” عربی سے طب تک“ قسط۔ 9 نشتر میڈیکل کالج


قیام پاکستان کے وقت مغربی پاکستان میں صرف تین میڈیکل کالجز تھے۔ ایک کالج لاہور میں ’لاہور میڈیکل کالج‘ کے نام سے 1860ء میں قائم ہوا تھا، جو 1911ء میں نام کی تبدیلی کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کہلایا۔ دوسرا کالج کراچی میں ڈاؤ میڈیکل کالج تھا۔ یہ کالج دراصل 1881ء میں حیدرآباد میں قائم کیا گیا، لائی سین شی ایٹ میڈیکل سکول تھا (جو تین سال کے کورس کے بعد ’ایل ایس ایم ایف‘ کا سرٹیفیکیٹ دیتا تھا) ، جسے میڈیکل کالج کا درجہ دے کر 1941 ء میں کراچی میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔

ایک سال بعد یعنی 1942ء میں حیدر آباد میں بھی ایک میڈیکل کالج کا اجراء کیا گیا جسے 1951ء میں قائد ملت لیاقت علی خان کی وفات کے بعد ’لیاقت میڈیکل کالج‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ پاکستان بننے سے پہلے 1946ء میں لاہور میں گنگا رام ہسپتال سے منسلک ’بالک رام میڈیکل کالج‘ شروع کیا گیا جو سر گنگا رام کے خاندان کے ہندوستان چلے جانے پر 1947 میں بند کر دیا گیا تھا۔ اس کا دوبارہ اجراء 1948ء میں صرف خواتین کے لئے ’فاطمہ جناح میڈیکل کالج‘ کے نام سے کیا گیا۔

نشتر میڈیکل کالج پہلا میڈیکل کالج تھا جو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مغربی پاکستان میں قائم کیا گیا۔ ملتان میں میڈیکل کالج کے قیام کا خیال سب سے پہلے ڈاکٹر محمد جمال بھٹہ کے ذہن میں 1945ء میں آیا لیکن اسے اس وقت عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ بر صغیر کی تقسیم کے بعد بہت سے ڈاکٹروں کے بھارت چلے جانے پر پنجاب میں ایک اور میڈیکل کالج کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ کرنل ایس ایم کے ملک، جو محکمہ صحت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل تھے، کا خیال بھی یہی تھا کہ پنجاب میں ہنگامی بنیادوں پر ایک اور میڈیکل کالج تعمیر کیا جانا چاہیے۔

چناں چہ حکومت پنجاب نے اس پر سنجیدگی سے غور کیا اور بالآخر سردار عبدالرب نشتر جو پنجاب کے گورنر تھے، نے اس کے قیام کا اعلان کیا۔ انہوں نے ہی 28 اپریل 1951ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ یکم اکتوبر 1951ء کو پہلی کلاس کا اجراء سول ہسپتال ملتان میں کر دیا گیا۔ اس دوران کالج اور ہسپتال کی عمارات کی تعمیر کا کام جاری رہا۔ یکم اکتوبر 1953ء سے 80 بستروں کے نشتر ہسپتال نے بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ ایم بی بی ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد ڈاکٹروں کا پہلا بیچ یہاں سے 1956ء میں نکلا۔

نشتر میڈیکل کالج اور نشتر ہسپتال، نشتر روڈ کے جنوب میں واقع ہیں۔ مشرق میں ہسپتال اور مغرب میں کالج کی عمارتیں ساتھ ساتھ ہیں جن کے بالائی حصے ایک پل (Overhead Bridge) کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ نشتر روڈ کے دوسری طرف لیکن اس سے بالکل متصل ایک وسیع و عریض کھیل کا میدان ہے۔ نشتر روڈ سے ایک چھوٹی سڑک اس میدان کی ایک طرف سے اندر جاتی ہے اور اس کے گرد گھومتی ہوئی دوسری طرف پھر اسی سڑک سے آن ملتی ہے۔ اس میدان کے مغرب میں بڑی سڑک کے قریب مسجد ہے۔ مسجد سے آگے طلباء کے ہاسٹلز، قاسم ہال، رازی ہال اور سینا ہال ہیں۔

کالج میں ورود

مجھے کالج یا ٍ ملتان کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ 28 دسمبر1969ء کو صبح ساڑھے پانچ بجے میں منگلا سے ملتان کے لئے روانہ ہو گیا۔ منگلا سے لاہور اور لاہور سے ملتان تک کا سفر بس پر کیا۔ ریل کے بارے میں پتہ ہی نہیں تھا۔ میرے پاس صرف چھوٹا سا ایک سفری بیگ تھا جس میں کاغذات تھے یا پھر لباس شب خوابی۔ کالج کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں۔ ملتان لاری اڈہ سے رکشہ لیا اور کالج کو چل دیا۔ تقریباً چار بجے رکشہ والے نے رازی ہال کے سامنے اتار دیا۔

کسی سے کوئی جان پہچان نہیں تھی۔ صرف اتنا علم تھا کہ میرپور کالج کے ایک طالب علم، محمد صادق، جو مجھ سے ایک سال سینیئر تھے کوایک سال قبل اسی کالج میں داخلہ ملا تھا۔ میں نے گیٹ پر بیٹھے چوکیدار سے کسی کشمیری لڑکے کا پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ مگر اس نے اتنی مدد ضرور کی کہ ادھر ادھر سے پتہ کر کے مجھے قاسم ہال بھیج دیا۔ وہاں گیٹ پرایک صاحب بیٹھے تھے جو حافظ صاحب کے نام سے موسوم تھے۔ جب ان سے بات کی تو ایسے لگا کہ جیسے انہیں ہر طالب علم کا نام ہی نہیں شجرہ نسب تک معلوم ہے۔

وہ مجھے صادق کے کمرے تک لے گئے۔ صادق سے ذاتی علیک سلیک یا شناسائی نہیں تھی، صرف انہیں دیکھا ہوا تھا۔ صادق تو کمرے میں نہیں تھے۔ البتہ ان کے روم میٹ اکرم ہاشمی وہاں تھے جن کا تعلق بھی میرپور سے تھا۔ اکرم ہاشمی نے میرا استقبال اس طرح کیا جیسے مجھے برسوں سے جانتے ہوں۔ کچھ لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے حقوق پورے کریں یا نہ کریں اس کے بندوں کے حقوق کا بڑا خیال رکھتے ہیں بلکہ اللہ کی مخلوق سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں۔ اکرم ہاشمی بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی زبان میں مٹھاس اور لہجے میں محبت اور احترام کی چاشنی تھی۔ ان کی شخصیت کا بنیادی جزو انسانیت تھا۔ انہوں نے مجھ سے صرف میرا ہی حال احوال نہیں پوچھا بلکہ گھر والوں اور بال بچوں تک کا حال پوچھ ڈالا۔ گھر کے بارے میں انہیں خیریت بتائی اور بال بچوں کے بارے میں عرض کیا کہ سر پر بال تو سلامت ہیں البتہ بچے نہیں ہیں وہ اس لئے کہ ابھی میری شادی نہیں ہوئی۔ کہنے لگے کوئی بات نہیں کبھی تو ہو جائے گی*۔ مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مایوسی گناہ ہے۔ میں ڈر کا مارا اس فکر میں مبتلا تھا کہ مجھے رات گزارنے کے لئے کہیں جگہ بھی ملے گی یا نہیں مگر ہاشمی صاحب جنہیں ابھی سے میری شادی کی فکر لاحق ہو گئی تھی سے مل کر سفر کی تھکن اور سارے تفکرات دور ہو گئے۔ صادق کوئی گھنٹہ بھر بعد تشریف لائے۔ ہاشمی صاحب کے ہوتے ہوئے اب صادق ثانوی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔ دوسرے دن ہاشمی صاحب مجھے کالج کے دفتر میں لے گئے۔ وہاں انہوں نے کلرکوں کے شہنشاہ، مشتاق، سے بات کی۔

مشتاق نے کہا اگرچہ انہیں اطلاع بھجوائی جا چکی ہے، آپ کہتے ہیں تو ایک لیٹر اور جاری کر دیتے ہیں۔ ویسے اطلاعی خط کی اب ضرورت بھی کیا ہے آپ فیس جمع کروا دیں ابھی داخلے کا خط اور رول نمبر ایشو کر دیتے ہیں۔ داخلہ فیس، ڈپازٹ فیس اور ہاسٹل فیس ملا کر کل رقم سات سو پچاس روپے بنتی تھی۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے، میں تو یہاں داخلے کے بارے میں پتہ کرنے آیا تھا۔ فیس یا دوسرے اخراجات کا مجھے سرے سے کوئی علم ہی نہیں تھا۔ میں 31 دسمبر کو گھر واپس آ گیا۔ بستر اور سامان باندھا، رقم ساتھ لی اور 2 جنوری 1970ء کو پھر کالج پہنچ گیا۔ ایک دن بعد کالج میں داخلہ ہو گیا، کچھ میڈیکل ٹیسٹ ہوئے، سرسری سا طبی معائنہ ہوا اور مجھے رول نمبر سلپ جاری کر دی گئی۔

کالج سے کوئی واقفیت نہیں تھی پوچھتا پچھاتا اناٹومی ڈیپارٹمنٹ میں کسی طرح پہنچ گیا۔ پتہ چلا کہ جس گروپ میں میرا رول نمبر ہے اس وقت ان کا ہسٹالوجی (Histology) کا پریکٹیکل ہو رہا ہے۔ کالج میں میرا پہلا دن تھا۔ کلاس شروع ہو چکی تھی۔ دل میں خوف تھا کہ کہیں اس دیر کی وجہ سے مجھے کلاس میں جاتے ہی ڈانٹ نہ پڑ جائے۔ میں نے لیبارٹری تو تلاش کر لی مگر اندر جانے کی ہمت نہیں پا رہا تھا۔ حواس مجتمع کرتے ہوئے نیم وا دروازے سے اندر جھانکا تو ایک محترمہ کلاس لے رہی تھیں۔

میں ڈر کے مارے پیچھے ہٹ گیا۔ غالباً محترمہ نے مجھے اندر جھانکتے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے ایک لڑکے کو بھیج کر مجھے اندر بلوا لیا اور کہنے لگیں جب آپ آہی گئے تھے تو اندر آ جاتے پیچھے کیوں ہٹ گئے۔ مجھے علم ہے کہ ابھی سب کو اپنے اپنے گروپس (Batches) اور ٹائم ٹیبل کا پتہ نہیں ہے۔ سبھی بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ آپ بے شک دیر سے آئے ہیں مگر صحیح جگہ پہنچ گئے ہیں۔ یہ تھیں ہسٹالوجی کی ڈیمانسٹریٹر میڈم طاہرہ بخاری۔ کھلتا ہوا رنگ اور نہایت خوبصورت سراپا، عمر یہی کوئی پینتیس سال کے لگ بھگ۔

ان کے لباس کا ڈیزائن خوب سے خوب تر ہوتا تھا۔ ہمارے لئے وہ حد درجہ محترم تھیں۔ ایک تو وہ ہماری استاد تھیں دوسرے وہ سرجری کے ایک پروفیسر کی اہلیہ تھیں۔ انہیں دیکھ کر گمان ہوتا تھا کہ سماجی اور دینی پابندیوں سے بے بہرہ ماڈرن خاتون ہیں لیکن انہیں قریب سے دیکھنے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ وہ فی الحقیقت نہایت ہی سادہ لوح، نفیس طبیعت اور نرم دل کی مالک بے ریا خاتون ہیں۔ تصنع بناوٹ اور خود پسندی یا خود نمائی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی۔

بظاہر جدیدیت پسند مگر بباطن قدامت پسند، میڈم طاہرہ بعد میں اناٹومی کی پروفیسر اور سربراہ شعبہ بنیں۔ ان کی پروفیسر صاحب سے شادی کے بارے میں بھی دلچسپ روایت بیان کی جاتی تھی۔ غالباً دس سال پہلے اسی کالج میں پڑھتی تھیں۔ صورت اور سیرت کی خوبی کی وجہ سے ان کے بہت سے ہم جماعت ان سے شادی کے خواہش مند تھے۔ کچھ نے تو باقاعدہ ان سے اپنی خواہش کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ امیدواروں کی انہوں نے ایک فہرست مرتب کی اور سرجری کے اسسٹنٹ پروفیسر جن سے ان کی قدرے بے تکلفی تھی کے سامنے جا رکھی۔

ان سے کہا ’سر! میرے یہ ہم جماعت مجھ سے شادی کی خواہش رکھتے ہیں۔ مجھے ان کی کاٹ چھانٹ (Short Listing) میں دشواری کا سامنا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کسے منتخب کروں اور کسے مسترد۔ اسسٹنٹ پروفیسر صاحب، جو پہلے سے شادی شدہ تھے، نے سبھی ناموں پر لکیر پھیر کر، سب کے اوپر اپنا نام لکھتے ہوئے کہا، لو میں نے تمہارے لئے انتخاب کا کام آسان کر دیا ہے۔

ہاسٹل کے شب و روز

میں عارضی طور پر ہاشمی صاحب کے پاس ہی ٹھہرا ہوا تھا۔ پہلا دن تھا۔ اتفاق سے شام کو صادق اور ہاشمی دونوں ہی باہر چلے گئے اور میں کمرے میں اکیلا رہ گیا۔ تین چار دن پہلے تو میں یہاں ایک آدھ دن رہنے کے لئے آیا تھا اس لئے میں اداس نہیں ہوا تھا۔ اب کی بار تو مجھے یہیں رہنا تھا۔ جب گھر سے دوری کا احساس ہوا تو مجھ پر پژمردگی کا دورہ پڑ گیا اور میں رونے لگ پڑا۔ آنسوؤں کی ہلکی سی برسات سی برس پڑی۔ یہ سب کچھ غیر ارادی طور پر ہوا۔ تھوڑی دیر بعد طبیعت سنبھلی تو میں نے سوچا یہ میں کیا کر رہا ہوں۔ یا تو مجھے گھر سے دور آنا نہیں چاہیے تھا اگر آ گیا ہوں تو ہمت سے کام لینا چاہیے۔ ہاشمی اور صادق کے آنے سے پہلے میں اٹھ کر باتھ روم گیا، اپنا منہ دھویا تاکہ میرے دھلے دھلائے چہرے سے انہیں پتہ ہی نہ چلے کہ ان کی عدم موجودگی میں روتا رہا ہوں۔ ہاشمی صاحب مجھے ہاسٹل کی دوسری منزل پہ واقع ایک ڈارمیٹری میں چھوڑ آئے جہاں خواجہ ناظم الدین، علیم اور ناصر امان پہلے سے براجمان تھے۔ یہ سبھی کشمیر سے آئے تھے۔ ناصر امان گلگت سے تھے۔ خواجہ ناظم الدین نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ خواجہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے پوچھتا، تم گھر سے دور آنے پر کہیں افسردہ تو نہیں ہو؟ خواجہ کو میں کیسے بتاتا کہ مجھے گھر سے دوری کا ملال نہیں روگ لگ گیا ہے۔ لیکن میں بار بار یہی کہتا تھا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔

ایک شام ہاشمی صاحب مجھے بلا کر اپنے کمرے میں لے گئے۔ وہاں افضل بٹ بھی آئے بیٹھے تھے۔ وہ اس وقت تیسرے سال میں تھے۔ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا اور کشمیری ہونے کی وجہ سے کشمیر کی سیٹ پر ہی یہاں داخل ہوئے تھے۔ طنز و مزاح ان کی طبیعت کا خاصا تھے۔ وہ کسی بھی صورتحال سے ظرافت کا پہلو نکال لیا کرتے تھے۔ مجھ سے علیک سلیک اور حال احوال پوچھنے کے بعد میری سوانح عمری کا قصہ لے بیٹھے۔ میں نے آج تک اپنی زندگی میں کوئی تیر نہیں مارا تھا۔

بات کرنے کا سلیقہ مجھے آتا نہیں تھا۔ وہ تو آج بھی نہیں آتا۔ میں انہیں کیا بتا تا؟ میں نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اٹک اٹک کر پرائمری سکول، پراجیکٹ ہائی سکول منگلا اور گورنمنٹ کالج میرپور سے حاصل کی گئی اپنی تعلیم کا مختصر سا خاکہ بیان کر دیا۔ کہنے لگے آپ نے اپنی شادی کا قصہ تو بیان ہی نہیں کیا۔ تفصیل سے بیان کریں کہ آپ کی شادی کب اور کیسے ہوئی؟

جی شادی کا تو کوئی قصہ نہیں ہے۔ ابھی میری شادی نہیں ہوئی۔
تو کیا آپ میڈیکل کالج میں شادی کی تلاش میں آئے ہیں؟
جی نہیں۔ کالج میں داخلے کی درخواست دیتے وقت میرے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔

بھول تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ اگر داخلے کی درخواست میں آپ یہ لکھنا بھول گئے ہیں تو اب ایک اور درخواست لکھ کر پرنسپل کے آفس میں جمع کروا دیں۔

وہ کس بات کی؟
یہی کہ آپ شادی بھی کرنا چاہتے ہیں۔

میں کھلکھلا کے ہنس پڑا کہ یہ کس قسم کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پرنسپل آفس نہ ہوا میرج بیورو (Marriage Bureau) یعنی شادی کا دفتر ہو گیا۔ میں نے

صرف ہنسنے پرہی اکتفا کیا اور افضل بٹ کا شکریہ ادا کیا۔ در اصل بٹ صاحب مجھے اپنے ساتھ مانوس کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان سب کے ساتھ گھل مل جاؤں۔ دوسرے دن مجھے ہاشمی صاحب نے بتا یا کہ افضل بٹ تم سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ بٹ صاحب کس بات پر متاثر ہوئے جب کہ مجھ میں متاثر کرنے والی کوئی بات نہیں تھی۔

کالج میں جانے کے ایک دو ہفتے بعد ہی ہمیں کمرے الاٹ کر دیے گئے۔ مجھے علی حسین کے ساتھ کمرہ ملا۔ علی حسین کا تعلق راولا کوٹ، آزاد کشمیر سے تھا۔ سردیوں کا موسم تھا۔ ملتان میں، صحرائی علاقہ ہونے کی وجہ سے، رات کو سخت سردی پڑتی تھی۔ ہم جیسے لوگ جو نسبتاً سرد علاقوں سے آئے تھے انہیں بھی یہ سردی گراں گزرتی تھی۔ ہم رات گیارہ بجے تک پڑھا کرتے تھے۔ کمرے میں ہیٹر لگانے کی ممانعت تھی۔ پروفیسر گلزار جو فزیالوجی پڑھاتے تھے، ہاسٹلز کے چیف وارڈن تھے۔

وہ اچھے استاد تھے لیکن اصولوں اور قوانین کی پابندی کے بارے میں بڑے سخت گیر واقع ہوئے تھے۔ وہ ہر دو تین دن بعد ہاسٹلز کا اچانک دورہ کرتے، اگر کسی لڑکے نے ہیٹر لگا رکھا ہوتا تو اسے جرمانہ کر دیتے۔ چائے بنانے کے لئے پانی امرشن راڈ (Immersion Rod) سے گرم کیا جاتا۔ پہلے تین چار ہفتے ہم پروفیسر گلزار سے ڈرتے اور سردی میں ٹھٹھرتے رہے اور پھر ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ کے اصول کے تحت اور دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی چینی کی پلیٹ پر ایلیمنٹ (Element) فٹ کر کے اور اس کے دونوں سرے بجلی کی تاروں سے جوڑ کر ایک عارضی سا ہیٹر بنا لیا۔ جب بھی پروفیسر گلزار کی آمد پر ایک لڑکا ہوٹر کی آواز اپنے منہ سے نکالتا یعنی سائرن بجاتا ہم ہیٹر کو لپیٹ لپاٹ کے ایک کرسی کے نیچے رکھ دیتے۔ (جاری ہے )

ڈاکٹر جمیل احمد میر
————————–
* میری شادی واقعی اکرم ہاشمی صاحب کی پیش گوئی کے مطابق مئی 1977 ء میں ہو گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments