پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان طلبا کے تعلیمی مسائل


صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہر ریاست کی اولین ذمہ داری شمار کی جاتی ہے۔ برطانیہ ایک ایسی فلاحی ریاست ہے جو اپنے عوام کی صحت اور تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دیتی ہے۔ برطانیہ کا تعلیمی نظام دنیا کے اچھے اور اعلی نظام تعلیم میں سے ایک ہے۔ ریاست برطانیہ اپنے ہر بچے کو تعلیم کی مفت سہولت فراہم کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں اس وقت پندرہ لاکھ کے قریب پاکستانی نژاد بستے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع میرپور سے ہے۔

1990 ء تک اس پاکستانی کمیونٹی میں بچوں کی تعلیم پر اتنا زور نہیں دیا جاتا تھا۔ بچہ جیسے ہی سولہ سال کا ہوا تو اسے کام پر لگا دیا۔ گو کہ اب صورت حال کافی حد تک تبدیل ہو چکی ہے، پاکستانی بچے تعلیمی میدان میں بہت آگے ہیں، لیکن پھر بھی پاکستانی کمیونٹی کے بچے اچھی اور اعلی تعلیم میں انگریز اور ہندوستانی کمیونٹی سے بہت پیچھے ہیں۔

برطانیہ میں آباد پاکستانی کمیونٹی کے زیادہ تر افراد ہوٹل، ٹیک اوئے اور ٹیکسی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ایسے کاروباروں کے مختلف اوقات کار کی وجہ سے ان افراد کا اپنے بچوں سے رابطہ کم رہتا ہے، وہ اپنے بچوں پر زیادہ توجہ نہیں دے سکتے۔ بچوں کو سکول چھوڑنے لانے کا کام زیادہ تر بچوں کی مائیں انجام دیتی ہیں۔ بچوں سے ملاقات کا محدود وقت ہونے کی وجہ سے یہ افراد بچوں کے سکول اور کالج کی سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتے اور نہ ہی بچوں کی پڑھائی کا انہیں اندازہ ہوتا ہے۔

وہ اپنے بچوں سے ان کے مستقبل کے بارے میں بہت کم بات کرتے ہیں۔ بچے بروقت راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے سکول اور کالج میں اپنے لیے صحیح مضامین کے انتخاب سے قاصر رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی کمیونٹی کے بارہ ہزار سے زیادہ بچے ہر سال سکول سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان طلبا میں سے بیشتر کے پاس اپنے مستقبل کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا۔ ان بچوں میں زیادہ تر کا تعلق برمنگھم اور اس کے اڑوس پڑوس سے ہوتا ہے جو زیادہ تر کشمیری نزاد پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔

برطانیہ ایک ایسا ملک ہے جہاں سکول کی سطح پر تعلیم بالکل فری ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ پاکستانی بچوں میں ٹیلنٹ موجود ہے اس کو صرف اچھے تعلیمی راہنماؤں کی ضرورت ہے جو ان کے رجحان کے مطابق ان کو اعلی تعلیم کے بارے میں صحیح راہنمائی کر سکیں۔ اس کام کے لئے ڈاکٹر کرامت اقبال جیسے نابغہ روزگار پاکستانیوں کے تجربہ سے استفادہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

برطانوی ریاست اپنے شہریوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بے شمار مواقع فراہم کرتی ہے جن سے فائدہ اٹھا کر ہر برطانوی شہری اپنے آپ کو اعلی تعلیم سے بہرہ ور کر سکتے ہیں۔ ایسی ہی جد و جہد کی کہانی ڈاکٹر کرامت اقبال کی ہے۔ پاکستان بننے سے قبل ہی ضلع میرپور سے بہت سے لوگ بحری جہازوں پر نوکر ہو کر برطانیہ منتقل ہو چکے تھے۔ اس لئے جب دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ کو اپنی معیشت کی ترقی کے لئے سستے مزدوروں کی ضرورت پڑی تو برطانیہ میں پہلے سے موجود میرپور کے لوگوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو برطانیہ آنے کی ترغیب دی اور اس سلسلے میں ان کی کافی مدد بھی کی۔ اس وقت تک ہزاروں لوگوں نے اپنی غربت دور کرنے اور بہتر مستقبل کی خاطر میرپور سے سے برطانیہ کا سفر کیا تھا۔ انیس سو ستر تک ضلع میرپور سے ہزاروں افراد اپنے خاندان سمیت برطانیہ میں منتقل ہو چکے تھے۔

کرامت اقبال نام کا ایک بارہ سالہ بچہ ڈڈیال کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے انیس سو ستر میں برطانیہ کے شہر برمنگھم میں پہنچا۔ کرامت ایک بڑا ذہین بچہ تھا جو پڑھائی میں بہت تیز تھا۔ برطانیہ آ کر اس وقت کے رواج کے مطابق اسے سکول میں داخل کرایا گیا۔ یہ ایک مشکل دور تھا۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان تھا۔ انگریزی زبان سے نابلد لوگ کشمیری لوگ برطانیہ کے ناواقف ماحول میں سیٹل ہونے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ ایسے میں جیب خرچ اور کچھ دوسرے اخراجات پورے کرنے کیے لئے کرامت اقبال کو اخبار بیچنے کے علاوہ چھوٹے موٹے جز وقتی کام بھی کرنے پڑے۔

سولہ سال عمر کو پہنچنے کے بعد اس کو اپنی گزر اوقات کے لئے ایک فیکٹری میں کام کرنا پڑا جس وجہ سے اس کو سکول بھی چھوڑنا پڑا۔ کرامت اقبال کو تعلیم حاصل کرنے کی لگن بھی تھی اور اسے اپنے والد کا خواب بھی یاد تھا جو اسے اعلی تعلیم دلانا چاہتے تھے لیکن حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بیٹے کے بہتر مستقبل کی خاطر اسے برطانیہ روانہ کیا تھا۔ دو تین سال کام کرنے کے بعد جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو کرامت اقبال نے کام کرنے کے ساتھ ساتھ سکول میں داخلہ لے کر تعلیم کا ٹوٹا ہوا سلسلہ پھر جوڑ لیا۔

سکول کے بعد کالج میں داخلہ لیا اور گریجویشن مکمل کر کے ایک سکول میں استاد بن گئے اور اس کے چھ سال بعد انہوں نے یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں پوسٹ گریجوایشن مکمل کر لی۔ دس بارہ سال تک سکول میں بطور استاد اور ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران انہوں نے اپنی پاکستانی کمیونٹی میں تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے بہت کام کیا۔ سکول اور کالج میں پڑھانے کے دوران انہوں نے برطانوی نظام تعلیم کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس میں مزید بہتری لانے کے لئے حکومت کو بہت سی تجاویز دیں۔

ایک عرصہ کالج میں پڑھانے کے بعد انہیں کالج کی ملازمت چھوڑنا پڑی تو انہوں نے اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیمی مشاورت کا ایک ادارہ بنا لیا۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ کے مختلف اداروں کے لئے ریسرچ کا کام کرنا شروع کیا۔ اسی دوران انہوں نے برمنگھم میں ایشیائی اور پاکستانی کمیونٹی کے والدین اور بچوں میں اعلی تعلیم کے رجحانات پر کافی ریسرچ کی اور حکومت کو اس میں بہتری لانے کے لئے بہت سی تجاویز پیش کیں۔ اپنے والد کے اپنی اعلی تعلیم کے خواب کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے پی ایچ ڈی کی تیاری شروع کی اور اس ستاون برس کی عمر میں واروک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کی ان کے مقالہ کا موضوع تھا۔ ”برمنگھم کے سکولوں میں برطانوی پاکستانی بچے۔ تعلیم اور مذہب کا کردار“

برطانیہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر کرامت اقبال کی جو گزشتہ باون سالوں سے برمنگھم شہر میں سماجی انصاف، مساوات اور تعلیم کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اس عرصہ میں انہوں نے مقامی کونسل کی نگرانی میں کام کرنے والے اسکولوں کے مشیر اور محکمہ تعلیم کے علاوہ مختلف سرکاری محکموں کے مشیر کے طور پر کام کیا ہے۔ پسماندہ نوجوانوں کی تعلیم کو بہتر بنانا ان کا ایک دیرینہ عزم رہا ہے۔ برطانوی حکومت نے ان کی سفید فام محنت کش طبقے کے بچوں کی تعلیم میں بہتری لانے کے لئے ان کی ریسرچ کا فائدہ اٹھایا گیا۔ وہ ان دنوں نیشنل چرچ آف انگلینڈ اور لارنس شیرف ٹیچنگ سکول کے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت وہ برطانوی مسلمان بچوں کی تعلیم پر ایک کتاب لکھنے کے علاوہ برطانیہ میں مقیم کشمیری کمیونٹی کے حالات زندگی پر بھی ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔

ڈاکٹر کرامت اقبال نے برطانیہ میں مقیم ایشیائی طالب علموں خاص کر پاکستانی نژاد برطانوی طالبعلموں کو برطانیہ کے سکولوں اور یونیورسٹی میں درپیش تعلیمی مسائل پر کافی ریسرچ کی ہے اور وہ اپنی کمیونٹی کے ان تعلیمی مسائل کو حل کرنے میں کافی سنجیدہ بھی ہیں۔ کل یارکشائر میں منعقدہ ایک تقریب میں بریڈ فورڈ کے سب سے پہلے پاکستانی نژاد کشمیری لارڈ میئر منتخب ہونے والے محمد عجیب نے بھی پاکستانی کمیونٹی کے بچوں کے ان تعلیمی مسائل پر فکر مندی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت برطانیہ میں اکثر بڑے شہروں میں میئر اور ڈپٹی میئر بھی پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ انہیں بھی اپنی کمیونٹی کے ایسے مسائل کا جائزہ لے کر اپنی کمیونٹی کے بچوں کی راہنمائی کرنی چاہیے۔ میری بھی یہ ذاتی رائے ہے کہ ڈاکٹر کرامت اقبال اور ان جیسے دوسرے پاکستانی نژاد دانشوروں کی سفارشات کی روشنی میں پاکستانی کمیونٹی کے ان طالب علموں کو مضامین اور مستقبل کے لئے راہنمائی فراہم کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments