سڈنی سے مدینہ منورہ کا سفر


2؍کتوبر2013ء کی صبح چھ بجے سڈنی سے ہماری روانگی تھی۔ امارات ائرلائن کی یہ سولہ گھنٹے کی فلائٹ اس وقت تک میری زندگی کی طویل ترین فلائٹ تھی۔ دبئی میں چند گھنٹے رک کر دبئی ائر لائن کی فلائٹ سے ہم مدینہ منورہ جا رہے تھے۔ صبح تین بجے میرے ایک دوست نے ہمیں ائر پورٹ ڈراپ کیا۔ اتنی صبح سڈنی ائرپورٹ آنے کا بھی میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت بین الاقوامی ائرپورٹ کا وسیع و عریض لاؤنج دور دور تک خالی ہی نظر آ رہا تھا کیونکہ صبح کی سب سے پہلی فلائٹ ہماری ہی تھی۔

سڈنی ائرپورٹ رات کے وقت بند کر دیا جاتا ہے۔ اتنا بڑا اور مصروف ائر پورٹ ہونے کے باوجود رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک کوئی پرواز نہ یہاں سے روانہ ہوتی ہے اور نہ اترتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ائر پورٹ کے گردونواح میں رہنے والے لوگوں کے آرام میں خلل نہ آئے۔ پروازوں کی اس بندش سے ائرلائنوں، ایوی ایشن اور ملک کو کتنا نقصان ہوتا ہو گا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن یہاں عوام کی سہولت اور آرام کو پہلی ترجیح حاصل ہے۔ کوئی مالی فائدہ اور نقصان عوام سے بڑھ کر نہیں ہے۔

امارات ائرلائن کا یہ جہاز آدھے سے زائد خالی تھا۔ اس سفر میں کئی انوکھی چیزیں دیکھیں۔ اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ سڈنی سے روانہ ہونے والی کسی بین الاقوامی پرواز میں اتنی سیٹیں خالی تھیں۔ ور نہ یہاں سے روانہ ہونے والے تمام جہاز اس طرح بھرے ہوتے ہیں جیسے کراچی کی ویگنیں۔ سیٹوں کا خالی ہونا بھی ہمارے لیے نعمت تھا۔ ایک ہی سیٹ پر بیٹھ کر سولہ گھنٹے گزارنا بہت مشکل ہے۔ مجھے تین گھنٹے مسلسل بیٹھنے کے بعد گھٹنوں میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہر دو تین گھنٹے کے بعد میں سیٹ چھوڑ دیتا ہوں اور راہداری میں چہل قدمی کرتا ہوں۔ اس سے یہ درد ختم ہوتا ہے۔

آج کل اکانومی کلاس میں سیٹوں کے آگے درمیانی جگہ بہت کم کر دی گئی ہے۔ پرانے جہازوں میں یہ جگہ اتنی کم نہیں ہوتی تھی۔ بہرحال لمبی پرواز میرے لیے ہمیشہ آزمائش بن جاتی ہے۔ جگہ کم ہونے کی وجہ سے ٹانگیں جوڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اکڑ جاتی ہیں۔ اوپر سے ہوائی سفر بور بھی ہوتا ہے۔ باہر دیکھنے کے لیے کچھ ہوتا نہیں اور اندر وہی فضائی میزبان اور ساتھی مسافر۔ ان کو کتنی بار دیکھیں گے۔ اس لیے میں ہمیشہ سو کر سفر گزارتا ہوں۔

وہ الگ بات ہے کہ اتنی تنگ جگہ میں فٹ بال بن کر سونا آسان نہیں ہوتا۔ پی آئی اے کو چھوڑ کر دوسری ائرلائنوں کے کھانے ایسے ہوتے ہیں جیسے ہسپتال میں دل کے مریضوں کو دیے جاتے ہیں۔ چائے طلب کریں تو نیم گرم پانی میں ٹی بیگ ڈال کر تھما دیا جاتا ہے۔ میرے جیسے کڑک چائے پینے والے کے لیے یہ سرے سے چائے ہی نہیں ہے۔ ائر ہوسٹس کی بناوٹی مسکراہٹ، ہم سفروں کے نخرے اور جہاز کی مسلسل گھوں گھوں سے انسان اکتا جاتا ہے۔ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے جسم اکڑ جاتا ہے۔ اگر درمیانی یا کھڑکی والی سیٹ ہو تو دوسرے مسافروں کو اٹھانا پڑتا ہے یا ان کے اوپر سے چھلانگ لگا کر آئل میں جانا پڑتا ہے۔ اگر ہم سفر ذرا نخریلے ہوں تو یہ مشکل مزید بڑھ جاتی ہے۔

میں سوچتا ہوں اس سے تو پاکستان کی ٹرینیں اچھی ہیں۔ جہاں مسافروں، خوانچہ فروشوں، دوا فروشوں، بھکاریوں اور بھانت بھانت کے مسافروں کی وجہ سے کتنی رونق ہوتی ہے اور وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔ تا ہم یہ ساری رونق نچلی کلاس تک محدود ہوتی ہے۔ اپر کلاس وہاں بھی دڑبوں میں بند ہو کر دنیا سے الگ تھلگ ہو جاتی ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں میں نے کراچی سے پنجاب کے درمیان ٹرین میں بہت سفر کیا ہے۔ اس سفر سے میں کبھی بور نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی تھکتا تھا۔ کیا بات ہے اپنے وطن کی اور کیا بات ہے پاکستان ریلوے کی۔

ریلوے کا ذکر چل نکلا ہے تو آسٹریلیا کی ریل کا بھی مختصر سا ذکر کر دوں۔ سڈنی میں سالہاسال تک میں نے ریل میں سفر کیا ہے۔ بہت صاف ستھری اور ائرکنڈیشنڈ ٹرینیں اپنے نظام الاوقات کے مطابق چلتی ہیں۔ لیکن ان میں ذرا بھی رونق نہیں ہوتی ہے۔ صبح ٹرین میں سوار ہوں تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسافروں سے بھری ہوتی ہیں۔ کوئی اکا دکا سیٹ خالی ملتی ہے۔ لیکن اس بھری ٹرین میں ایسے سناٹا ہوتا ہے جیسے یہ سب کسی کو دفنانے جا رہے ہوں۔ مجال ہے جو کسی کی زبان سے لفظ بھی پھوٹے۔ کوئی کسی کی طرف دیکھ کر مسکرا دے۔ کوئی حال چال ہی پوچھ لے۔

سب سرجھکا کر کتاب پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ آنکھیں بند کر کے سستا رہے ہوتے ہیں۔ یا لیپ ٹاپ میں الجھ کر دنیا و مافیا سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایسے میں کسی کو چھینک آ جائے یا کسی کو کھانسی آئے تو وہ اسے بھی روکنے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں یہ بظاہر مردے زندہ نہ ہو جائیں۔ اگر یہ کھانسی دوبارہ آئے تو کئی مسافر سر اٹھا کر اسے ایسے دیکھتے ہیں کہ کھانسنے والا بے چارہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس سے کتنا بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے اور اس نے کیسے معصوم لوگوں کی نیند خراب کر دی ہے۔ لہٰذا اپنی منزل پر پہنچتے ہی وہ ڈاکٹر یا کیمسٹ شاپ کا رخ کرتا ہے تا کہ کوئی دوا وغیرہ لے کر اس مرض سے جلد چھٹکارا حاصل کر لے اور آئندہ ٹرین میں یہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

دوسری طرف اپنے وطن کی ٹرینوں کی رونق سے ہم سب واقف ہیں۔ اس لیے وطن کی ٹرینوں کی ہمیشہ یاد آتی رہتی ہے۔ خاص طور پر مختلف اسٹیشنوں پر ہاکروں کی صدا ہمیشہ کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ چائے لے لو چائے۔ ملتان دا سوہن حلوہ۔ مرغ چھولے۔ ٹھنڈی ٹھار بوتلیں۔ آنکھوں کے ہر مرض کا علاج مصطفائی سرمہ، پیٹ کے ہر درد کا علاج لاہوری چورن، حیدر آباد کی چوڑیاں، کرارے پکوڑے، چٹپٹی دال جو دیکھنے میں دال اور کھانے میں مرغ ہے۔

ان کے علاوہ بھانت بھانت کے بھکاری، گا کر مانگنے والے، چندہ جمع کرنے والے اور جنت میں گھر بانٹنے والے، اخبار اور رسالے والے۔ ان سب کے ہوتے ہوئے انسان کبھی بور ہو سکتا ہے بھلا۔ یوں سفر جتنا لمبا ہو آسانی سے گزر جاتا ہے۔ اس کا علم پاکستان ریلوے کو بھی ہے۔ میرا چوبیس گھنٹے کا سفر اکثر تیس گھنٹے یا اس سے بھی بڑھ جاتا تھا۔ وقت پر پہنچنے کی نہ مجھے توقع ہوتی تھی اور نہ فکر۔ بھلا اتنی رونق چھوڑ کر جانے کو کس کا دل چاہے گا۔

سڈنی کی ٹرینیں اس کے مقابلے میں بالکل روکھی پھیکی محسوس ہوتی ہیں۔ ان کو چاہیے کہ پاکستان ریلوے سے سبق سیکھیں اور مسافروں کی سہولت کے لیے ٹرینوں میں کچھ تو رونق لگائیں۔ اور نہیں تو ہاکروں کو ویزے دے کر بلا لیں۔ انھیں ان ٹرینوں میں چٹپٹی چیزیں بیچنے کا موقع دے کر نہ صرف ٹرینوں کی رونق بڑھائیں بلکہ مسافروں کی صحت بھی بہتر کریں۔ اس سے آسٹریلین ریل کی آمدن بھی بڑھے گی اور اس کی مقبولیت بھی۔

میں ہوائی سفر کا ذکر کر رہا تھا۔ اس سفر میں مجھے سب سے زیادہ دقت یہ ہوتی ہے کہ دوران پرواز میں سگریٹ نوشی نہیں کر سکتا۔ اس مشکل کا اندازہ سگریٹ نوش ہی کر سکتے ہیں کیونکہ دوسرے لوگ تو ہم سگریٹ نوشوں سے ویسے ہی تنگ رہتے ہیں۔ صاحبو! سگریٹ نوشی کے خلاف اتنا لکھا اور بولا جاتا ہے کہ جو لوگ سگریٹ نوشی نہیں کرتے وہ سگریٹ نوشوں سے ہی نفرت کرنے لگتے ہیں۔ مانا کہ سگریٹ نوشی بری عادت ہے۔ لیکن سگریٹ نوشوں سے نفرت تو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ سگریٹ نوشی کو میں خود بھی اچھا نہیں سمجھتا ہوں۔ لیکن کیا کروں!

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

ویسے یہ مصرعہ شاعر نے کسی اور بلا کے بارے میں کہا تھا جو سگریٹ کی نسبت پھر بھی آسانی سے چھوڑی جا سکتی ہے۔ سگریٹ نوشی ترک کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ آخر اس بات کو میرے احباب کیوں نہیں سمجھتے کہ سگریٹ نوشی بری سہی لیکن کھانے اور چائے کے بعد ظالم مزا بہت دیتی ہے اور اگر نہ پیو تو کھانے کا مزہ بھی کرکرا ہو کر رہ جاتا ہے۔ زندگی میں کوئی ذائقہ تو باقی رہنا چاہیے۔ ورنہ کیا فائدہ سیدھی، سپاٹ اور روکھی پھیکی بے کیف زندگی کا ۔

یہ بات میں اپنے ان دوستوں کے لیے کہہ رہا ہوں جو میری سگریٹ نوشی چھڑوا کر دنیا کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر میں سگریٹ نوشی چھوڑ دوں تو امریکہ مزید کوئی جنگ نہیں چھیڑے گا اور دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی۔ گویا میری سگریٹ نوشی سے دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ گلوبل وارمنگ بھی میری سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہی ہے۔

خیر میرے یہ دوست اپنی دھن کے پکے ہیں تو ہماری مستقل مزاجی بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ تو صاحبو میری یہ مستقل مزاجی پچھلے تیس سال سے برقرار ہے۔ یہ مستقل مزاجی اس وقت ختم ہوگی جب سگریٹ نہیں ہوں گے یا پھر سگریٹ نوش نہیں ہو گا۔ لہٰذا میرے ناصح دوست اپنے پند و نصائح اور طنز کے تیر خواہ مخواہ ضائع نہ کریں۔

سگریٹ نوشی کچھ عرصہ پہلے تک اتنی بری نہیں سمجھی جاتی تھی جتنی فی زمانہ ہو گئی ہے۔ آج سے بیس پچیس برس قبل سگریٹ اور حقہ ہر گھر میں موجود ہوتا تھا چاہے گھر میں کوئی پینے والا ہو یا نہیں۔ دیہات میں کسی کے گھر میں مہمان آتے تھے تو کھانے یا چائے کے ساتھ حقہ ضرور پیش کیا جاتا تھا۔ سردیوں میں درجنوں خواتین و حضرات اور بچے بڑے کمرے میں بیٹھے ہوتے تھے۔ چائے کے دور چلتے تھے۔ مونگ پھلی اور کینو کھا کر چھلکے فرش پر ڈھیر کیے جاتے تھے۔

اس کے ساتھ مردانہ اور زنانہ حقہ بھی گردش میں رہتا تھا۔ کبھی ایک کے ہاتھ میں اور کبھی دوسرے کی دسترس میں۔ کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں سردی کی وجہ سے بند رہتی تھیں اور اندر دھواں بھرا رہتا تھا۔ سردی کی شدت بڑھ جائے تو اپلوں والی انگیٹھی بھی جلا کر کمرے کے درمیان رکھ دی جاتی تھی اور دھوئیں میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ کسان جہاں بھی جمع ہوتے تھے حقہ ان کے درمیان گرم رہتا تھا۔ نہ کسی کو دھوئیں سے بیر تھا اور نہ حقہ پینے والے سے۔

شہروں میں بھی اس وقت سگریٹوں کی ممانعت نہ تھی۔ دفاتر، بنک، ٹرینوں اور ہوائی جہاز، دکانیں حتیٰ کہ ہسپتال میں بھی لوگ سگریٹ نوشی کرتے نظر آتے تھے۔ آج سے پندرہ بیس سال قبل تک ہوائی جہازوں میں سگریٹ نوشی کی اجازت ہوتی تھی۔ جہاز اڑتے ہی سگریٹ نوشی والی بتی بجھ جاتی تھی اور سگریٹ جل اٹھتے تھے۔ پرانی فلموں اور ڈراموں میں پروفیسر کلاس میں سگریٹ یا سگار پیتے دکھائی دیتے تھے۔ سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی میں آسٹریلیا دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔

آسٹریلوی حکومت کو مجھ سے تو خصوصی پرخاش ہے۔ وہ اس طرح کہ سگریٹ نوشی پر پابندیوں کا سلسلہ1994ء میں میری آسٹریلیا آمد کے فوراً بعد شروع ہوا۔ شروع میں دفاتر، بنک اور ہسپتالوں میں سگریٹ نوشی پر پابندی لگی۔ پھر شاپنگ سنٹرز اور ریستوران اس کی زد میں آ گئے۔ پھر عوامی ٹرانسپورٹ اور ہوائی جہازوں میں بھی ممانعت ہو گئی۔ دس بارہ برس قبل سگریٹ فروشوں کو حکم ہوا کہ سگریٹ نظر نہیں آنے چاہئیں اور انھیں ڈھک کر رکھیں۔

پھر ان کے نام تبدیل کرنے کا حکم ملا۔ اس میں شامل نیکوٹین کی مقدار لکھنے پر پابندی لگی۔ آخر میں اس کی پیکنگ بدل کر انھیں سادہ کر دیا گیا۔ ان پر ڈراؤنی تصاویر اور سگریٹ نوشی سے انتباہ پر مشتمل جملے تحریر کیے گئے۔ اس دوران سگریٹ پر ٹیکس اس قدر بڑھا دیا گیا کہ 1996ء میں جو پیکٹ تین چار ڈالر میں ملتا تھا اب وہ تیس ڈالر سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ حالانکہ باقی اشیائے ضرورت کے نرخ اس تناسب سے کبھی نہیں بڑھے۔ غرض یہ کہ آسٹریلین گورنمنٹ نے میری سگریٹ نوشی پر قدغن لگانے کے لیے ہر جتن آزمایا لیکن انھیں کامیابی پھر بھی نہیں ملی۔ ان کی ادائیں قاتلانہ ہیں تو ہم بھی تیر ستم کھانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کی جورو ستم کی حد کہاں تک ہے۔

ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
(سفر عشق۔ ص۔ 67۔ 69)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments