کے ممکنہ مستقبل کے لیے پابند بنایا جائے۔

یہ طریقۂ کار نہ صرف فریئر ہال کے لیے، بلکہ کراچی کے تمام عوامی مقامات کی مستقبل کی ترقی کے لیے بھی اپنایا جا سکتا ہے اور اپنایا جانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ شہر میں کھلی جگہوں کو گھیرنے والی بڑی دیواروں کو ہٹایا جائے اور جہاں ضرورت ہو، وہاں چھوٹی سی باڑ لگا دی جائے، جو سڑک سے ان باغات اور ان کے اندر قائم تعمیرات کے نظاروں میں رکاوٹ نہ ڈال سکے۔ ایسا ’برنس گارڈن‘ اور ”وائی ایم سی اے“ گراؤنڈ میں بھی کیا گیا ہے اور اب وہاں اس خوشگوار تبدیلی کو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے کراچی کی زندان جیسے گھٹن کا ماحول اپنے شہریوں کے لیے آزادی اور خوشی میں بدلا جا سکتا ہے۔

آئیے! ہم سب اسے ممکن بنانے کے لیے اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments