حق دو تحریک، ایک عوامی تحریک!


مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں حق دو تحریک بلاشبہ مختصر مدت میں بلوچستان کے کونے کونے میں ایک اچھی مقام حاصل کر چکی ہے۔ یہ تحریک گوادر حق دو سے شروع ہو کر گوادر کے مقامی مسائل تحریک کے چارٹر آف ڈیمانڈ تھے آج حق دو تحریک بلوچستان کی شکل میں متحرک لیکن تحریک کے بیشتر مطالبات چارٹر آف ڈیمانڈ کے 21 میں سے چار بمشکل گوادر سمیت بلوچستان کے مشترکہ مسائل ہوں گے جن میں ایف سی کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ، باڈر ٹریڈ، منشیات کا خاتمہ، محکموں کے ٹیسٹ و انٹرویو میرٹ پر مبنی وغیرہ کے علاوہ باقی گوادر کے مقامی مسائل ان کی ترجیح ہیں۔

گو کہ 21 میں سے چار مطالبے گوادر سمیت باقی بلوچستان کے ہیں لیکن انہی مسائل کے شکار لوگوں نے مولانا کا ساتھ دیا ان کو پورا کرنے سے عام اجتماعی مسائل کم ہوں گے ۔

ان خوش کن نعروں کی وجہ سے عورتیں، بچے اور پیر و جوان مولانا کے گرد جمع ہوئے، پھسی ہوئی زیر دست طبقہ جو کہ ریاستی اداروں اور اس سسٹم سے بیراز ریاستی ظلم و جبر کے شکار لوگوں کو ایک امید سی محسوس ہوئی کہ اب ہمیں ایک فرشتہ صفت انسان مولانا ہدایت الرحمٰن کی شکل میں نصیب ہوا ہے کیونکہ مظلوم کو اپنے حق میں پکارنے والے آواز کی تلاش ہوتی ہے چاہے مذہب پرست ہو یا قوم پرست سیاسی مفادات سے بالاتر اپنے لئے ایک مسیحا کی تلاش ہوتی ہے جو زخموں کا مرہم بن سکے۔

آج اگر لوگ مولانا ہدایت الرحمٰن کے ساتھ ہیں جماعت اسلامی والے بھلا اس عوامی تحریک کو اپنا سمجھیں اسے ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں لیکن جب تک جماعت اسلامی کا جھنڈا اور پارٹی رہنماء ریگولر بنیادوں پر تحریک میں ظاہری نہ دیں عوام کا اطمینان رہے گا۔

کراچی کو حق دو جماعت اسلامی کی طرف دیگر اضلاع میں بھی حق دو تحریک کے نام سے مظاہرے ہوتے رہے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق اور کراچی قیادت بھی مولانا سے اظہار یکجہتی کے لئے گوادر دھرنے میں آئے اسی وجہ سے لوگوں میں خدشات پیدا ہوئے کہیں حق دو تحریک جماعت اسلامی کی دوسری شکل نہیں؟

لیکن جناب یوسف مستی خان کی دھرنے میں آمد اور تقریر نے بلوچ عوام کے اعتماد کو بحال کیا اور لوگوں کے حوصلے مزید پختہ ہو گئے اور حق دو تحریک جماعتی رشتہ سے پرے ہٹ گئی۔

اگرچہ حق دو تحریک، جماعت اسلامی کی نہیں، لیکن جماعت اسلامی اب حق دو تحریک بن چکی ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے بعض سوشل میڈیا میں سرگرم رہنماء مولانا ہدایت الرحمٰن کے سرگرمیوں کو جس انداز میں پیش کر رہے وہ حق دو تحریک کو ہی جماعت اسلامی بظاہر پوشیدہ تصور کر کے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں مولانا ہدایت الرحمٰن کو بھی اس بات کا مکمل اندازہ ہے کہ اگر یہاں جماعت کو حائل ہونے دیا تو تحریک بکھر کر عوام بھڑک جائیں گے کیونکہ حق دو تحریک میں 98 فیصد لوگ غیر جماعتی بنیادوں پر صرف ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرنے اور مظالم سے نجات کے لئے ساتھ دے رہے ہیں۔

ساتھ ہی حسین واڈیلہ کے مولانا ہدایت الرحمٰن کے دست و بازو بننے اور حق دو تحریک کے احتجاجی مظاہروں اور 32 دن گوادر دھرنے میں بیٹھے لوگوں سے اپنے جوشیلا انداز اور بلوچستان کی شان و محب میں گرج دار تقاریر سے تحریک میں نئی قوت آ گئی۔ قوم پرست نظریہ رکھنے والوں نوجوانوں کو حق دو تحریک کے لئے منظم و مضبوط کرنے میں ان کے تقریر بہت کاریگر ثابت ہوئے اس لئے اس تحریک کی جان میں زیادہ جان آ گئی اور لوگ سیاسی اختلاف بھلا کر دیگر پارٹیوں سے وابستہ لوگوں نے ریاستی جبر کے خلاف اس عوامی ردعمل کا بھرپور ساتھ دیا بہت کم مدت میں حق دو تحریک ایک منظم عوامی تحریک کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی۔

مولانا ہدایت الرحمن کو اس بات کا اندازہ بھی ہے کہ عوام کی اکثریت ان کے گرد صرف بلوچ کے نام پر جمع ہیں۔ کل اگر جماعت اسلامی کا جھنڈا لگا سراج الحق ہر احتجاج کا حصہ بنتا گیا، تو عوام کا یہ جم غفیر ایسے غائب ہو گا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اور مولانا کی عافیت اسی میں ہے کہ اس تحریک کو متنازعہ بنانے سے بچائیں۔ اگر تھوڑی بھی مصلحت اور غفلت کا مظاہرہ کیا اور ذرا سی غلطی اور لسانی سبقت کا مظاہرہ ہوا تو تاریخ کے بے رحم موجوں میں بلوچ کے نام پر مذہبی کارڈ کے طور پر ایک اور جھوٹ کا اضافہ ہو گا۔

ان تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ بیچارے عوام ہر وقت عوامی مسائل پر مجمع جماتے ہیں لیکن لیڈروں کے نظریہ ضرورت نے ان کی اجتماعی ضروریات کو تہس نہس کر دیا ہے اس لئے عوام کی اکثریت اس نظام کے جمہوری سیاسی ہلچل سے قطع تعلق اور بیزار ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments