تشدد سے متاثرہ لوگوں کی حمایت کا عالمی دن


تشدد کا رویہ اور رجحان اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ کرہ ارض پر انسانی تاریخ ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ جہاں انسان نے علم و عقل کے لامتناہی سمندر عبور کیے، نت نئی ایجادات اور سہولیات کو فروغ دیا وہاں انسان تشدد، نفرت اور امتیاز جیسے منفی رویوں پر آج تک قابو نہیں پا سکا۔ بلکہ حقیقت اس کے مکمل برعکس بلکہ انتہائی تلخ ہے۔ تشدد کے واقعات میں نہ صرف آئے روز اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اب تو ایسا لگتا ہے جیسے تشدد ہماری زندگی کا معمول بن گیا ہے۔

ہر دور میں کچھ ایسے رہنما اس کرہ ارض پر موجود ہوتے ہیں جو انتہا پسندی، عدم برداشت، غصہ، تعصب اور نفرت سے نمٹنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ؛ کیونکہ سماجی، اخلاقی اور متعصبانہ بیماریاں پورے معاشرے کو ایک عفریت کی صورت میں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ اس وقت انسانیت کو ایک ایسے معاشرے کی تلاش ہے، جو مہذب بھی ہو اور ذمہ دار بھی، خود بھی پر امن رہے اور پوری دنیا میں امن کی فضا قائم کرے اور خطرناک پر تشدد معاشرے کی نشاندہی کر کے اسے درست کرنے میں مدد کرے۔ پرتشدد اور انتہا پسندی پر مبنی واقعات سے ملکوں کے داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر نہ صرف ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ ایسے ممالک کو منفی انداز میں اجاگر کر کے تنقیدی سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔

تشدد کے بارے میں ثقافتی اقدار، ایمان، مذہب، سماجی روایات اور بہت سے دیگر عناصر غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ دنیا میں اب بھی ایسے کئی قبیلے موجود ہیں، جو مخالف گروہوں کو کچلنے کے لیے جارحانہ انداز میں تشدد کرتے ہیں، جب کہ ایسے قبیلے بھی ہیں جو ہرگز کوئی جارح ٹیمیں تشکیل نہیں دیتے۔ ایسے قبیلے بھی ہیں، جو دیگر گروہوں کے حوالے سے تو پرتشدد رویوں کے حامل نہیں، مگر ان قبیلوں کے اپنے اندر ایک دوسرے کو قتل کرنے یا زخمی کرنے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایسے قبیلے اب بھی موجود ہیں، جو بہ ظاہر بے حد پرامن اور غیر جارح ہیں، مگر وہاں جادو ٹونے کے الزام پر اپنے ہی قبیلے کے کسی رکن کو قتل کرنے میں بالکل عار نہیں محسوس نہیں کیا جاتا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں تشدد کی خلاف عالمی دن 26 جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد تشدد سے متاثرہ افراد کی بحالی، انصاف کی فراہمی اور انسانوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے عوامی شعور کو اجاگر کرنا ہے۔ تشدد تمام ہی انسانی معاشروں میں کسی نہ کسی صورت اور کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے۔ تشدد کی کئی اقسام ہیں گھریلو تشدد سے لے کر اعلیٰ ایوانوں تک پر تشدد واقعات رونما ہوتے ہیں۔ چار دیواری کے اندر اکثر و بیشتر صنف نازک پر تشدد کیا جاتا ہے، عورتوں پر تشدد کی تاریخ انسانی وجود کی طرح پرانی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ اس ظلم کو ظلم تو تسلیم کیا جاتا ہے مگراس کا تدارک آج تک نہ ہوسکا۔

2018 میں اقوام متحدہ میں ایک رپورٹ مرتب کی گئی جس میں صرف ایک سال میں 87000 عورتیں قتل کی گئیں جن میں سے چونتیس فی صد شوہر اور چوبیس فی صد عورتیں دیگر قریبی رشتے داروں کے ہاتھوں ماری گئیں۔ قتل ہونے والی ان عورتوں کی اکثریت امریکا اور افریقی ممالک سے تعلق رکھتی تھی، اگرچہ اس رپورٹ کی تیاری میں قتل کے غیر حل شدہ کیسز کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی جنگی خطوں میں ماری جانے والی عورتوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا ہے جو کہ تحقیق کاروں کے نزدیک ایک مشکل ترین امر تھا۔ اس رپورٹ کی بنا پر اقوام متحدہ نے عورتوں کے لیے ”گھر“ کو سب سے غیرمحفوظ اور خطرناک جگہ قرار دے دیا ہے۔

صنفی امتیاز کے ساتھ جنسی تشدد سے بھی کئی زندگیاں تباہ ہو چکی ہیں، جنسی تشدد اور اس کی روک تھام میں رکاوٹ کی کئی وجوہات ہیں جیسا کہ معاشی نا برابری، کم عمری، قانون نافذ کرنے والوں کا غیر فعال نظام اور اس جرم کا نشانہ بننے والوں کا بے ضرر اور معاشی طور پر کمزور ہونا، انہیں مجرموں کے لئے ایک ایسا آسان ہدف بناتا ہے جو انہیں اپنے شکار کی بے حرمتی کرنے پر اکساتا ہے اور وہ کسی شرم و حیا کے بغیر بلاخوف و خطر اپنے جرائم کا ارتکاب کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ صدیوں پرانی عادتیں ہیں جنہیں بغیر کسی عملی جدوجہد کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مظلوم نہایت کمزور اور بے یارومددگار ہیں جبکہ ظالم اس قدر طاقتور کہ وہ اس قسم کی قانونی گرفت کی کوشش کو باآسانی کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو وطن عزیز پاکستان کے علاوہ اکثر ممالک میں یکساں اور ناقابل تردید حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس وقت تک خاموش تماشائی بنے رہنا چاہیے جب تک کہ ہم یا ہمارے لواحقین ایسے جرائم کا شکار نہ ہوجائیں؟ یا ان غنڈوں کو روکنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کرنے چاہیں۔

قارئین! تشدد کی تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے صحراؤں سے لے کر نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کے قائم کردہ ایوانوں تک مظالم ڈھانے کے نت نئے طریقے ایجاد کر کے بھی تشدد کیا جاتا ہے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کریں اور پچھلی صدی میں بھی نہ جائیں اسی صدی میں یعنی 2000 سے اب تک برما کے مسلمانوں سے لے کر مقبوضہ کشمیر، بھارت کی کئی ریاستوں کے علاوہ، فلسطین، عراق، شام، لیبیا، یمن، افغانستان، لبنان، شام براعظم افریقہ سے لے کر اپنے آپ کو سپر پاور کہلانے والی ریاست امریکہ تک کئی معصوم جانوں پر تشدد کی کئی کہانیاں نظر آتی ہیں۔ امریکہ و مغرب میں اسلاموفوبیا کے واقعات کے علاوہ صرف سفید فام کو جینے کا حق دیا جاتا ہے۔ افریقہ نژاد یا بلیک شہریوں کا جینا بھی اکثر و بیشتر مشکل ہو جاتا ہے۔

ایک طرف آتش و آہن کی بارش مسلم ممالک افغانستان اور عراق و فلسطین، شام، یمن پر ہی برسائی جا رہی ہے، دوسری طرف پڑوسی ملک بھارت میں مسلمانوں پر ہجوم کی شکل میں تشدد کروایا جاتا ہے جس میں باقاعدہ ریاست سر پرستی کرتی ہے، کچھ عرصہ قبل برما کے مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسے ہی خون کی ہولی کھیلی گئی، کشت و خون کا یہ سارا کھیل اور ظلم و بربریت کا یہ ننگا ناچ مسلمان قوم کے ساتھ ہی کیوں خاص ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی، کا لیبل اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چسپاں کرنے کا کھیل عالمی سازش کا حصہ ہے۔ جس کی خاکہ سازی اور انھیں برپا کرنے کی عملی تدابیر میں عالمی صیہونیت اور اسلام دشمن عناصر یہودیت کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ جن کی چاپلوسی اور حکم برداری میں مسلم دشمن تنظیمیں پورے شد و مد کے ساتھ اس کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں اور وہ اسلام کو ”دہشت گرد“ مذہب اور مسلمانوں کو ”دہشت گرد“ قوم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کہانی کا یہ رخ انتہائی بھیانک ہے اسے ناکام بنانے کے لیے امت مسلمہ کے ہر ہر فرد کو سوچ کر انتہائی سلیقے کے ساتھ مقابلہ کرنا ہو گا۔

اسلام انسانیت کا سب سے بڑا ہمدرد مذہب ہے۔ اس وقت دنیا میں پھیلی سفاکیت، ظلم و بربریت اور ہر برائی کا خاتمہ اسلام ہی کی تلوار امن و محبت سے جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments